اپنی دنیا کو سرسبز بنائیں

اس دنیا میں موسموں کی تبدیلی اور انسانی زندگی میں ہونے والے ردوبدل نے یکسر یہ سوچنے پر مجبور کردیاہے ۔یہ اس قدر دن بہ دن موسموں کا بدلنا،انسان کا زمین پر جینا دوبھر ہوتاچلاجارہاہے ۔آخر ماجراکیاہے ۔
قارئین کرام آئیے اس معمہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نظام شمسی میں ہمارے سیارے کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ صرف اسی پر زندگی اپنی گو نا گوں صفات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خلا سے کرۂ ارض کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ دنیا بڑی حسین نظر آتی ہے کروڑوں سال پہلے جب زندگی نے اس سر زمین پر پہلی انگڑائی لی تھی تو یہ ایسی نہ تھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمہ انواع و اقسام کے جانور اور پودے جنم لیتے گئے اور اس کے حسن میں اضافہ کرتے گئے اس وقت فطرت کی گود میں پلنے والا انسان بڑا نرم گو اور قطعی بے ضرر تھا۔ فطرت سے اس کا گہرا اور قریبی رشتہ تھا۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو وہ بیش بہا عطیہ جان کر استعمال ضرور کرتا تھا مگر اس کے استحصال اور اس نظام میں مداخلت کا خیال کبھی نہیں آیا کہ وہ ماحول کا ایک لازمی عنصر بن کر زندگی گذارتا تھا۔ گھنے جنگل ، اونچے اونچے پہاڑ، سر سبز مرغزار، اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں ، گنگناتے ہوئے جھرنے، شور مچاتے ہوئے آبشار قسم ہا قسم کے چرند و درند، خوبصورت رنگوں اور دلنشین آوازوں والے پرند، سرسبز و شاداب درخت، رنگ برنگے پھول اس کے دن بھر کے جسمانی تھکن اور ذہنی کلفتوں کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ تھے۔

قارئین :جوں جوں اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتارہا۔اس زمین کے سینے پر موسمی تغیرہوتارہا۔وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے جنگلات کے خاتمہ سے ایک طرف قدرتی توازن برقرار نہ رہ سکا جس سے موسم متاثر ہوئے جس کا لامحالہ اثر خود انسان کی زندگی پر پڑا۔فضا جو کہ بڑی حد تک پاک صاف ہوا کرتی تھی ۔وہ آلودہ ہوئی ۔ گنجان بستیوں سے گندے پانی اور انسانی فضلہ کے نکاس ،گھڑگھڑاتی مشینوں ، دھواں اگلتی چمنیوں اور حمل و نقل کے ذرائع نے روز افزوں ترقی نے ہوا اور پانی کو آلودہ کیا ۔ انسانی اور صنعتی فاضلات کو ٹھکانے لگانے کے لئے انسان کو دریا اور سمندر کے علاوہ دوسرا ٹھکانہ نظر نہیں آیا۔ پانی کی آلودگی نے مچھلیوں سمیت بہت سے آبی جانوروں کی نسل کو خطرہ سے قریب کیا ہوا اور پانی کی آلودگی کا اثر پرندوں پر بھی پڑا۔ اور اس طرح قدرت میں موجود قدرتی غذائی زنجیر متاثر ہوئی۔

قارئین :تب کیا پچھتائے جب چڑیا چک گئیں کھیت ۔برسوں تک جنگلاتی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے بعد انسانوں کو اس کا احساس اس وقت ہوا جب کہ خوداس کی زندگی اس کی معیشت متاثر ہوئی ۔ موسموں کی باقاعدگی متاثر ہوئی ۔ خشک سالی، قحط سالی اور سیلاب عالمی مسئلے بن گئے ۔اب سر پکڑ بیٹھ گیا انسان کہ کس انجام سے گزرنا پڑے گا۔

کتنی بے دردی کے ساتھ اس انسان نے درختوں کو کاٹنا شروع کیا ۔کبھی پلٹ کے بھی نہیں سوچا۔یہ درخت اس کائنات میں اس انسان کی زندگی کے لیے کس قدر مرکزی کردار اداکرتاہے ۔بلکہ اس کی زندگی کے تارے ان درختوں کے کئی پہلووں سے جڑے ہوئے ہیں ۔

ہم اچھی طرح جانے ہیں کہ اس کائنات میں ذی روح و جانداروں کے لیے آلودگی سے پاک ماحول ہے ۔ آب و ہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزیں ہر زمانہ میں رہی ہیں ، خود حضرت انسان سے نکلنے والا فضلہ گھریلو کوڑا کرکٹ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے، لیکن جدید صنعتی انقلاب نے جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات میں انسان کو بام عروج پر پہونچا دیا وہیں آب و ہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والی نت نئی شکلیں پیدا کردیں، فیکٹریوں اور مختلف کارخانوں سے خارج ہونے والے فضلات اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں نے ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے ، بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے سبب فضا ہمیشہ گرد آلود رہتی ہے ۔موجودہ دور میں کثرتِ امراض کا ایک اہم سبب ماحولیاتی آلودگی ہے، آلودہ ماحول پراگندہ آب وہوا اور بڑھتی ہوئی کثافت عصر حاضر کا ایک گم بھیر مسئلہ بنتی جارہی ہے، چنانچہ اس مسئلے کے حل کے لئے دنیا کے بڑے ممالک عالمی سیمنار منعقد کرتے ہیں، نیز عمومی بیدار شعوری کے لئے دنیا بھر میں عالمی یوم تحفظ ماحولیات منایا جاتا ہے۔

تادم بیان (جون 2018)دنیا میں ماحولیات آلودگی کے حوالے سے الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیاپر شعور و آگاہی کے لیے کمپین جاری ہیں ۔

قارئین آئیے !!!اب ہم حل کی جانب بڑھتے ہیں ۔

ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ اور انسان کو صاف و شفاف ہوا فراہم کرنے والے تمام ہی ذرائع میں ایک اہم ذریعہ درخت اور درختوں سے بھرے گھنے جنگلات ہیں۔آئیے دین فطرت سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ اگر باریک بینی سے قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ خالق کائنات و مالک عرض و سموات نے درختوں اور نباتات کے نظام کو اﷲ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآ ِ مَآء ً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ ()
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا اس سے تمہارا پینا ہے اور اس سے درخت ہیں جن سے چَراتے ہو ۔‘‘

پھر ارشاد فرمایا:
یُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَ النَّخِیْلَ وَ الْاَعْنٰبَ وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ()
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’اس پانی سے تمہارے لئے کھیتی اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں ‘‘

سبحان اﷲ :ان سے جانوروں کو غذا حاصل ہوتی ہے اور ان کے پھلوں اور غلہ سے انسان بھی اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔

اس کتاب مبین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ ()(سورۃ النحل ۔آیت:۶۸)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں‘‘۔

دنیا کا وہ کونسامسئلہ ہے جس کا حل کتاب مبین میں حل موجود نہیں وہ کونسا مرحلہ ہے جس میں دستور حیات ہمارا رہبر نہیں ۔

قرآن مجید نے ارشاد فرمایا:وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَیْنَاء تَنبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآکِلِیْنَ. (سورۃ المؤمنون،آیت:۲۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :اور وہ پیڑ پیدا کیا کہ طور سینا سے نکلتا ہے ۔لے کر اگتا ہے تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن ۔
یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃ
ترجمہ ٔ کنزالایمان : برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا۔

قارئین کرام :آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ پودے ،یہ پھول کلیاں ،یہ گھنے ہرے بھرے جنگلات ہماری زندگی میں کتنی بڑی خوشیوں ،راحتوں و تسکین کا باعث ہیں ۔

لیکن ایک ہم ہیں کہ بے دردی کے ساتھ ان درختوں کو ختم کرتے چلے جارہے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ طرح کے امراض ہمارا مقدر بن گئے ۔اُٹھیے اور اپنے حصے کا ایک پودا لگادیجیے ۔اپنی دنیا کو سرسبز و شاداب رکھئے ۔شجرکاری مہم کو عام کیجئے ۔

بہت سے جانور سبزی خور ہوتے ہیں۔ ان سبزی خور جانوروں کو انسان اور دیگر جاندار کھاتے ہیں اس طرح درخت، پودوں کے ذریعے خوراک کی ایک زنجیر وجود میں آتی ہے ۔ اس کے علاوہ انسان ہوں یا جانور، سبھی کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ آکسیجن درختوں، پودوں کے سوا اور کہیں سے نہیں ملتی ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سے انسان نے دنیا میں آنکھ کھولی ، درخت اس کی اہم ترین ضروریات میں شامل رہے ہیں۔ آج ہمارے پاس درخت گھٹتے جا رہے ہیں اس لیے ضروت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ زندگی اسی طرح رواں دواں رہے۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 383 Articles with 598078 views i am scholar.serve the humainbeing... View More