اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان
امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے پاس آفیشل طور پر ایٹمی ہتھیار
موجود ہیں جبکہ پاکستان اور ہندوستان بھی ایسے ممالک میں شامل ہیں جو کہ ان
ہتھیاروں کا تجربہ کر چکے ہیں۔ اسرائیل کو بھی ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملک
میں شمار کیا جاتا ہے تاہم اس نے کبھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔ایٹم
بم طبیعات کے قانوں نیوکلیئرفشن پر کام کرتے ہیں جس میں یورینیم کا ایٹم
ایک سے زائد زرات میں تقسیم ہوکر بڑے پیمانے پر توانائی کا اخراج کرتا ہے ۔
اس ہتھیار کا سب سے پہلا تجربہ امریکا نے 1945ء میں نیو میکسیکو میں کیا
تھا تجربے کے فوراً بعد امریکا نے یورینیم کو بطور ایندھن استعمال کرنے
والے ایٹمی ہتھیار کے ذریعے جاپان کے شہر ہیرو شیما کو تباہ کیا۔ اس حملے
کے تین دن بعد امریکا نے جاپان کے شہر ناگاساکی کو بھی ایٹم بم کا نشانہ
بنایا۔دوسری جنگِ عظیم کا یہ ایک اندوناک واقعہ تھا۔اب آجائیں کہ پاکستان
کو کیوں ضرورت پیش آئی نیوکلیئر ہتھیار کی یاپاکستان کیسے نیوکلیئر پاور
بنا۔ اس پر کس نے کام کیا ۔نئی نسل کو اس بارے میں کم علم ہے زیادہ تر لوگ
ڈاکٹر عبدالقدیر کو جانتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔پاکستان کے جوہری ہتھیار
کی بنیا د 1972 ء شہید ذوالفقار علی بھٹوصاحب نے رکھی۔جب وہ وزیر اعظم تھے
انہوں نے پاکستان ایٹامک انرجی کمیش(PAEC) کو ہدایت کی تھی کہ چار سالوں
میں بم تیار کیا جائے۔اس وقت اس کمیٹی کو منیر احمد خاں ہیڈ کر رہے تھے۔
منیر احمد خان چار برس میں تو پورا نہیں کر پائے کیونکہ ان کو فوسل مادہ
Fissile Material))بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا فوسل میٹریل وہ مادہ
ہوتا ہے جو نیو کلیئر Fission چین ری ایکشن کو سسٹین کرتا ہے۔ بھٹو صاحب نے
1974 ء میں عبدلالقدیرخان کو یورپ سے بلایا فوسل میٹریل کے بغیر نیوکلیئر
بم ناممکن تھا۔ اس کے لیے کہوٹہ پرجیکٹ شروع کیا گیا۔ جس میں اے جی این
قاضی، غلام اسحاق خان اور آغا شاہی موجود تھے جو برائے راست بھٹو صاحب کو
رپورٹ کرتے تھے۔ پاکستان نے نیو کلیئر ہتھیار کیوں بنایایاکیوں بنانا چاہا
اس کی کچھ وجوہات تھی جن میں ایک وجہ 1965ء میں بھٹو صاحب نے ویانا کا دورہ
کیا تو وہاں ان کی ملاقعات منیر احمد خان سے ہوئی ۔ جنہوں نے بھٹو صاحب کو
بتایا کہ انڈیا نیو کلیئر ہتھیار بنا رہا ہے اور انہوں نے اس کے اسٹیٹس کا
بھی بھٹو صاحب کو بتایا۔ منیر احمد خان نے جو Feasibilityرپورٹ بنائی جس
میں انہوں نے تخمینہ لگایا کہ 150ملین ڈالر میں نیو کلیئر بم بن جائے گا ۔
1965 ء میں بھٹو صاحب نے اس کو ایوب خان سے ڈسکس کیا۔ لیکن ایوب خان نے یہ
درخواست ٹکرا دی اور کہا کہ ہم ایک غریب قوم ملک ہیں ہمارے پاس اتنے پیسے
نہیں کہ ایٹم بم بنائیں۔
دوسری وجہ انڈیا کا نیوکلیئر پروگرام سے بھٹو صاحب کو خطرہ لگ رہا تھا اور
پھر انڈیا نے 1974ء میں اپنا پہلا نیوکلیئر ر ہتھیار ٹیسٹ کیا پاکستان نے
پہلے کوشش کی کہ ساؤتھ ایشیاء میں نیوکلیئر آمرز ریس نہ ہو اس ریجن کو
نیوکلیئر ہتھیار سے فری زون رکھیں لیکن انڈیا نے ساری آفر مسترد کردی ۔ اس
لئے بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ پاکستان بھی نیوکلیئر ریاست بنے انہوں نے 1965ء
میں کہا کہ اگر انڈیا بم بنا لیتا ہے تو ہم ہزار سالوں تک گھاس اور پتے کھا
لینگے ، بھوکے مر جائینگے لیکن بم ضرور بنائینگے۔
’’If India build the bomb we will eat grass and leaves for thousand
years even go hungry but we will get one of our own. The Christian have
the bomb, the Jews have the bomb and now the Hindu have the bomb why not
the Muslims for have the bomb‘‘
یہ وہ تاریخی الفاط تھے جو بھٹو صاحب نے مانچسٹر گارجیئن کو انٹرویو میں
دیے۔
1969ء میں یو کے میں Nuclear Fuel Processing Plantسپلائی کرنے کی ہامی
بھری ہمیں چاہیے کہ یورینیم کا پتہ لگائیں۔ پتہ لگاکہ وطن کی مٹی میں ہی
یورینیم موجود ہے ڈیرہ غازی خان میں یونییم کے ذخائر ملے اور 1970ء میں اس
کی Concentration شروع ہوگئی۔ 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو ہار ہوئی انڈیا
سے اور بنگلادیش الگ ہواپاکستان سے اس وقت نہ امریکا نے خاص مدد کری اور نہ
چین نے ۔ بھٹو صاحب کو اندازہ ہوا کہ پاکستان تو اسے Isolateہو جائے گا اور
اگر کسی کو کچھ کرنا ہے تو ہمیں ہی کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ انڈیا کے
نیوکلیئر پروگرام نے پہلے سے ہی بھٹو صاحب کا پریشان کردیا تھا۔ رضی الدین
صدیقی اس کے مین ہٹن پروجیکٹ پر کام کیا۔ جو کہ امریکاکے لیے تھا۔ بھٹو
صاحب نے 1972ء میں کہا کہ رضی الدین صدیقی نے جو کام امریکا کے لیے کیا مین
ہٹن پروجیکٹ میں وہ ہم پاکستانی سائنسٹسٹ بھی کر سکتے ہیں۔ اس میں ایک اور
شخص نے کام کیا وہ ہیں ڈاکٹر عبدالاسلام واحد پاکستانی سائنسٹسٹ جنہوں نوبل
پرائیز حاصل کیا۔انہوں نے تھیوریٹیکل فزکس گروپ بنانے میں اہم کردار ادا
کیا۔ عبدالسلام نے فاسٹ نیوٹران کیلکولیشن اور Quantum Mechanic&
Relativity Complex hydrodynamicمیں کام کیا۔TPG تھیوریٹیکل
فزکس گروپ کی وجہ سے ممکن ہوپایا کہ پاکستان نیو کلیئر ہتھیار بنانے میں
بہتر ہوا۔اور پھر 1974ء میں ڈاکٹر عبدالاقدیر خان نے پروگرام میں شامل ہوئے
جنہوں نے Highly Enrich Uranium کے فوسل مادہ بنانے میں مدد کی۔ انہوں نے
یورینیم افردگی کو ایڈوانس کیا جس کو ہالینڈ سے بھی مدد لی گئی۔1984ء میں
پہلی بار Sub Critical Testing کی گئی۔ ایک ورکنگ نیوکلیئر ڈیوائس بنائی
گئی۔ وہ ورکنگ نیوکلیئر ڈیوائس کے ساتھ چوبیس کول ٹیسٹ کیے گئے۔ کول ٹیسٹ
سے مراد لیں کہ بم میں Explosive materialتھا لیکن یہ کیری نہیں کیا جاسکتا
تھا ۔1987ء میں پاکستان نے ایسے بم پر کام کرنا شروع کیا جو کہ پریکٹیکل
تھے یعنی ائیر فورس فائیٹر ائیر کرافٹ کیری کر سکتے تھے۔ اس پورے پروگرام
میں سب سے مشکل کام یورینیم کی انرچمنٹ تھی ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر نے گیس سینٹری فیوج پر کام کیا جب کہ پوری دنیا میں ایسے
کام نہیں ہوتا تھا ایک سائنس دان نے تو یہ بھی لکھا کہ آج تک کسی نے بھی
گیس سینٹری فیوج طریقہ کار سے ویپن میٹریل نہیں بنایا یہ کبھی کام نہیں کرے
گا۔ ڈاکٹر عبدالاقدیر خان صرف ٹائم ویسٹ کر رہے ہیں لیکن عبدالقدیر خان نے
اپنی ریسرچ جاری رکھی اور بہت کم وقت مین وہ کر دکھایا جو کہ سب کو نا ممکن
نظر آتا تھا۔ اسی وجہ سے ان کی خدمات کو پاکستان کے سیاستدان اور ملیٹری سب
اور ان کو فادر آف یورنییم کہا گیا۔1998ء میں خوشاب ری ایکٹر کمپلس کی
تعمیر شروع ہوئی جس نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان نے اپنے
بل بوتے پر اپنا آپریشنل نیوکلیئرریکٹر بنا ڈالا ہے جس کو پاکستان سائنٹس
اور انجنئیر نے بنایا ہے اور پھر پانچ دھماکے ہوئے جو کہ انڈیا نے کیے مئی
1998 ء میں انڈیا نے پانچ دھماکے کر کے اپنا دوسرا بم ٹیسٹ کیا جس سے
پاکستان پر ٹینشن اور پریشر دونوں بڑھ گئے۔
عین جس کے جواب میں اسی مہینے یعنی 28مئی1998ء کو پانچ نیوکلئیر ڈیوائس
ٹیسٹ کی گئی۔ جن کا نام چاغی۱، چاغی۲، چاغی۳،چاغی۴ اور چاغی ۵ تھے اور پھر
30مئی کو ایک اور ٹیسٹ کیا گیا چاغی ۲ جو بہت زیادہ کامیاب رہا، 1999ء میں
نوازشریف نے کہا کہ پاکستان کا نیوکلئیر پروگرام انتہائی سیف ہاتھوں میں ہے
جس کو لیک کرنا یا چوری کرنا ناممکن ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی ہمیشہ
پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کی سیکورٹی کو سہراہا۔ میں یہ بتاتا چلوں کو
مذکورہ بالا تمام انفارمیشن مختلف قومی اخبارات کا مطالعہ کرنے کے بعد
تحریر کی گئی ہیں اس میں تھوڑی بہت تبدیلی بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ بات بہت
کلئیر ہے کہ نیوکلیئر پروگرام کا ماسٹر مائینڈ شہید ذوالفقارعلی بھٹو ہی
تھے۔اور شاہد4اپریل 1979 کواسی بات کہ ان کو سزا دی گئی ۔ |