ووٹرز سے الیکٹیبلز تک۔۔۔

کسی بھی محرم کو مجرم بنادینا صرف ایک نقطے کا کمال ہے۔ اسی طرح کسی بھی ’سیاسی‘ وفاداری بدلنے والے کو ’الیکٹیبلز‘ بنادینا بھی فنکاری کے زمرے میں آتا ہے۔ شاید سیاسی ڈکشنری میں تبدیلی آچکی ہے۔ پارلیمنٹ میں ضمیر کی خرید و فروخت ہو تو اس کا ملبہ ’گھوڑوں‘ پر ڈال کر ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح وضع کرلی گئی۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے، ووٹر کو اپنی کارکردگی کا جواب دینے کے بجائے راہ فرار اختیار کرنے والوں کو الیکٹیبلز‘ کہا جانے لگا ہے۔ یہی وہ فرسٹریشن ہے جس نے بڑی سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ کی تقسیم پر نظریاتی کارکنان کو ناراض اور احتجاج پر مجبور کیا۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی بنیادی اساس اس کا کارکن اور ووٹر ہوتا ہے، جس کا نظریہ اپنی جماعت سے جڑا ہونا چاہیے، لیکن یہ نظریہ اس کے لیڈر کی شخصیت کے گرد گھومتا ہے اور کارکن کے نزدیک اس کا لیڈر کسی بھی احتساب کے لیے قابل قبول نہیں۔ اس روش نے کئی بدترین خامیوں کو بھی جنم دیا ہے اور نظام کی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ اجتماعی سیاست کے بجائے فروعی شخصیت کے گرد کارکنان کا گھومنا ہے۔ یہی شخصیت پرستی کا وہ میٹھا زہر ہے جس کے خمار میں آکر پانچ؍ چھ حلقوں سے سیاسی قائدین انتخابات لڑتے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جیتنے کے بعد ضمنی انتخابات کا خرچ عوامی خزانے پر کیوں ڈال دیا جاتا ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے اربوں روپے خرچ کرکے انتخابات کرائے جاتے ہیں اور پھر ضمنی انتخابات پر کروڑوں کے اخراجات الگ سے ہوتے ہیں۔ آخر امیدوار کو پابند کیوں نہیں کیا جاتا کہ وہ جس حلقے میں رہتا ہے، صرف وہیں سے کسی ایک نشست کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرسکتا ہے۔ اگر حلقے کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر اخلاقی طور پر اُس حلقے سے انتخاب میں حصہ لیں، جہاں امیدوار کی مستقل رہائش ہے۔ 2018انتخابات پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے ویٹو پاور کے تحت تمام انتخابی ٹکٹ کی بندربانٹ نظر آتی ہے۔ پاکستانی سیاست سے واقف ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن ڈھونگ ہوتے ہیں، اسی طرح پارلیمانی بورڈ بھی صرف دکھاوا ہوتے ہیں۔ ٹکٹ دینے کا فیصلہ صرف سیاسی یا مذہبی جماعت کے قائد (صدر، چیئرمین) کو ہی ہوتا ہے، کیوںکہ پاکستان میں قریباً تمام جماعتوں میں موروثی نظام قائم ہے، اس لیے ووٹر کے سامنے ایسے خاندانوں کے نام تواتر سے آرہے ہیں، جن میں نظریاتی کارکنان کے بجائے موروثی سیاست کے جانشینوں میں ٹکٹ تقسیم کیے گئے۔ راقم اپنے گزشتہ کالم میں اظہار کرچکا تھا کہ ٹکٹ کی تقسیم کے بعد سیاسی جماعتوں میں افراتفری کا ایک نیا کھیل شروع ہوگا۔ حسب توقع جنہیں انتخابی دنگل کے لیے ٹکٹ نہیں مل سکے، انہوں نے اپنی پارٹی قیادت سمیت سلیکشن بورڈ کے خلاف شکایات اور الزامات کے انبار لگادیے ہیں۔ کئی رہنمائوں نے سیاسی جلسوں اور دھرنوں میں پانی کی طرح پیسہ بہانے اور کھانا کھلانے کے بل کو اس لیے اہلیت جانا کیوںکہ انہوں نے پانی کی طرح اپنی جماعت کے لیے پیسہ بہایا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں تو اس لیے ان کا پہلا حق بنتا ہے کہ پارٹی ٹکٹ بھی اُسے ہی ملے۔ خیر یہ تو کسی بھی سیاسی جماعت کا استحقاق ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ کس شخصیت کو دیتے ہیں، لیکن ہر سیاسی جماعت کا کارکن یہ ضرور غور کرے کہ اگر اس نے سیاسی کارکن بن کر بجلی کے پولوں پر جھنڈے لہرا اور عمارتوں پر بینر لگاکے یا جلسے کے شرکا کی تلاشی لے کر یہ سمجھنا ہے کہ ان خدمات کے عوض وہ پارلیمانی سیاست کا اہل ہوجائے گا تو اُسے اس عظیم ترین غلط فہمی سے باہر نکل آنا چاہیے۔ دو اور دو، جمع چار کی طرح بالکل واضح ہے کہ سیاسی جماعت کے ووٹرز کا نظریاتی ہونا ضروری ہے کہ اپنے حق کو ’الیکٹیبلز‘ سے حاصل کرسکیں۔ ’الیکٹیبلز‘ پانی کا بلبلہ ہیں، ان کے مفادات جس جماعت میں پورے ہوتے ہیں۔ اُن کے قدم بھی اُس جانب اٹھتے ہیں۔ اب اسے سرمایہ داری نظام کہہ لیں یا جاگیرداری، سرداری، یا ملک اور خوانین کی ذہنی غلامی، جو ان ’الیکٹیبلز‘ کے ہاتھوں ہمیشہ اپنی رائے کا حق آزادی سے استعمال نہیں کرسکتے۔ ووٹرز اگر ایک بار ان ’الیکٹیبلز‘ کو مسترد کردیں تو جہاں سیاسی جماعتیں اپنا قبلہ درست کرنے پر مجبور ہوجائیں گی تو دوسری جانب ملک و قوم کے لیے اہل قیادت بھی مل جائے گی۔ اُن کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والوں کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں، لیکن ان کی اہلیت کا معیارصرف ’الیکٹیبلز‘ ہونا بنا جبکہ ایک چپڑاسی کے لیے تعلیمی معیار، قابلیت، تجربہ، تحریری و میڈیکل ٹیسٹ سمیت کئی امتحانات طے کیے گئے ہیں، لیکن یہ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمیشہ نگراں حکومت میں ہی قابلیت، اہلیت اور تعلیم کو دیکھا جاتا ہے۔ سیاسی امیدواروں کے لیے یہ سب کچھ ضروری نہیں، بلکہ ان کے لیے قابلیت کی سب سے بڑی اہلیت الیکٹیبلز‘ ہونا ہے۔ چلیں یہ بھی اچھا ہی ہے کہ سیاسی شخصیات کے لیے ’لوٹے‘ کی اصطلاح معدوم ہوئی اور غیر پارلیمانی لفظ حرف غلط کی طرح مٹ گیا۔ عوام کو تو ویسے بھی ’شارٹ ٹرم میموری‘ کی بیماری ہے۔ نئے ترانوں، وعدوں اور سہانے خوابوں میں کھوجانا پرانی عادت ہے۔ ایک مہینے کی تو بات ہے پھر برسوں برس کا رونا ہے۔ کمان سے نکلا تیر، زبان سے نکلی بات اور بیلٹ پیپر پر لگائی جانے والی مہر واپس نہیں ہوتی۔ شفاف انتخابات کے لیے عدلیہ کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔ شاہد آفریدی نے اپنے ایک ٹویٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنی ماتحت عدالتوں کا بھی کبھی اچانک دورہ کرلیا کریں تو میری بھی گزارش ہے کہ چیف جسٹس صاحب کو ماتحت عدالتوں کے اچانک دورے کرلینے چاہئیں تاکہ شفاف اور فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو ایک خودمختار ادارے کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے مکمل بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ ماتحت عدالتوں کے جج صاحبان اور ان کا عملہ پارلیمانی انتخابات میں ریٹرننگ افسر و دیگر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت عدالتی عملہ امیدواروں سے رشوت طلب کررہا تھا۔ یہ نظارہ خود دیکھا اور ایسا نہیں کہ یہ کسی ایک ریٹرننگ افسر کا عملہ کررہا ہو، بلکہ راقم نے سٹی کورٹ کراچی میں تمام اضلاع کے ریٹرننگ افسران کے عملے کو مقررہ فیس کے علاوہ ’جیب خرچ‘ لیتے دیکھا، بلکہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اضافی رقم خرچے کے نام پر دی۔ ایک جگہ مجھ سے عدالتی عملے نے اس پر بحث بھی کی کہ ہم یہاں تین افراد ہیں آپ کا دیا گیا ’خرچہ‘ بہت کم ہے۔ میرے ساتھ انتخابی امیدوار نے پھر انہیں راضی کرنے کے لیے مزید رقم دی۔ میں یہ مناظر کئی بار ماضی میں منعقدہ الیکشن میں بھی دیکھ چکا ہوں۔ کاغذات نامزدگی سے لے کر ووٹر لسٹ کے حصول، پولنگ اسٹیشن میں خصوصی نوازشات اور بیلٹ پیپر پر جعلی ٹھپّے سمیت قانون کے برخلاف ووٹ ڈالنے کے تمام مراحل کا چشم دید گواہ ہوں اور گزشتہ پانچ انتخابات کا عملی تجربہ ہے۔ اس بار کچھ تبدیلی کی امید تھی لیکن میں پھر غلط ثابت ہوا کہ اس مرتبہ مستقبل ماضی سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے انتخابی نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ الیکٹیبلز سے لے کر فرسودہ نظام، کرپشن اور انتخابی عملے کی امیدواروں سے رشوت وصولی جیسے اوامر شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان اٹھاتے تھے اور اٹھاتے رہیں گے۔ 2018کے پارلیمانی انتخابات میں جس انداز میں حلقہ بندیاں کی گئیں، یہ ایسے گنجلک طریقۂ کار کے تحت کیا گیا، لگتا ہے کہ ایک گھر کے مکین بے وقت دو انتخابی حلقوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ان حالات و واقعات کے بعد یہ تصور راسخ ہوجاتا ہے کہ جب ’الیکٹیبلز‘ کے لیے سیاسی جماعتوں کا دہرا معیار صرف اس لیے ہے کیونکہ وہ انتخاب میں اپنا اثررسوخ استعمال کرکے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں تو شاید انہیں اس کی بھی پروا نہیں کہ ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے نچلی سطح کے کارکنان و عہدے داران اور ووٹر منقسم ہوجاتے ہیں۔ چونکہ نظریات کے بجائے شخصیات پرستی کا رجحان قوی ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنی جماعت کے منتخب کردہ امیدوار کے خلاف ووٹر کی لابنگ کرتے نظر آرہے ہیں اور عملی طور پر اپنی ہی سیاسی جماعت کے امیدوار (الیکٹیبلز) کو ناکام کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے -

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 663976 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.