دوہزار اٹھارہ کے انتخابات اب صرف چھ ہفتوں کی دوری پر
ہیں اور گہما گہمی اس قدر زیادہ ہے کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار سیاسی
جماعتوں کے کارکن انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف کھلے عام احتجاج کر رہے
ہیں۔
خاکسار بہت عرصہ پہلے انہی صفحات پر یہ عرض کر چکا ہے کہ انتخابات کا التوا
اب کوئی چاہے بھی تو اس کے بس کی بات نہیں ۔ حالانکہ اس وقت میری اس رائے
کو دیوانے کی بڑ سمجھاگیا تھا۔ بہر حال ا ب یہ نوشتہ دیوارہے کہ انتخابات
ہوکر رہیں گے ۔ باقی رہی ان کی شفافیت اورغیر جانبداری تو اس پر تبصرہ کرنے
کی ضرورت کیا ہے ؟۔جنوبی پنجا ب سے جو گھوڑے ہانکا لگا کر شکار گاہ میں
اکھٹے کئے گئے ہیں ان کی قسمت کا فیصلہ بھی عوام ہی کریں گے اور عوام کے
موڈ پر کسی کا بس نہیں چلتا۔اپنی تحریر کے ذریعے میں یہ گستاخی پہلے بھی کر
چکا ہوں کی پاکستان میں ایک معلق پارلیمنٹ اور مخلوط حکومت کا کٹھ پتلی
وزیراعظم لانے کی تمام تر تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں لیکن آخری فیصلہ عوام
نے پچیس جولائی دوہزار اٹھارہ کو اپنے ووٹ سے کرنا ہے۔ اورعین ممکن ہے کہ
عوام کے ووٹ کی پرچی معلق پارلیمنٹ کا منصوبہ خاک میں ملا دے ،چاہے وہ
فیصلہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی حق میں ہو یا عمران خان کے نئے پاکستان
کے حق میں۔ ان انتخابات میں نہیں تو کچھ عرصہ بعد ہی سہی یہ خواب ضرور
شرمندہ تعبیر ہونا ہے کہ عوام کی قسمت کا فیصلہ کسی ڈرائنگ روم یا چھاؤنی
کے دفتر میں نہیں بلکہ صرف اور صرف پولنگ سٹیشن میں ہوا کرے گا۔
انیس سو اٹھاسی کو یاد کریں ۔جنرل ضیا الحق سورگباشی ہو چکے تھے ۔ تمام تر
حکومتی مشینری بشمول اسحاق خان بینظیر کے خلاف تھی ۔ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے
بغیرریاست کا کوئی بھی فیصلہ ممکن ہی نہ تھا ۔کون نہیں جانتا کہ جنرل اسلم
بیگ پیپلزپارٹی یا بینظیر بھٹو کو بالکل بھی پسند نہیں کرتے تھے۔اس کے
باوجود عوام نے پیپلزپارٹی کواتنے ووٹ دے دئیے کہ جنرل اسلم بیگ بھی بینظیر
بھٹو کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ گو کہ یہ بینظیر بھٹو کی غلطی
یا کمزوری تھی کہ انہوں نے جنرل بیگ کی شرائط پر اقتدار قبول کیا لیکن
بہرحال دس برس کی بدترین آمریت کے بعد یہ سودا اتنا برا بھی نہ تھا۔ انیس
سو ترانوے میں جب میاں نواز شریف کی حکومت کو گرایا گیا تو صاحبان قضا و
قدر ایک بار پھر مجبور ہوگئے کہ جس پیپلز پارٹی اور بینظیر بھٹو پر انہوں
نے کرپشن اور سیکورٹی رسک ہونے کے الزام دھرے تھے اس کو اقتدار میں آنے سے
روک نہ سکے ۔ یہ صرف جمہوریت کے سبب ہی ممکن ہو سکا تھا ۔
دس گیارہ برس پہلے جنرل مشرف نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا کہ بینظیر بھٹو
اور نواز شریف پاکستانی سیاست میں دوبارہ داخل نہ ہوسکیں لیکن یہ دونوں آج
بھی پاکستانی سیاست کا ایک مضبوط حوالہ ہیں ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے
ہی یہ ممکن بنایا کہ آج رعشہ زدہ مشرف عدالت سے بیماری کا بہانہ بنا کر یہ
بھیک مانگتا ہے کہ اسے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے ۔ عدالت اسے
انصاف اور گرفتار نہ کرنے کی ضمانت بھی دیتی ہے لیکن پاکستان واپسی کا نام
سن کر ہی اس کی پتلون بھیگ جاتی ہے ۔
یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ ملک میں جیسے تیسے انتخابات کا عمل چلتا رہا اور
عوام اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ۔ جمہوریت ایک مسلسل اور ارتقائی عمل ہے
،یہ دنیا بھر میں ہونے والے بے شمار تجربات کا نچوڑ ہے ۔اسی جمہوریت کی
بدولت آج عوام اس قدر آزاد اور بااختیار ہیں کہ مقبول ترین سیاسی جماعتوں
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پر
اپنی ہی قیادت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
سچ پوچھیں تو میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے پیراشوٹر ز کے خلاف
احتجاج پر بہت خوش ہواتھا۔ تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنما اسے تحریک
انصاف کے خلاف میری پیشہ ورانہ بددیانتی کہنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض
نہیں ۔ان کی طرف سے گالم گلوچ اور تنقیدکی تو صحافتی برادری عادی ہوچکی ہے
۔ لیکن شائد انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ یہ حالات جاری سیاسی عمل اور
خود ان کی جماعت کے لئے بہترین صحت کی علامت ہیں ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں سیاسی دانشور بھی ایسے ملے جو ایک اشارے پر دوران
نماز ہی اپنا قبلہ بدلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ ایسے میں کوئی ـ’’POLICTICAL
SCIENTIST‘‘( اردو میں جس کا ترجمہ میں ’’سیاسی سائنسدان ہی کر سکتا ہوں )کیسے
پیدا ہو سکتا ہے ۔ سیاسیات کے طالب علم ’’PARTICIPATION‘‘کی اصطلاح سے اچھی
طرح واقف ہیں جس کا مطلب ہے ’’شراکت داری ‘‘۔سیاسی عمل میں عوام کی شراکت
داری جس قدر بڑھتی ہے سیاسی عمل اور جمہوریت اسی قدر مستحکم ہوتی ہے۔ عوام
جب کسی بھی معاملے میں اپنی کسی بھی محرومی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تویہ
اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے میں جان موجودہے اور وہ مرا نہیں ۔
میر ی یہ خوشی اس وقت سوا ہوگئی جب میں نے دیکھاکہ مسلم لیگ ن کی خواتین
بھی انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پر کھلے عام اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے
احتجاج کے لئے سڑکو ں پرآگئی ہیں۔سیاسی کارکن اور وہ بھی خواتین کارکنوں کا
یہ احتجاج مسلم لیگ ن کے حوالے سے آج سے پانچ برس پہلے کوئی سوچ بھی نہیں
سکتا تھا۔ اس احتجاج کو میں مسلم لیگ ن کے استحکام اور کارکنوں کی بالغ
نظری سے تعبیر کرتا ہوں ۔ سیاسی عمل میں بڑھتے ہوئے استحکام کی یہ ایک اور
علامت ہے۔عوام جب سیاسی جاعتوں اور سیاسی عمل کو OWNERSHIPدیتے ہیں تو وہ
اپنا حق سمجھتے ہیں کہ وہ اس عمل میں کسی بھی خرابی کی نہ صرف نشاندہی کریں
بلکہ اس کی تصیح کے لئے اپنی ذمہ داری بھی ادا کریں ۔ اسی اصول کے تحت
جماعت چاہے تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ ن، اس کے کارکنوں کا احتجاج اس بات
کی علامت ہے کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار سیاسی ورکر اتنا بالغ نظر اور
دلیر ہوگیا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی غلطی پر اسے ٹوکنے کی گستاخی پر اتر آیا
ہے ۔ بے شک گستاخی کا لفظ یہاں مناسب نہیں لیکن کل تک اور آج بھی کسی حد تک
جوملکی سیاسی کلچر ہے اس میں اس عمل کو گستاخی ہی سمجھا جاتا ہے لیکن دس
سال کے مسلسل سیاسی عمل او رذرائع ابلاغ کی طرف سے بخشے گئے شعور کا یہ بہت
بڑا انعام ہے ۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف
اپنے اپنے کارکنوں کے اس احتجاج کے سبب اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ
انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر نظر ثانی کا وعدہ کیا گیا ہے۔نظر ثانی
شدہ فیصلہ کچھ بھی ہو،اس بار کارکنوں کو مطمئن کیا جا سکے گا یا نہیں اس
بارے کوئی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا،لیکن میں پریقین ہوں کہ میرے ملک
میں وہ سورج جلد طلوع ہوگا جب ایک فرد وقت کے حکمران سے اپنا حق برملا طلب
کرے گا اور حکمران اس بات پر مجبور ہوگا کہ فرد کو اس کا حق بہم پہنچایا
جائے ۔
پس تحریر:۔کالم سپرد قلم کرنے کے دوران ہی یہ خبرآئی ہے کہ بیگم کلثوم
نوازکو انتہائی تشویشناک حالت میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا ہے ۔ میں
تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں خصوصا عمران خان ، آصف علی
زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کرتا ہوں کہ سیاسی مخالفت کو ایک طرف
رکھتے ہوئے انسانی ہمدردی اور اخلاقی قدروں کے فروغ کے لئے بیگم کلثوم نواز
کی صحت کے لئے دعا کریں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آصف علی زرداری بیگم کلثوم
نواز کی تیمارداری کے لئے اسی طرح لندن پہنچیں جیسے میاں نواز شریف بینظیر
بھٹو کے لئے راولپنڈی کے ہسپتال پہنچے تھے ۔ |