الیکشن دوہزار اٹھارہ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔
اس دوران الیکشن کمیشن کو انتخابی دنگل لڑنے کے لیے 15 ہزار سے زائد کاغذات
نامزدگی موصول ہوئے۔ ملک میں 2018 کے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں
کی جانچ پڑتال کے لیے فارم نیب، ایف بی آر اور اسٹیٹ بنک کو ارسال کردیے
گئے ہیں۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 19 جون تک مکمل کرلی جائے گی، جس کے
لیے جدید ٹیکنالوجی سے لیس خصوصی سیل فعال کردیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے
صدر شہباز شریف، تحریک انصاف سربراہ عمران خان پانچ پانچ، پیپلزپارٹی
چیئرمین بلاول بھٹو اور جماعت اسلامی سربراہ سراج الحق دو دو حلقوں سے
الیکشن لڑیں گے۔ مریم نواز شریف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور
چودھری نثار بھی دو دو نشستوں پر زور آزمائیں گے، جب کہ سابق صدر پرویز
مشرف نے تین حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی
جانب سے جاری شیڈول کے مطابق کاغذات کی منظوری اور مسترد کیے جانے کے خلاف
اپیلیں 22 جون تک دائر کی جا سکیں گی۔ اپیلوں کو 27 جون تک نمٹایا جائے گا
جس کے بعد امیدواروں کی نظرثانی شدہ فہرست 28 جون کو جاری ہوں گی۔ امیدوار
29 جون تک اپنے کاغذات واپس لے سکیں گے جس کے بعد الیکشن کمیشن حتمی فہرست
30 جون کو جاری کرے گا۔ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات 25 جولائی کو منعقد
کیے جائیں گے۔
نگران حکومتوں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، سیاسی جماعتوں کے
پارلیمانی بورڈ اپنی اپنی جماعت کے امیدواروں کا چناؤ کرنے میں مصروف ہیں۔
عام انتخابات 2018کے لیے ٹکٹوں کے حوالے سے امیدواروں کااپنی اپنی پارٹیوں
پر شدید دباؤ ہے جس کی وجہ سے پارٹی قیادتوں کو پریشانی کا سامناہے اوراہم
جماعتیں مشکل میں دکھائی دے رہی ہیں۔ ٹکٹوں کی مبینہ غیر منصفانہ تقسیم
کیخلاف کارکنان کی جانب سے مختلف شہروں میں احتجاج جاری ہے۔ پی ٹی آئی،
مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام میں ٹکٹوں کی تقسیم کی حوالے
سے کافی لے دے ہورہی ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ تنقید پی ٹی آئی پر ہورہی
ہے، کیونکہ پی ٹی آئی نے اپنے کئی نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے
دوسری جماعتوں سے آنے والے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دے دیے ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنوں
نے بنی گالہ میں احتجاج کیا،دھرنا دیا ہے۔ این اے 54 سے سرور خان کو ٹکٹ
دیئے جانے کے خلاف پی ٹی آئی رہنما اجمل راجا کے حامیوں کی جانب سے عمران
خان کی رہائشگاہ کے باہر شدید احتجاج کیا گیا۔اوکاڑہ میں تحریک انصاف کے
سینکڑوں کارکنوں نے تحریک انصاف لیبر ونگ کے مرکزی صدر و سابق صوبائی وزیر
محمد اشرف خاں سوہنا کی قیادت میں عام انتخاب کیلئے ٹکٹوں کی مبینہ غیر
منصفانہ تقسیم کیخلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ پی پی 100 جڑانوالہ سے خان
بہادر ڈوگر اور پی پی 3 سے اکبر خان تنولی کے حامیوں کی جانب سے بنی گالہ
میں احتجاج کیا گیا۔تحریک انصاف تحصیل جڑانوالہ کے صدر خان بہادر ڈوگر کا
کہنا ہے کہ دھرنے والوں کو 126 دن صبح کا ناشتہ ، دوپہر اور رات کا کھانا
اپنی جیب سے کھلایا ، پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ عوامی تحریک کے کارکنوں کو
بھی کھلایاپھر بھی مجھے ٹکٹ نہیں ملا۔این اے 107 سے ٹکٹ نہ ملنے پر مشترکہ
پریس کانفرنس میں سابق وفاقی وزیر راجہ نادر پرویز، این اے 107 سے ٹکٹ کے
خواہشمند رہنماؤں علی سرفراز، بریگیڈئیر (ر) ممتاز کاہلوں، راجہ اسد نادر
اور پی پی 112 سے امیدوار رانا مبشر نے انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کو نا
انصافی اور مسلم لیگ (ن) کو فائدہ پہنچانے کیلئے عمران خان کے خلاف سازش
قرار دے دیا۔اسلام آبادمیں پی ٹی آئی نے اپنے طاقتور ترین امیدوارچوہدری
الیاس مہربان کو نظرانداز کر دیا۔ اسی طرح پنڈی میں ایک ایم پی اے کو
نظرانداز کیاجارہا ہے۔ شمالی ریجن کے سیکرٹری جنرل عطا اﷲ شادی خیل کو ٹکٹ
کے قابل نہیں سمجھا گیا۔وہاں سے ببلی خان کو اتار دیا گیا ہے۔ کالاباغ کی
عائلہ ملک نے پی ٹی آئی کیلئے دن رات ایک کررکھا تھا مگر ان کے داماد ملک
امیر محمد خان کو بھی ٹکٹ کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ خرم دستگیر کے مقابلے
میں پی ٹی آئی نے کمزور امیدوار کوٹکٹ جاری کیا ہے۔ اسی طرح احسن اقبال کے
مقابلے میں بھی کمزور امیدوار دیا ہے۔ نارووال سے کرنل کاہلوں اور فیصل
آباد سے بریگیڈیئر کاہلوں کوٹکٹ نہیں دیا گیا۔ لاہور میں بھی کئی بنیادی
کارکن ٹکٹ سے محروم رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اہم سیاست دان علی محمد بھی ٹکٹ
سے محروم ہیں۔ فیصل آباد میں تقسیم بہت غلط ہوئی ہے۔ شیخوپورہ میں بھی پی
ٹی آئی کے نظریاتی کارکن اور رہنما ارشد ساہی کی جگہ نئے شامل ہونے والے
بلال ورک کو ٹکٹ ملنے پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ یہ تو چند نام ہیں، ان کے
علاوہ بھی پی ٹی آئی کے بہت سے نظریاتی لوگ ٹکٹ نہ ملنے پر احتجاج کر رہے
ہیں۔ ملک بھر میں پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف
جاری مظاہروں اور سخت ردعمل کے بعد چیئرمین عمران خان نے13 جون کو
پارلیمانی ریویو بورڈ کا اجلاس طلب کرلیا جو ٹکٹوں سے محروم رہنے والوں کی
طرف سے بھجوائی گئی شکایات کی سماعت کرے گا۔ ریویو بورڈ میں متاثرہ رہنماؤں
اور کارکنوں کی شکایات پر انہیں مطمئن کیا جائے گا۔
دوسری جانب لاہور میں شاہدرہ سے آئے سابق ایم این اے ملک ریاض اور سابق ایم
پی اے غزالی سلیم بٹ کے حامیوں ن لیگی ورکرز نے ماڈل ٹاون لاہور میں ٹکٹوں
کے معاملے پر ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی، اسلام آباد میں انٹرویو کے
لیے آئے کارکنوں نے مسلم لیگ ن ہاؤس اسلام آباد پر قبضہ کرلیا۔ ن لیگ کے
کارکنان کا سیکریٹریٹ پر قبضہ کرنے کے بعد نعرے بازی کی اور طارق فضل
چوہدری کے خلاف نعرے لگائے۔ مشاہد حسین سید سے کامیاب مذاکرات کے بعد ناراض
کارکنوں نے مسلم لیگ ہاؤس خالی کردیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے
اسلام میں بھی ٹکٹوں کے حوالے سے میرٹ کو نظر انداز کرنے کے کیسز سامنے آئے
ہیں۔ اگر پاکستانی سیاست کے اس دلچسپ منظر پر غور کیاجائے تو آپ کو اندازہ
ہوگا کہ پاکستان کے دولت مند طبقے نے کیسا تماشاشروع کر رکھا ہے۔ ٹکٹوں کے
حصول کے لیے قلابازیاں لگانیوالوں سمیت پارٹی فنڈ دینے والے سارے امیر لوگ
ہیں۔ پاکستان کے اکثریتی عوام کاٹکٹوں کے حصول سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض
ایک فیصد طبقہ ہے جو اس سارے کھیل کا حصہ ہے۔ دولت مندوں کی یہی اقلیت ملکی
اکثریت پر حکومت کرے گی۔
بڑی جماعتوں کی قیادتوں کولاہور،راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد،
گوجرانوالہ، اوکاڑہ، سرگودھا، بہاولپور،نوشہرہ اوراندرون سندھ کے بعض
علاقوں میں احتجاج اورپریشانی کاسامنا کرناپڑا۔ٹکٹ نہ ملنے پر بعض
امیدواروں نے آزادحیثیت سے الیکشن لڑنے کافیصلہ بھی کرلیا ہے۔ٹکٹ سے محرومی
پر ہنگامے ہمارے سیاسی سسٹم کی کمزوریوں کانتیجہ ہیں۔ترقی یافتہ جمہوری
ملکوں میں امیدواروں کافیصلہ صرف متعلقہ پارٹیوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا
جاتا، بلکہ انتخابی حلقوں کے عوام خود کرتے ہیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں
کی پارلیمانی پارٹیاں امیدواروں کو نامزد کرتی ہیں جو بعض صورتوں میں میرٹ
کے خلاف بھی ہوتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں انتخاب جیتنے
کیلئے مضبوط امیدواروں یعنی’’الیکٹ ایبلز‘‘کوترجیح دیتی ہیں اوراپنے ان
کارکنوں کو نظر انداز کردیتی ہیں جو ہر مشکل وقت میں پارٹی اوراس کی قیادت
کامستقل مزاجی سے ساتھ دیتے ہیں اورتوقع رکھتے ہیں کہ ان کی قیادت انتخابی
ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ پران کاخیال رکھیں گے۔ اس معاملے میں عوام کا قصور
بھی ہے جو ہمیشہ اس بات کا شور تو کرتے ہیں کہ سیاسی نمائندے نظریاتی اور
شفاف کردار کے حامل ہونے چاہیے، لیکن اگر ان کے حلقوں میں شفاف کردار کے
حامل افراد کھڑے ہوتے ہیں تو عوام ان کی بجائے پہلے سے ملک پر مسلط وڈیروں،
جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بہت سے تو بری شہرت کے افراد ہوتے ہیں، ان کو
منتخب کرتے ہیں۔ اگر عوام ہمیشہ اچھے لوگوں کو ہی منتخب کرے ، اور برے
کردار کے حامل سیاست دانوں اور لوٹوں کو مسترد کردیں تو سیاسی پارٹیاں بھی
اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے ہوئے لوٹوں کو نظر انداز کرنے لگے اور اگر
اقتدار کے لالچ میں کوئی سیاست دان کسی جماعت میں شامل ہو تو سیاسی مبصرین
ان کے لئے یہ پابندی تجویز کرتے ہیں کہ انہیں دوسری پارٹی میں آنے کے بعد
دوسال تک انتخابی ٹکٹ یاکوئی عہدہ نہ دیا جائے۔ جمہوری نظام کے فروغ
اورجاگیردارانہ سیاست کے خاتمے کے لیے اس طرح کے اقدامات ضروری ہیں۔ |