راجدھانی ایکسپریس سے دہلی جاتے ہوئے وقت گزاری کے لیے
کلن خان نے للن سنگھ سے کہا یہ اپنے پردھان سیوک دیس کاٹتا ہے کیا؟
للن بولا کمال ہے۷۰ سال کے بعد پہلی مرتبہ کوئی ملک کا بھلا کرنا چاہتا
لیکن آپ لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔انہوں نے گزشتہ چار سال میں ایک دن
بھی چھٹی نہیں لی آپ کیا بات کررہے ہیں؟
کیا! ہر چوتھے دن تو وہ بدیسچھٹی منانے چلے جاتے ہیں الاّ یہ کہ کوئی
انتخابی مہم درپیش ہو اور اس میں دیس بھر کی سیر اوربھاشن کے سوا کیا ہوتا
ہے؟
للن بولا ایسی بات نہیں وہ تو ساری دنیا میں جاکر تعلقات استوار کرتے ہیں
اور ملک کی دھاک جماتے ہیں۔
وہ جماتے تو ہیں لیکن دھاک جمتی کہاں ہے؟ ٹرمپ نےامریکہ میں مقیم
ہندوستانیوں کا جینا حرام کررکھا ہے اور اب تو اس ہندوستانی مصنوعات کو
بلیک لسٹ کرنے کی کھلے عام دھمکی دے رہا ہے۔
اچھا اس پاگل کی تو ہم لوگوں نے خوب حمایت کی تھی ۔ وہ تو نمک حرام نکلا۔
آپ لوگوں نے اس کی حمایت اسلام دشمنی کے سبب کی تھی لیکن عربوں نے اس کو
پٹا لیا۔ اس بار تو اس نے افطار پارٹی بھی دےڈالی کاش مودی جی بھی جاتے
جاتے ایک خوشگوار یاد چھوڑ جاتے؟
لیکن وہ بے وقوف ہمارے پیچھے کیوں پڑ گیا؟ اس کا ہم نے کیا بگاڑا ہے؟
ٹرمپ کا الزام ہے کہ جو لوگ امریکہ کو لوٹ رہے ہیں ان میں سے ایک ہندوستان
بھی ہے۔
چھوڑو اس جنونی ٹرمپ پر ہمارا کیا اختیار لیکن یہ تو آپ کو ماننا ہی پڑے
گا کہ آج تک مودی جی پر کوئی بدعنوانی کا الزام نہیں لگا۔
ویسے رافیل معاہدے کی تفتیش ہوتوحقیقت سامنے آئے لیکن مودی جی وہ کرنے دیں
تب نا؟ وہ تو اپنی ڈگری تک چھپاتے پھرتے ہیں۔
دیکھو بھائی بلاثبوت الزامات کی تحقیق و تفتیش نہیں ہوتی۔
اچھا یہ بتاو کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان کے راج میں لوگ ملک کو لوٹ لوٹ کر
بھاگ رہے ہیں اور وہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔
للن کا گیروا خون جوش مار گیا وہ کہنے لگا آپ دیکھ لینا سمئے بتائے گا وہ
ایک ایک کو پکڑ کر لائیں گے اور پائی پائی کا حساب لیں گے۔
یہ سب تقریر سے تو نہیں ہوگا ۔ مودی جی اور ان کے بھکت دن رات بھاشن ہی
بھاشن کرتے ہیں ۔
جی نہیں سرکار کام کرتی ہے اس نے نیرو مودی کا پاسپورٹ منسوخ کروا دیا
ہےاور انٹرپول سے اس کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کروا رہے ہیں۔
کلن خان بولا بھائی آپ نے اس درخواست کے جواب میں انٹر پول کا مکتوب دیکھا
۔
جی نہیں ہم تو اخبار کی سرخی دیکھتے ہیں ۔ پورا اخبار پڑھنے کی فرصت کسے
ہے؟
اگر بحث کرنی ہے توفرصت نکالنی پڑے گی ۔ ہندوستانی ایجنسیوں کو ایک خط میں
انٹرپول نے بتایا کہ نیرو مودی۳ ممالک کا ۴ بار سفر کرچکا ہے۔
کلن خاں صاحب یہ تو پاسپورٹ رد کرنے کے پہلے کی بات ہوگی ؟ وہ بدمعاش تو
ساری دنیا کی سیر کرتا رہا ہے۔
جی نہیں میرے دوست للن سنگھ یہ ۲۴ فروری کو پاسپورٹ منسوخ کئے جانے کے بعد
کی بات ہے۔
میں نہیں مانتا یہ ناممکن ہے ؟
آپ مانو یا نہ مانو ۔ شتر مرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا لینے سے
شکاری اپنا راستہ نہیں بدلتا۔ حقائق تبدیل نہیں ہوتے؟
لیکن کیا انٹر پول کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے؟
کیوں نہیں ۔ انٹر پول والے دیسی پولس کی طرح نہ جھوٹے ہیں اور نہ یوپی پولس
کی مانند ٹھوکوہیں وہ ٹھوس ثبوت کے بغیر بات نہیں کرتے ۔ ان کے مطابق، نیرو
مودی نے ۱۵ مارچ، ۲۸ مارچ، ۳۰ مارچ اور ۳۱ مارچ کو ہندوستانی پاسپورٹ پر
امریکہ، برطانیہ اور ہانگ كانگ کا سفر کیا۔
تب تو یہ ان ملکوں کی غلطی ہے ۔ ان کو چاہیے تھا کہ نیرو کوگرفتار کرکے
ہندوستان کے حوالے کرتے۔
کلن بولا وہ دھاک کہاں چلی گئی جو پردھان سیوک نے دنیا بھر میں گھوم کر
قائم کی ہے ۔ لوگ اگر اس سے ڈرتے تو ضرور پکڑ کو واپس کرتے ۔
اس بحث کو سن کر سامنے کی برتھ بیٹھے مکھن چترویدی نے کہا بھائی یہ سب
پاکھنڈ ہے ۔ اپنی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے پاسپورٹ ضبط کرلیا اور دنیا
کو بتایا ہی نہیں ورنہ وہ کب کا پکڑا جاچکا ہوتا ۔
کلن کو ایک حامی ملا تو اس کا حوصلہ بلند ہوگیا وہ بولا میں بھی یہی کہتا
ہوں دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے کیا فائدہ ؟ وہ سنگھ کا جیمز بانڈ
اجیت دوول اور اس کےحواری کیا گھاس چھلتے ہیں۔ انہیں نیرو کی نقل و حرکت کا
پتہ کیوں نہیں چلا ؟ ان لوگوں نے اسے ہوئی اڈے پر کیوں نہ دھر دبوچا؟
للن نے کہا میری سمجھ میں تو یہ نہیں آتا ہے آخر اتنے مستعد چوکیدار کے
آنکھوں میں دھول جھونک کر و ہ کل کا بچہ اُڑن چھو کیسے ہوگیا؟ یہ کیا چکر
ہے؟
مکھن بولا یہ عوام کی دولت لوٹنے کی سازش ہے کلن سنگھ جس میں سرمایہ دار
اور سیاستداں برابر کے شریک ہیں ۔
کلن بولا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی پنڈت جی ذرا کھول کر بتائیں ۔
وہ ایسا ہے کہ پچھلے دس سالوں کے اندر بنکوں پر کھلے عام ڈاکے خوب بڑھے ہیں
۔
للن نے پوچھا یہ کھلے عام ڈاکے والی بات کچھ عجیب سی لگتی ہے۔
کھلے عام یعنی قرض لو اور دیوالیہ پن کا اعلان کرکے روپیہ دبا لو۔۲۰۰۹ میں
یہ بقایہ ۲ ہزار کروڈ تھا لیکن ۲۰۱۴ تک ۳۵ ہزار کروڈ ہوگیا ۔
اچھا تو اب مودی راج میں اس کا کیا حال ہے کیونکہ پردھان جی نے کہا تھا نہ
کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا۔
ان چار سالوں میں یہ ایک ۴۴ ہزار کروڈ تک پہنچ گیا ہے بھائی ایسا لگتا ہے
اس طرح ایک دن یہ ملک ہی دیوالیہ ہوجائے اور ساری پونجی سرمایہ داروں اور
سیاستدانوں کی تجوری میں جمع ہوجائیگی۔
للن بولا یہ نہیں ہوسکتا ؟ مودی جی کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے
کلن بولا کیوں کیا تم بھول گئے کہ اس سے قبل للت مودی بھی تو گھپلے کرکے
ہندوستان سے بھاگ چکا ہے ۔
جی ہاں لیکن وہ تو منموہن کے زمانے کی بات ہے ۔ اس میں مودی جی کا کیا قصور
؟
اچھا تو اس کو اپس لانے کا وعدہ کس نے کیا تھا؟ واپسی تو درکنار مودی سرکار
نے اس کو پاسپورٹ بنانے میں مدد کی ۔
مکھن تائید میں بولابات یہ ہے کہ آج کل مودی پریوارنےگاندھی پریوار پر
سبقت حاصل کرلی ہے۔
کلن نے کہا جی ہاں گاندھی پریوار کے لوگ جس عیش کا تصور نہیں کرسکتے وہ سب
مودی پریوار کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگیا ہے ۔
للن چڑھ کر بولا پنڈت جی آپ کو نیرو سے کیا پرخاش ہے؟
مکھن نے جواب دیا مجھے کسی سےبیر نہیں لیکن میرا گیان کہتا ہے کہ وہ روم کے
آخری سیزر کاپونر جنم ہے۔
یہ رومن نیرو کون تھا ؟ للن سنگھ نے سوال کیا
کلن نے کہا وہی جو روم کے جلنے پر بانسری بجارہاتھا ؟
للن بولا لیکن وہ ایسا کیوں کررہا تھا؟
مکھن نے کہا کبھی کبھار اتہاس بھی پڑھا کرو۔ نیرو دراصل جولیو کلاڈن پریوار
کا آخری شہنشاہ تھا۔
کلن بولا جیسے مودی جی سنگھ پریوار کے آخری مغل ہیں ۔
مکھن نے اپنی بات جاری رکھی نیرو نے اقتدار کے لئے اپنی والدہ، بھائی اور
دونوں بیویوںکو موت کی گھاٹ اتاردیا۔
للن بولا لیکن مودی جی نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔
مکھن نے کہا بیوی جسودہ بین کا مارا نہیں لیکن چھوڑتو دیا ۔ اپنے قریبی
دوست ہرین پنڈیا کے ساتھ مودی جی نے جوسلوک کیا یہ اس کے باپ سے پوچھو؟
کلن سوال کیا پنڈت جی کیا یہ سچ ہے کہ نیرو نےاسے اقتدار کا مالک بنا نے
والے چچا کلاڈیس کے بیٹے کو بھی قتل کردیا تھا ۔
جی ہاں بالکل سچ ہے اور مودی جی نے بھی تواپنے گرو اڈوانی جی زندہ درگور
کردیا ہے۔
کلن نے کہا تب تو ان دونوں میں زبردست مشابہت ہے ؟
جی ہاں کہا جاتا ہے کہ اپنا سونے کا محل بنانے کے لئے اس نےروم کے بیشتر
علاقوں کو نذر آتش کروا دیا تھا ۔ یہ خوفناک آگ ۵ دن تک بھڑکتی رہی
۱۴اضلاع میں سے ۴ جل کر خاکستر۷ بری طرح متاثر ہوئے۔ مگر وہ اپنے درباریوں
کے ساتھ موسیقی کے مزے لیتا رہا ۔
کلن نے حیرت سے کہا یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ہمارے مودی جی نے گودھرا کی آگ
کو سارے گجرات میں پھیلا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کیا تھا ۔
للن بولا مجھے تو یہ سب من گھڑت باتیں لگتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔
مکھن چترویدی نے تم جیسےنیرو بھکت مورخ ٹیسی ٹس نے بھی یہی لکھا ہے کہ جب
روم شعلوں کی لپیٹ میں تھا تو اس وقت نیرو روم سے ۳۹ میل دور اینٹیم میں
تھا۔ اس نے واپسی پر ذاتی خزانے سے متاثرین کی بحالی کی کارروائیاں شروع
کیں اور اپنا محل بے گھر ہونے والوں کے لیے کھول دیا۔ اس نے روم کو نئے سرے
سے بسایا خوبصورت عمارتیں اور کشادہ سڑکیں تعمیر کرائیں۔ آگ لگانے کے الزام
میں بے شمار عیسائیوں کو قتل کرا دیا۔
للن نے کلن کی جانب دیکھ کر کہا دیکھا تم نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
ہوگیا ۔
کلن بولا اچھا مکھن بھائی یہ تو بتاو کہ نیرو کا انجام کیا ہوا؟
وہ ایسا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد نیرو کو رومن کابینہ نے عوام دشمن قرار دے
دیا اور اس دکھ میں اس نے خود کشی کر لی۔
کلن بولا اگر نیرو واقعی ٹیسی ٹس کے بیان کے مطابق عوام کا خیرخواہ تھا تو
اس کے خلاف بغاوت کیوں ہوئی ؟
مکھن بولا کلن تم بھکتوں کو سمجھا نہیں سکتے وہ نیرو کے ہوں یا مودی کے
لیکن اس کہانی کا سب سے عبرت انگیز پہلو نیرو کا آخری جملہ ہے ۔
وہ کیا ہے ؟ للن اور کلن نے ایک ساتھ سوال کیا ۔
مکھن بولامرتے وقت نیرو کے آخری الفاظ تھے: دُنیا نے مجھ جیسا نایاب فن
کار کھو دیا ہے۔
کلن بولا لیکن مجھے تو لگتا ہے مودی جی نیرو سے بڑے فنکار ہیں ۔
للن چیخ کر بولاچپ رہو جی کچھ بھی بکتے ہو۔ للن سنگھ کے تیور دیکھ کر کلن
خان اور مکھن چترویدی خاموش ہوگئے۔
|