اس تمام نامعقولیت کی اولین ذمہ
واری مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی (جنکے
بھائی فوج کے ایک انتہائی اہم اعلیٰ عہدے کے افسر تھے یا نامعلوم اب بھی
ہیں) پر عائد ہوتی ہے جی ہاں وہی چوہدری نثار صاحب جو اپنی اس کولیفیکیشن (یعنی
ایک فوجی عہدے دار کا سگا بھائی ہونا ) کو ہر ہر مرحلے اور ہر ہر حکومت میں
استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد کیجیے کہ ضیا الحق کی شدید آمریت کہ جس
میں کتنے ہی سیاستدانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو
کوڑے مارے گئے یا جیل میں ڈال دیا گیا۔ چوہدری نثار مزے میں رہے۔
ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں پلاٹوں کی بندر بانٹ کے سلسلے میں دنیا نیوز کی
اینکر پرسن عاصمہ چوہدری نے رؤف کلاسرہ سے سوال کیا کہ جرنیلوں کا احتساب
کیوں نہیں ہوتا۔ کمیٹی کے چیئرمین چوہدری نثار علی خان اُن کی لسٹیں کیوں
نہیں منگواتے؟ جس کے جواب میں رؤف کلاسرہ نے کہا کہ “اُس کی وجہ ہے کہ نثار
خان صاحب کا بیک گراﺅنڈ فوجی ہے ۔ صحافی ، بیوروکریٹ ، سیاستدانوں کو پکڑ
لینا بہت آسان ہے۔ یہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ نے ایک آرڈر پاس کیا ۔ اُنہوں
نے منسٹری آف ہاﺅس میں نثار سے کہا کہ تمام لوگوں سے لسٹیں لیں۔ اُسی طرح
سے وزارت دفاع کو بھی آرڈر کرتے کہ کتنے آرمی جرنیلوں کو زمینیں ملی ہیں۔
پھر چاہے ن لیگ کی حکومت ہوتی یا پیپلز پارٹی کی چوہدری صاحب اپنے فوجی
بھائی کی وجہ سے کسی بھی قسم کی گرفت سے بالاتر گردانے جاتے اور ن لیگ کی
حکومت میں علی الاعلان اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں در پردہ فوجی افسران
سے رابطے میں رہتے۔ پھر مشرف کے دور اقتدار میں ن لیگ کی اعلیٰ قیادت
معاہدے کر کے بھاگتی بنی یا ملک سے نکل گئی یا پھر دفاعی سیاست پر آگئی مگر
چوہدری نثار اپنے فوجی بھائی کی وجہ سے آرام سے سائڈ میں ہوگئے۔ زرا معلوم
تو ہو کہ جہاں ملک کے سیاسی لیڈران نے جیلیں کاٹی چوہدری نثار صاحب نے کتنے
سال جیل میں گزارے۔ پھر مشرف صاحب کی حکومت کے بعد بھی موجودہ پیپلز پارٹی
کی وفاقی حکومت میں بھی رابطے رکھنے والے چوہدری نثار علی صاحب پنجاب کے
وزیراعلیٰ کو لیے رات کے اندھیروں میں چھپتے چھپاتے اکثر آرمی چیف اور
دوسرے اعلیٰ فوجی افسران کے پاس جاتے آتے رہے کہ شائد کوئی تیر ایسا فٹ
ہوجائے کہ ہینک لگے نا پھٹکری اور رنگ چوکھا ہی آئے کہ شائد کام بن جائے
اور نہیں بھی بنا تو کوئی نہیں کوشش میں کیا حرج ہے۔ مگر جب موجودہ چیف آف
آرمی اسٹاف اب تک جمہوریت پر کوئی وار کرنے پر آمادہ نہیں پائے گئے تو
چوہدری صاحب بھی چپ سادھے بیٹھے تھے پھر سوچا کہ چلو ایم کیو ایم کو ہی
لپیٹ دوں مگر لگتا ہے لینے کے دینے پڑ گئے۔ |