یاد کیجیے ضیا الحق کا زمانہ کہ
جب فوجی جرنیلوں نے ببانگ دہل ایک سیدھے سادھے دیہاتی شخص کے بیٹے کو اپنی
سیاسی گود لے لیا اور اسے عملاً اپنا سیاسی جانشین مقرر کردیا کہ مرحوم ضیا
الحق کی روح اب بھی بے چین ہوتی ہوگی کہ جتنا احسان میں نے منہ بولی اولاد
کو لے کر اس کی سیاسی پرورش کی اس سے کئی گنا کم توجہ اپنی اولاد پر دے
دیتا تو میرا بیٹا آج کل رل پٹ نا رہا ہوتا وہ سیاسی جانشین اور سیاسی لے
پالک کوئی اور نہیں جی ہاں وہی ہیں جن کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ازرائے
مذاق (میرا گمان ہے ازرائے مذاق) نواز الحق کہا کرتی تھی کیونکہ حقیقتاً
نواز شریف صاحب جتنی محبت ضیا الحق سے کیا کرتے تھے اتنی تو لوگ اپنے باپ
سے نہیں کرتے اور یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ میاں صاحب نے ضیا الحق کی قبر پر
کھڑے ہوکر ان کا مشن (آمریت اور وہ بھی مطلق آمریت اور وہ بھی اسلام کا
لبادہ اوڑھے ہوئی آمریت) جاری و ساری رکھنے کی قسمیں کھائیں تھیں اور آج وہ
اپنی قسموں کے کفارے ادا کرچکے ہیں یا کیا کیونکہ وہ اب تو ضیا الحق سے
دوری ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اب تو ہر آمر کو برا بھلا کہتے نظر
آتے ہیں۔
ہائے رے اس سادگی پر کون قربان نہ ہوجائے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ آج کا
میثاق جمہوریت کا بانی و رہبر اپنی سیاسی کونپل کو منہ تھوڑا سا بھی
کھلوانے کے لیے جرنل جیلانی اور جنرل ضیا الحق کا محتاج و نظر کرم کا متمنی
تھا اور جس کو وزارت اعلیٰ بھی کب عنایت کی گئی جی ہاں اسی مطلق العنان
جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں جو کہ مارشل لا لایا تھا۔ اور امیر المومنین
جیسا اعلیٰ مقام پانے کی تمنا کرنے والے منافق اور دھوکے باز اور وعدہ خلاف
اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے کے ساتھ تقدیر نے بھی کیا انتقام لیا کہ
دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہانپتے کانپتے اپنی جانوں کی بخشش کے لیے فوجی
بوٹوں کو ہاتھ لگا لگا کر قسمیں کھاتے اور اپنے والد محترم سے قسمیں
کھلاتے، غیر ملکی آقاؤں کو بیچ میں ڈال کر معافیاں قسمیں کھاتے سیاست اور
مملکت سے دس سال دور رہنے والے شرمناک معاہدوں پر بلا دیکھے بھالے دستخط کر
کے بھاگتے بن پڑی۔ |