نامعلوم منزل

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

عشق ازدواجی میں فنا ہونے کے بعد عشق حقیقی اور عشق مجازی کے درمیان پینڈولم کے جھونٹے لیتے ہوئے زندگی کا سفر آہستہ آہستہ تیزی کے ساتھ طے کرتے ہوے ادب کی دنیا کی طرف نکل آیا اور نہایت ادب کے ساتھ اس خیالی دنیا کے خواب دیکھ رہا ہوں جہاں وقت رک جاتا ہے آرزووں کو تھوڑی دیر سستانے کا موقع فراہم کرتے ہوے الف لیلوی قالین پر سفر جاری رکھتے ہوے اور فانی دنیا کے غم سے سراباً نکلتے ہوے اور کچھ داد وصول کرتے ہوے اور کچھ تنقید اور اصلاح لیتے ہوے ایک نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہوں جہاں شائد منزل نہیں ہوتی راہ عشق کی طرح اور راہِ دنیا میں بھی کب ملی ہے منزل کہ منزل پر پہنچ کر بھی یہی لگتا ہے کہ یہ منزل تو نہیں اور ایک نئ منزل کے طرف پیش قدمی اور ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ ایک نیا مرحلہ

قدم قدم پہ تھا اک مرحلہ میں کیا کرتا
طویل ہوتا گیا فاصلہ میں کیا کرتا
ہر ایک شخص کو تھا زعم آگہی کتنا
بھٹک رہا تھا مگر قافلہ میں کیا کرتا
وہ آنسوءوں کی زبان جانتا نہ تھا واصف
مجھے بیاں کا نہ تھا حوصلہ میں کیا کرتا

خدا کی بے شمار نعمتوں پر شکر کی خواہش رکھتے ہوے اور قدم قدم پر اُس کی مدد یاد کرتے ہوے صبر اور بے صبری کے درمیان تھوڑا سا صبر کرتے ہوے اور تھوڑی سی قناعت کرتے ہوے مگر ہزاروں خواہشات پر دم نکلتے ہوے اور چپ نہ رہ سکتے ہوے کچھ کہتے ہوے غالب کا شعر

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

اور ان خواہشات کے درمیان سے رستہ بناتے اور مایوسی کے طوفان سے بچتے بچاتے اور اس پکڈنڈی پر ڈگمگاتے رحمت کی اُمید جگاتےاور اپنے اشعار سُناتے

کتنا کرم ہے مجھ پر میرے مالک میرے رب کا
بس ایک آرزو ہے کہ اس کرم پہ کرم کر دے

کچھ تیرے بندوں کا بھی کچھ تو خیال کر لوں
کچھ آگہی دے دے کچھ دل نرم کر دے

اور اپنا کہا کہتے ہوے کسی کا کہا سہتے ہوے دوسرے کے مسلک کو چھیڑے بغیر اپنے لا مسلک میں رہتے ہوے اور اُلفت کے دریا میں بہتےہوے پڑھتے پڑھاتے سیکھتے سکھاتے ہی رہنا ہے

اور یہ جانتے ہوے بھی کہ اقبال نے جو فرمایا

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں ،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں

اس کے باوجود سجدہ میں جاتے ہوے اور دعا مانگتے ہوے شرمندہ شرمندہ ہو کر کہہ دیا جاے

ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنہ و فی ال آخرہ حسنہ

اے ہمارے رب یہ دنیا بھی بہتر کر دے اور وہ دنیا بھی

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 262534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.