کیا شریفس کیلئے NRO پارٹ ٹو طے پایا جا چکاھے؟

خبر ھےکہ جنرل الیکشن 2018ء میں ھر پولنگ اسٹیشن پر اندر اور باھر فوج تعینات ھوگی۔۔ سوال یہ ھے کہ اس سے قبل کیا فوج تعینات اسطرح نہیں کی جاتی رہی؟ اور پھر دھاندلی کے ریکارڈ بھی ٹوٹتے ساری قوم کو نظر آتے رھےحالانکہ یہ سب کو علم ھے کہ فوج امن و امان کے کنٹرول کیلئے تعینات کی جاتی ھے تاکہ کسی پولنگ اسٹیشن پر ھنگامہ آرائی یا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ھوجائے مگر حیرت یہ ھے کہ آجکل فوج کی تعیناتی کی خبر پرنٹ و الیکٹرک میڈیا میں متواتر اس انداز سے جاری کی جارھی ھے جیسے فوج انتخابات کے سارے مرحلوں پر نگاہ رکھے گی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ھے چونکہ دھاندلی کا عمل پولنگ بوتھ میں بیٹھے پریذائیڈنگ آفیسر حضرات سے شروع ھوتاھے جن کی تعداد زیادہ تر سرکاری اسکولز کے ٹیچروں پر مشتمل ھوتی ھے اور انہیں متعلقہ ضلعے کے آفس سے ازخود ووٹس کی بکس، پکی سیاہی و متعلقہ پولنگ اسٹیشن کا دیگر سامان بمعہ ووٹرز لسٹ بوریوں میں پیک شدہ مل جاتا ھے اور انتخابات سے قبل ہی سابق حکمران جماعت پری پلان ھر حلقے میں اپنے مرضی کے ٹیچرز کو پریذائیڈنگ آفیسرز لگوا لیتے ہیں اور کئی پریذائیڈنگ افسران مخصوص پولنگ اسٹیشنز پر جعلی ووٹ کاسٹ کرنے میں معاون بن جاتے ہیں اور یہ جعلی ووٹ کی کاسٹنگ کا پہلا مرحلہ ھے اسکے بعد خواتین پولنگ اسٹیشنز کی باری آتی ھے اور خواتین کا کم شرح سے ووٹ ڈالنے اور خواتین پولنگ اسٹیشنز پر دھاندلی زیادہ مؤثر انداز میں کی جاتی ھے جبکہ جسوقت پولنگ کے دوران کھانے کا وقفہ شروع ھوتاھے تب سابق حکمران جماعت زیادہ تر خواتین پولنگ اسٹیشنز پر پہلے سے تیار بھرے ھوئے ڈبے سول انتظامیہ کی مدد سےتبدیل کردیتے ہیں۔ اس کے بعد دھاندلی کا ایک دوسرا مرحلہ شروع ھوجاتاھے۔ پولنگ کے اختتام کےبعد پولنگ اسٹیشنز سے روانہ ھونیوالا پیکٹ بھی متعین ٹیچر حضرات یعنی پریذائیڈنگ افسران ہی مین آفس میں سارے حلقے کے پیکٹ جمع کرانےجاتے ہیں اور یہ پیکٹ راستے میں کسی مقام پر خفیہ کھول کر اس میں طے شدہ ووٹ پرچیاں مزید شامل کردی جاتی ہیں اور نتائج کا پیپر بھی تبدیل کر دیاجاتا ھے یوں جب تمام پیکٹ کھول کر گنتی کیجاتی ھے تو نگران حکومت کے منظور نظر جماعت جو اقتدار چھوڑ چکی ھوتی ھے اسی کے امیدواران جیت جاتے ہیں۔ بعض اوقات پولنگ اسٹیشن سے لیکر متعلقہ آفس تک درمیان پیکٹ کھولنے کا موقع نہیں ھوتا یا لیٹ ھو جانیکی صورت میں درمیان راست میں ہی رزلٹ کا مکمل پیکٹ تبدیل کردیاجاتاھے۔ 2013ء کےانتخابات میں لگ بھگ یہی فارمولا اپنایا گیاتھا اور آج بھی اسی طرح کا میکانزم طے نظر آتاھے جس کیلئے ضروری ھے کہ فوج پولنگ بوتھ کے اندر بھی پولنگ عمل کی مکمل نگرانی کرے اور فوج کی نگرانی میں پولنگ اسٹیشنز کے تمام رزلٹ پیکٹس مین آفس پہنچیں اور وھاں تمام پیکٹس کو کھولنے اور تمام انتخابی حلقہ جات کے سارے پولنگ اسٹیشنز کے جمع پیکٹس کے نتائج اکٹھا کرنیکی مانیٹرنگ میں بھی فوج شریک ھو تب جاکر کہہ سکتے ہیں کہ شفاف الیکشن کےعمل میں نگرانوں کےساتھ ساتھ فوج نے بھی اپنا فریضہ ادا کیاھے اور چونکہ اسوقت تک ایسے کسی میکانزم کی اطلاع نہیں کیونکہ پنجاب سمیت وفاقی حکومت کا بیشتر ڈھانچہ ابھی تک ن لیگی حکومت کا ہی براجمان ھے اور یہ ڈھانچہ تمام اضلاع کے کمشنرز، ڈی پی اوز، سی سی پی اوز سے لیکر سارے پنجاب کے تھانوں کے ایس ایچ اوز تک براجمان ہیں اور یہ تمام الیکشن پراسیس میں کسی نہ کسی صورت شامل ھوتے ہیں اور چونکہ چاروں صوبوں کے گورنرز بالخصوص پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ۔ یہ سب خالص سیاسی گورنرز ہیں اور یہ نیوٹرل بالکل نہیں اسطرح سارا الیکشن پراسیس مشکوک نظر آتاھے اس تمام بنے بنائے پرانے میکانزم کی تبدیلی فوری ضروری ھے تاکہ انتخابی نتائج دھاندلی شدہ نظر نہ آسکیں-

اس سے ھٹ کر اس پہلو کو بھی دیکھیں کہ فرض کریں میرے حلقے سے تین مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار حصہ لے رہے ہوں اور ان کا کردار ایسا ہو کہ میں ان میں سے کسی ایک کو بھی ووٹ دینا پسند نہ کروں۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیا ریاست نے مجھے کوئی آپشن دے رکھا ہے یا میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ یا توان تینوں میں سے کسی ایک کو ووٹ دے کر اپنا نمائندہ بنا لوں یا پھر بے بسی سے اس سارے معاملے سے لاتعلق ہو کر گھر بیٹھ کر جاؤں؟

الیکشن کمیشن نے2013 کے انتخابات سے پہلے اس سوال پر غور و فکر کرکے اس کا حل نکالا تھا۔ اس نے کہا کہ ہم بیلٹ پیپر میں ایک اضافی خانہ متعارف کرانے جا رہے ہیں۔شیر ، بلے، سائیکل، کتاب اور تیر وغیرہ کے انتخابی نشان کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو یہ آپشن بھی دے رہے ہیں کہ وہ چاہیں تو ان میں سے کسی کو بھی ووٹ نہ دیں۔بیلٹ پیپر میں ایک اضافی خانہ ہو گا جس میں لکھا ہو گا کہ میں ان تمام امیدواران میں سے کسی ایک کو بھی اس قابل نہیں سمجھتا کہ ووٹ دوں۔اس خانے میںNOTA لکھا ہو گا۔ یعنی None of the Above.۔ الیکشن کمیشن نے تجویز دی کہ اگر 51 فیصد یا اس سے زیادہ ووٹNOTA کو مل گئے تو الیکشن کالعدم تصور ہو گا۔

الیکشن کمیشن نے اتفاق رائے سے یہ معاملہ وزیر اعظم کو بھیج دیا کہ وہ اسے منظور کر کے صدر پاکستان کو بھیجیں اور صدر پاکستان ایک آرڈیننس کے ذریعے اسے نافذ کر دیں۔جب یہ سمری وزیر اعظم ہاؤس پہنچی تو وہاں سکوت مرگ طاری ہو گیا۔ معاملہ یوں دبا دیا گیا کہ یہ ٹاک شوز اور کالموں کا موضوع تک نہ بن سکا۔کاغذات نامزدگی میں ترمیم کے معاملے پر فرینڈلی نام نہاد اپوزیشن نے چپکے چپکے اتفاق کر لیا اور یہ بھی چپکے چپکے طے کر لیا کہ ووٹر کو اتنی آزادی نہ دو کہ ہمارے لیے مصیبت کھڑی ہو جائے۔

چنانچہ یہی طے پایا کہNOTA کا خانہ بیلٹ پیپر میں نہیں ہو گا۔الیکشن کمیشن نے بھی کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تجویز کو ایک گناہ سمجھ کر بھلا دیا۔ نہ وہ اس تجویز کو عوام کے سامنے لایا۔ نہ ہی اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی کوشش کی کہ جناب ہم نے یہ تجویز دی ہے مگر حکومت نے اسے اندھے کنویں میں ڈال دیا ہے تو آپ سے استدعا ہے اس پر مناسب حکم جاری فرمائیے۔الیکشن کمیشن آج بھی اہل سیاست کی فرمانبرداریوں میں لگا ہوا ہے اور تازہ ترین فیصلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر امیدواران سے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جو بیان حلفی لیا جائے گا اسے ویب سائٹ پر نہیں ڈالا جائے گا۔بلکہ پورا اہتمام کیا جائے گا کہ عوام کی اس پر نظر نہ پڑے۔

اب آئیے اس پہلو کی جانب کہ الیکشن کمیشن نے NOTA کی یہ تجویز کیوں دی تھی؟ اس کی تین وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ اس صورت میں ٹرن آؤٹ بڑھتا اور لوگوں کی اکثریت جو لاتعلق ہو کر گھر بیٹھ جاتی ہے وہ گھر سے نکلتی اور آکر کہتی کہ ان میں سے کوئی امیدوار ہمیں قبول نہیں ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جب سیاسی قیادت کو معلوم ہوتا کہ عوام کے پاس اب NOTA کا آپشن موجود ہے تو وہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت زیادہ محتاط ہو کر فیصلے کرتے اور نسبتا بہتر امیدواران میدان میں اتارے جاتے۔تیسری جہ یہ تھی کہ اگر لوگ بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے میں آتے تو اس سے جعلی ووٹ ڈالنے کا عمل رک جاتا یا انتہائی کم ہو جاتا۔کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جو لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آتے ان کے جعلی ووٹ بھگتا دیے جاتے ہیں۔

یہ تجویز کوئی انوکھی تجویز نہیں تھی۔دنیا کے بہت سے ممالک میں NOTA متعارف کرایا جا چکا ہے۔ کولمبیا، یوکرائن، برازیل، فن لینڈ، سپین، سویڈن ، چلی، فرانس ، بلجیم ، امریکہ کی بعض ریاستوں اور حتی کہ بنگلہ دیش اور بھارت میں یہ آپشن مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ بھارت میں الیکشن کمیشن نے اسے متعارف کرانا چاہا تو حکومت نے یہ تجویز رد کری۔ چنانچہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دے دیا کہ وہ اس آپشن کو بیلٹ پیپر میں شامل کرے۔چنانچہ 2014 کے عام انتخابات میں ساٹھ لاکھ (6000000)ووٹرز نے NOTA پر مہر لگائی۔

بھارت میں معاملہ سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں جا سکتا؟ الیکشن کے ہنگاموں میں قوم کو یہ اقوال زریں تو سنائے جاتے ہیں کہ ووٹ ضرور ڈالیے اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیجیے لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اگر کوئی آدمی کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینا چاہے تو اس کے پاس کیا آپشن ہو گا؟ ووٹ ڈالنا اگر عوام کا آئینی حق ہے تو کیا NOTA کا آپشن ان کے بنیادی جمہوری حقوق میں شامل نہیں ہے؟ کیا اس جبر کا کوئی جواز ہے کہ عوام کے آپشن کو محدود تر کر کے انہیں عملابے بس کر دیا جائے۔

ہمارے ہاں غالبا یہ طے کر لیا گیا کہ قانون سازی صرف بالادست طبقات کے مفاد میں کی جائے گی۔اس طبقے کا مفاد ہو گا تو پارلیمان میں سب مل کر کاغذات نامزدگی میں واردات ڈال دیں گے اور اس طبقے کے مفاد کا تقاضا ہو گا تو سپریم کورٹ کے حکم کے بعد مجبوری کے عالم میں ان سے بیان حلفی تو لے لیا جائے گا لیکن اسے ویب سائٹ پر نہیں ڈالا جائے گا۔تاکہ ووٹر ان کی واردات سے بے خبر رہے ۔ہمارے انتخابی قوانین اسی بالادست طبقے کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔اس سے بڑا تماشا کیا ہو سکتا ہے کہ ایک عام ووٹر پر پابندی ہے کہ وہ صرف ایک حلقے سے ووٹ ڈال سکتا ہے لیکن بالادست طبقے کو آزادی ہے وہ چاہے تو پانچ حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے لے۔ایک سے زیادہ حلقے سے جیتنے کے بعد وہ ایک حلقہ پاس رکھ کر باقی حلقے چھوڑ دے اور قرضے میں جکڑی غریب قوم چھوڑے ہوئے حلقے میں پھر سے قومی وسائل جھونکے اور ضمنی انتخاب کروائے۔

کیا الیکشن کمیشن کو احساس ہے کہ کسی حلقے کا ضمنی الیکشن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟ انتخابی عملے کی ڈیوٹی لگتی ہے، امن و امان کیلئے پولیس اور رینجرز تعینات ہوتی ہے، بیلٹ پیپرز چھپتے ہیں، مقامی تعطیل کرنا پڑتی ہے، لاکھوں لوگ ایک بار پھر پولنگ سٹیشن کا رخ کرتے ہیں۔رہنما کا مسئلہ تو سمجھ میں آتا ہے۔اسے خوف ہو سکتا ہے ہار نہ جائے اس لیے ایک سے زیادہ حلقوں سے حصہ لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ثابت کرنا چاہتا ہو میں بڑا مقبول ہوں پانچ حلقوں سے کامیاب ہوا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی حلقے میں ٹکٹ کا فیصلہ نہ کر سکا ہو اور پارٹی کو تقسیم سے بچانے کے لیے خود امیدوار بن بیٹھا ہو۔لیکن اس سب کی سزا عوام کو کیوں دی جائے؟

بھارت میں بھی پہلے ایسا ہی تھا کہ جو جتنے حلقوں سے چاہے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ پھر وہاں عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 33 میں ترمیم کی گئی کہ ایک آدمی دو سے زیادہ حلقوں سے امیدوار نہیں بن سکتا۔ اور اب 2019 کے انتخابات کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے کہ ایک آدمی کو صرف ایک حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔بھارت کا الیکشن کمیشن یہ سب کر سکتا ہے تو ہمارا الیکشن کمیشن کیوں نہیں کر سکتا؟

بہت سے دیگر راستے بھی موجود ہیں۔ کسی کے جیتنے کے بعد حلقہ چھوڑنے کی صورت میں دوسرے نمبر پر آنے والے کو بھی کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں ضمنی انتخابات کے تمام اخراجات بشمول وہاں تعینات اہلکاروں کی کم از کم ایک دن کی تنخواہ اس امیدوار سے وصول کیا جائے جس کے حلقہ چھوڑنے کی وجہ سے ضمنی الیکشن کروانا پڑے۔انتخابی قوانین میں کوئی اصلاح تو کیجیے۔ یہ ملک چند سیاسی رہنماؤں کی چراگاہ تو نہیں کہ ہم اپنے وسائل اور قومی خزانہ ان انوکھے لاڈلوں کے ایڈونچر کے لیے برباد کرواتے رہیں۔
سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ وہ ایک آزاد ادارہ ہے یا چند سیاسی شخصیات کا مزارع؟

آخر میں اس سے الگ ایک بات اور تحریر کرناچاھتاھوں کہ اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا موسم سر پر ھےاور نوازشریف، مریم نواز و کیپٹن صفدر کے احتساب عدالت کیسز پر تمام پروسیڈنگ مکمل ھوچکی ھے اور اب فیصلےکاوقت قریب آن پہنچاھے اور اچانک پہلے سے طے شدہ پلاننگ کےتحت کلثوم نواز کی بیماری کو اتنی شدت سے ھوا دی جارہی ھے کہ اب جھوٹ بھی سچ نظر آنےلگاھے اور اس بارے قومی تجزیہ کاران کا کہناھے کہ نوازشریف و دیگر اپنے خلاف فیصلہ الیکشن کی تاریخ سے قبل نہیں آنے دیناچاہتے کیونکہ اس سے انکا جو تھوڑا سا ووٹ بنک ھے اس سے بھی ھاتھ دھو بیٹھیں گے اور ان کی پلاننگ یہی ھے کہ انکی پنجاب میں حکومت بن جائے اور کلثوم نواز کی بیماری کے بہانے اعلیٰ عدلیہ کو فیصلہ کرنے میں دشواری پیدا ھوجائے اور چونکہ ابھی تک گورنرز و ضلعی سطح پر وسیع پیمانوں پر ٹرانسفر برائے ٹرانسپیرنٹ انتخابات تبادلے نہیں کئے جارھے اور نیب نے نگران وزیرداخلہ کو شریفس کا نام ECL میں ڈالنے کا تین بار کہا مگر نگران وزارت داخلہ نے اس پر عمل نہیں کیا جبکہ حمزہ شہبازشریف کی مبینہ بیوی کی دعویدار عائشہ احد ملک جو گزشتہ 7 برس سے انصاف کیلئے دہائیاں دے رہی تھی چیف جسٹس آف پاکستان نے نوٹس لیکر حمزہ شہباز کیخلاف مقدمات درج کرنے کی اعلیٰ پولیس حکام کو ھدایات جاری کیں مگر دونوں فریقین کو عدالت طلب کیا اور بعدازاں پتہ چلا کہ عدالت میں ہی دونوں نے اپنے اپنے کیس واپس لے لئے اھم غورطلب بات یہ کہ اسکی تفصیلات کو اعلیٰ عدلیہ نے مخفی کیوں رکھا؟ یوں سارے معاملات مشکوک ھوگئے کہ اگر حمزہ شہباز نے عائشہ احد کو اپنی بیوی تسلیم کیا تو وہ آرٹیکل 62، 63 کے تحت نااھل قرار پاتاھے۔۔ ایسا کیا ھوا کہ عائشہ احد ملک نے 7 سال انصاف کےحصول کیلئے مسلسل جدوجہد کہ اور احاطہ عدالت میں ایک گھنٹے کے اندر اندر سرنڈر کرگئی جسکی تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکیں بلکہ معزز عدالت کا یہ کہنا تعجب سے کم نہیں کہ معاملات عدالت سے باھر لیک نہیں کئے جائیں گے تو کیا معزز جج صاحب پارٹی بن گئے؟ اگر وہ واقعی غیرجانبدار ہیں تو ابھی تک اس کیس کی تفصیلات پبلک کیوں نہیں کی گئیں کیونکہ پبلک میں یہ ثاثر پھیل رھاھے کہ حمزہ شہباز کو اعلیٰ عدالتی شخصیت نے ریلیف دلانے میں اھم کردار اداکیا اور اگر ایسا نہیں تو اسکی تفصیلات کا پبلک ھونا اشد ضرورت ھے اور یہ بھی کہ نوازشریف اور مریم نواز اگر کلثوم نواز کی بیماری کےبہانے لندن سے واپس نہیں آتے تو انکی غیر موجودگی میں اعلیٰ عدلیہ کو اپنا فیصلہ سنا دینا چاہیئے یہی حقیقی انصاف کا تقاضا ھے جس میں دوھرا معیار نظر نہ آئے جبکہ شہباز شریف کیخلاف کرپشن کے حوالے سے پنجاب میں قائم 56 کمپنیوں کے کیسز کے علاوہ ماڈل ٹاؤن سانحہ، ایل ڈی اے آتشزدگی اور اس میں ھونے والی ھلاکتوں سمیت نندی پور، حدیبیہ پیپر ملز و اورینج لائن اور ملتان میٹرو پراجیکٹ کرپشن کیسز سمیت لاتعداد کیسز پر بھی فوری پیشرفت ضروری ھے تاکہ پبلک میں یہ تاثر دور ھوسکے کہ NRO پارٹ ٹو طے پایا جا چکا۔ اور اگر یہ واقعی درست بات ھے اور کچھ نہیں ھونا تو پھر یہ اس ملک اور اسکی عوام کیساتھ بہت بڑی زیادتی ھوگی کیونکہ ساری قوم کی نگاہیں اعلیٰ عدلیہ پر ہیں کہ وہ تمام کیسز کو آئین و قانوں کی اصل روح کیمطابو کسطرح ھینڈل کریں اور کیا فیصلے صادر فرمائیں کیونکہ یہاں شخصیات نہیں بلکہ ادارے اھم ہیں اور شفافیت سے ہی پاکستان کو نیک نامی ساری دنیا میں مل سکتی ھے کہ جسطرح پاک مسلح افواج نے کراچی، بلوچستان سمیت شمالی و جنوبی وزیرستان میں دھشتگردوں کیخلاف وسیع آپریشن کیا جس نتیجے میں 15 ھزار دھشتگرد مارے اور دھشتگردی کی جنگ کے دوران 70 ھزار پاکستانیوں نے دھرتی پر اپناخون نچھاور کیا جس میں جرنیل سے لیکر مورچے میں بیٹھے 5 ھزار فوجی جوانوں کے علاوہ ھزاروں دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔۔ الحمدللہ آجکا پاکستان " پاک افواج اور اسکی عوام کے متحد ھونے اور قربانیاں دینے سے محفوظ ھے" مگر ھزار صد افسوس صرف اس بات کا ھے کہ ھمارے سیاسی کرپٹ سسٹم کو درست کرنے اور کرپشن کرنیوالے عناصرز سے رقوم واپس لینے کیلئے کوئی خاص ورکنگ نظر نہیں آرہی ھے اور اب اگر یہ کرپٹ عناصر دوبارہ انجینئرڈ الیکشن کیصورت میں برسراقتدار آگئے تو پھر پاکستان کا خدا ھی حافظ کیونکہ آئندہ یہی کرپٹ سیاستدان برسراقتدار آکر پاکستان کو بنجر بنادیں گے کہ بھارت سے ملی بھگت اور دریاؤں کے پانی کو روکنے میں ان کرپٹ سیاستدانوں کا بڑا کردار شامل ھے اور یہ ایسا نازک موقع ھے کہ اگر قومی سلامتی کے ضامن اداروں نے اپنا قومی فریضہ ادا نہ کیا توخدا نخواستہ پاک مسلح افواج ادارے کو یہی شریفس رضا کار فورس بناکر پنجاب پولیس کے آئی جی کے ماتحت کر دیں گے۔
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334969 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More