اور کپتان ہار گیا!

آج عمران خان نے کارکنان کے شدید احتجاج کے باوجود لوٹوں کو ٹکٹ دے کر ان کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ عمران خان کے لیے کتنے اہم ہیں۔ اگر یہ لوگ انتخابات جیت جاتے ہیں تو پھر یہ لوگ عمران خان کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔ پھر یہ لوگ پارٹی کو اپنی مرضی سے چلائیں گے اور عمران خان صرف دیکھتے رہیں گے جس طرح خیبر پختون خواہ میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز ختک کی کرپشن، مطلق العنانیت اور من مانی کو دیکھتے رہے اور کچھ کر نہ سکے۔

جی ہاں بات بالکل ٹھیک ہے۔ کپتان انتخابات منعقد ہونے سے پہلے ہی ہار چکا ہے۔کپتان نے عوام کے فیصلے کا انتظار ہی نہیں کیا۔ کیوں نہیں کیا؟اس لیے کہ کپتان کو خود پر، اپنی پارٹی پر اعتماد ہی نہیں۔

اگر کپتان کو اپنی پارٹی پر، خود پر ، اپنے منشور پر، اپنی کارکردگی پر اعتماد ہوتا تو آج کپتان لوٹوں کو ٹکٹ دینے پر مجبور نہ ہوتا۔ جو لوگ برسوں سے پارٹی کے ساتھ تھے، جنہوں نے مشکل وقت میں کپتان کا ساتھ دیا، جنہوں نے کپتان کو نجات دہندہ سمجھا، کپتان نے ان کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ انہیں پارلیمنٹ میں بھیجے۔ ان کے بجائے کپتان نے لوٹوں کو الیکٹ ایبل سمجھ کر ٹکٹ دیا ہے۔ کپتان کے اس فیصلے پر اس کی پارٹی شدید انتشار کا شکار ہے، کراچی، لاہور، فیصل آباد، بنی گالا اسلام آباد غرض ہر جگہ عمران خان کے اس فیصلے پر کارکنان نے احتجاج کیا ہے اور تاحال یہ احتجاج اور دھرنے جاری ہیں۔صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ عمران خان کو اپنے ہی کارکنان سے بچنے کے لیے سیکورٹی فورسز کی خدمات حاصل کرنی پڑی ہیں اور اس وقت بنی گالہ میں رینجرز کے 300 اہلکار تعینات ہیں۔

جمعرات کو پی ٹی آئی چئیر مین عمران خان نے بنی گالہ پر دھرنا دینے والے کارکنا ن سے خطاب کے دوران کہا کہ ’’ ہمیں اگلا الیکشن جیتنا ہے، اس کے لیے ہمیں الیکٹ ایبل لوگوں کی ضرورت ہے۔ جب ہم الیکشن جیتیں گے تب ہی کچھ تبدیلی لا سکیں گے۔‘‘ عمران خان کے یہ جملے در حقیقت اپنی پارٹی اور پالیسی کی ناکامی کا کھلا اعتراف ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ دنیا بھر میں اور پاکستان میں بھی کچھ پارٹیاں اپنی کارکردگی، منشور ،ساکھ اور اپنی مقبولیت کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں، انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ہے ہمارا ووٹر پارٹی کو ووٹ دے گا۔ لیکن لوٹوں، کرپٹ اور بد دیانت لوگوں کو یہ سمجھ کر ٹکٹ دینا کہ یہ پارٹی کو کامیاب کرائیں گے درحقیقت عوام کو بے وقوف بنانا ہے۔

بات یہ ہے کہ آج عمران خان نے کارکنان کے شدید احتجاج کے باوجود لوٹوں کو ٹکٹ دے کر ان کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ عمران خان کے لیے کتنے اہم ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان انتخابات سے پہلے جن لوگوں سے اتنے مرعوب ہیں تو انتخابات جیتنے کے بعد وہ ان لوگوں پر کس طرح قابو پاسکیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد یہ سارے کے سارے لوٹے عمران خان کی مبینہ پالیسی کے مطابق کام کریں گے؟ عمران خان آج جن لوگوں سے اتنے مرعوب ہیں اگر یہ لوگ انتخابات جیت جاتے ہیں تو پھر یہ لوگ عمران خان کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔ پھر یہ لوگ پارٹی کو اپنی مرضی سے چلائیں گے اور عمران خان صرف دیکھتے رہیں گے جس طرح خیبر پختون خواہ میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز ختک کی کرپشن، مطلق العنانیت اور من مانی کو دیکھتے رہے، پارٹی کے لوگ ، کارکنان پرویز ختک کے خلاف شکایتیں لگاتے رہے اور عمران خان ان لوگوں کو پارٹی سے نکالتے رہے لیکن پرویز خٹک کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔اگر آنے والے انتخابات میں یہ لوٹے کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر آئندہ بھی یہی ہونے ولاہے، کوئی تبدیلی نہیں آنے والی، کوئی نیا پاکستان نہیں بننے والا۔

اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان در اصل انتخابات سے پہلے ہی ہار چکے ہیں۔ عمران خان کو اپنی پارٹی، اپنی پالیسی ، اپنی کارکردگی پر کوئی اعتبار نہیں، افسوس کہ آج کپتان کو لوٹوں پر زیادہ اعتماد ہے۔ گزشتہ پانچ برس تک وہ جس ن لیگ اور پی پی پی کی کرپشن اور فراڈ کے خلاف لوگوں کو اکساتے رہے آج انہی کی حکومتوں میں شامل کرپٹ افراد کو ٹکٹ دیدیے۔کپتان مان لو کہ تم مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی شکست تسلیم کرچکے ہو۔

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520320 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More