پی ٹی ایم اور ریاست۔۔۔؟؟؟

بہت پشتون ساتھی شکوہ کرتے ہیں کہ مجھ جیسا ناطواں لکھاری اگر مقامی مسائل کو نظرانداز کرکے قومی مسائل کو اپنا موضوع انتخاب بناتے ہیں تو پھر گلہ کس سے کریں اور یقیناً بات میں دم ہے مگر اتفاق سے راقم کی نظریں مقامی موضوعات سے پھلانگ کر قومی موضوعات پر ٹکراتی ہیں جو خود اسکی کمزوری ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے

بحرحال آج اگر بات ہورہی ہے پشتون تحفظ مومنٹ کی تو آج یہ ایک مقامی مسلْہ نہیں بلکہ اسکی جڑیں اب اتنی گہری ہوچکی ہیں کہ ساری ریاست میں اتھل پتھل کا فضا گویا اسی کیوجہ سے ہے، آج چونکہ یہ ملک کے گوشے گوشے میں پہچانی جاچکی ہے اور جس مہارت کیساتھ اس نے سوشل میڈیا کی طاقت سے ہر صارف بلخصوص ہر پشتون سے اپنی تعارف کروائی، اسکی مثال نہیں-

موضوع اتنا لچکدار اور معلوماتی ہے کہ اگر گھنٹوں گھنٹوں اس پر لکھا جائے تو صفحیں کم پڑجائیں مگر یہ تحریر روایتی کالموں سے کچھ ہٹ کر ہے کیونکہ اس موضوع کو بیان کرتے ہوئے ابھی بھی راقم کنفیوزڈ ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس تحریک کے بارے میں تین قسم کے نظریات کے لوگ موجود ہیں۔ اول جو پورے من و عن سے منظور پشتین کو اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہوئے سپورٹ کررہے ہیں، دوسرے اسکے برعکس سوچ والے ہیں جو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ ہاتھوں میں تھام کر ریاست سے کوئی بھی سوال کرنے والے کو غدار گردانتے ہیں جبکہ پی ٹی ایم سپورٹرز انکو گل خان کا لقب بھی عنایت کرتے ہیں۔ مگر درمیان میں ایک تیسرہ طبقہ بھی موجود ہے جو بیان شدہ مخالفین کی دلائل سے یا تو بے زار اپنی زندگی میں مگن ہیں یا دلائل کی جانچ کرتے کرتے اتنے کنفیوزڈ ہوگئے ہیں کہ عمومی طور پر تحریک کو controversial قرار دے رہے ہیں

جب گفتگو کے دوران انقلابیوں سے بحث چھڑتی ہے تو گل خان کا لقب عنایت کردیا جاتا ہے اور جب محب الوطنوں سے بحث ہوتی ہے تو غدار ٹہرایا جاتا ہے یہ طریقہ کچھ دانستہ طور پر اپنایا گیا تاکہ معاملے کی اصلیت کو پرکھا جائے، ان ساری ڈیبیٹ کا حاصل یہ ہوا کہ شروع سے ذیادہ دلائل میں الجاؤ آتا گیا اور مثبت نتیجہ یہ ہوا کہ اگر مجموعی طور پر پی ٹی ایم کے متعلق کنفیوزڈ رہا مگر انفرادی طور پر بہت سارے مسائل اور اداروں کے بارے میں آگہی ممکن ہوئی۔۔۔درج ذیل بحث میں چھڑے گئے بنیادی نکات کو اختصار کیساتھ بیان کیا گیا ہے جس میں کسی بھی فریق کو فیور نہیں کیا گیا ہے اور ہو بہو انکے سوالات و جوابات دئے گئے ہیں جو قارئین اسے پڑھ کر اپنی سوچ کے مطابق پرکھ سکتے ہیں اور شائد کنفیوزڈ بھی۔۔۔

• ایک حکومت ہوتی ہےاور ایک ریاست۔۔۔آپ حکومت کی مخالفت تو کرسکتے ہیں مگر ریاست کی نہیں کیونکہ ریاست اپنے حدود و بقا کی خاطر اپنی پالیسی نہیں بدل سکتی
• ریاست کبھی بھی اپنے باشندوں پر ظلم نہیں کرتی یہ گویا ریاست ہی نہیں جو اپنے باشندوں کا خون اپنی بقا کیلئے استعمال کرے ریاست تو اپنی عوام کو تحفظ دیتی ہے نا کہ انکے خون سے اپنی بقا کی گاڑی چلائے

• پشتون تحفظ مومنٹ بنی ہی اسلئے ہے کہ پاکستان میں واحد پشتون قوم ہی ہے جس کے خون کی بدولت ریاست کی گاڑی آگے بڑھ پاتی ہے، پشتون کے کتنے افراد کتنے سربراہان کو چن چن کر مارا گیا اسکا جواب کون دے گا۔۔؟
• کیا متاثر صرف پشتون ہیں اس ملک میں ۔۔کیا اور کسی قوم نے کوئی قربانی نہیں دی ہے، کیا کراچی میں مہاجروں کی خون کی ہولی ، بلوچستان میں کتنے بلوچ بین الاقوامی ایجنسیوں کے ہاتھوں پس رہے ہیں ۔۔پاکستان کے کونے کونے سے ہزارہ برادری کو چن چن کر مارا جاتا ہے، کیا یہ بھی ریاست کررہی ہے؟ کیا سرائیکی کمیونٹی سے پنجابیوں کے ہاتھوں جبر کو جبر کا نام نہیں دو گے۔۔۔بلکہ یہاں تو ہر قوم میں مظلوم موجود ہیں۔بات پشتون کی نہیں سرمایہ دار اور نادار طبقے کی ہے، نادار خواہ کوئی بھی ہے وہ مظلوم ہے اور سرمایہ دار خواہ پشتون ہی کیوں نہ ہو وہ حاکم اور ریاست سے مراعات یافتہ ہے۔۔۔تو کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ یہ پشتون تحفظ موومنٹ کی جگہ مظلوم تحفظ موومنٹ ہوتی

• اگر منظور جھوٹا ہے غدار ہے اور دوسری ایجنسیوں کا سپانسرڈ شدہ ہے تو ریاست مقدمہ کیوں نہیں کرتی، ریاست گرفتار کیوں نہیں کرتی۔۔۔ہم بھی چاہتے ہیں کہ منظور کو عدالت لے جایا جایے اور وہاں پر ان کا موقف لیا جائے پھر بے شک ساری عوام موصوف کو غدار ٹھرائے

• منظور کا سارا افعان پارلیمنٹ حمایت کے طور پر انکی سرخ ٹوپی پہنتا ہے، اچکزئی کے ساتھ ملاقاتیں، لر اور بر پشتون کے نعرے جھنڈے اور بینرز، امریکہ اور یورپی ممالک کی سرزمین سے پی ٹی ایم کی حمایت میں لابنگ، وائس آف امریکہ، بی بی سی اور سی این این کی بڑھ چڑھ کر حمایت یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک سپانسرڈ شدہ تنظیم ہے اور ان کے حامیوں کو سر پکھڑ کر سوچنا چاہئے کہ ہم کس کو سپورٹ کررہے ہیں گویا انکی سپورٹ انڈائرکٹ طور پر امریکہ اور بھارت کی سپورٹ کو تقویت دینی ہے

• گمشدہ افراد کو ماورائے آئین اقدام قرار دیا جائے کیونکہ آئین میں محدود وقت میں سخت سے سخت دہشتگردوں کو بھی عدالت میں پیش کرنا لازمی ہے اور یہ حکم ہر ادارے پر برابر لاگو ہوتا ہے خواہ وہ خفیہ اجنسیاں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ آئین سے بالا کوئی نہیں، اور بیشک گمشدہ افراد دہشتگرد ہی سہی ( یاد رہے اکثر وہ لوگ منظر سے غائب ہیں جو کسی نہ کسی طور طالبان اور دہشتگرد تنظیموں کیساتھ ملوس تھے) جس کیلئے فوجی عدالتیں خصوصی طور پر قائم ہیں جو رہائی سے لیکر پھانسی تک کی اختیار رکھتے ہیں

• دفاعی تجزیہ نگار جیسے ذاہد حامد اور میجر (ر) عامر کے مطابق یہ ففتھ جنریشن وار کا ایک شاخسانہ ہے جس کے تحت عوام کو مختلف ہتکھنڈوں سے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف ورغلایا جاتا ہے اور جب ریاستی ادارے ان (سپونسرڈ) تحاریک کو ختم کرنے میں مشعول ہوجاتے اور دفاع اور بارڈر سے توجہ ہٹا دیا جاتا ہے تو دشمن ادارے انتہائی چالاکی سے ملکی اداروں میں اپنا تسلط بڑھانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔۔۔یوں رفتہ رفتہ فوج اور سیکیورٹی ادارے کمزور ہوکر نہ اپنی عوام کے خلاف لڑھ سکتے ہیں اور نہ دشمن کے وار کا جواب دے سکتے ہیں اور ملک بتدریج خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا ہے اور اسی شعلے کو بجھانے کا بہانہ بنا کر دشمن قوتیں ملکی سرحدوں میں مداخلت شروع کرتے ہیں اور نتیجتاً عراق، شام، فلسطین اور افعانستان جیسی حالت ہوجاتی ہے

• انتہائی سادہ سا جواب اس لمبی چھوڑی تمہید کا دیا جاتا ہے کہ آپ (متاثرہ) عوام کے گلے شکوے اور تحفظات دور کرو، انکے مسائل کو ترجیہی بنیادوں پر حل کروں، ففتھ جنریشن وار اپنی آپ موت مرجائے گی

• کچھ لوگ پی ٹی ایم کی اس وجہ سے بھی مخالفت کرتے ہیں کہ چونکہ یہ سارے مسائل کی جڑھ ہمارا قبائل نظام اور FCR تھا جس کے ذریعے فاٹا میں ہر قسم کا غیر قانونی دھندہ عروج پر تھا اور طالبان کا ہونا بھی اسی دھندے سے متعلق تھا اور قبائل کا قومی دھارے سے دور ہونا بھی ایک بنیادی وجہ تھی۔۔۔اسلئے انکے مطابق جو ہوا سو ہوا مگر اب جبکہ آپکے پاس اتنی قوت ہے تو اپنی قوت کے بل بوتے FCR کی مخالفت کرتے اور قبائل کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا پریشر ڈالتے جبکہ ایسا کچھ نہ کرسکے۔۔۔اور اسکے برعکس وہ ملکی اداروں کو زیر تنقید لاتے ہیں

• تیسرا طبقہ جو ان دونوں سے ہٹ کر سوچ رکھتا ہے اور عمومی تنقید و حمایت کو بالائے طاق رکھ کر بالغ نظری سے اس کو پرکھتے ہیں، انکے بقول منظور پشتین کے نعرے اور تحفظات بجا ہیں مگر یہ سارا سکرپٹ پہلے سے اسٹبلشمنٹ اور اداروں کی توسط سے بنایا گیا ہے جسکا ہیرو منظور پشتون اور ولن ریاست کو قرار دیا گیا ہے جسے پشتون عوام میں خاص مقصد کے تحت اتارہ گیا ہے، انکے مطابق ایک عام طالب علم اتنا بڑا لیڈر راتوں رات بننا کوئی معجزہ ہی ہوسکتا ہے اسلئے منظور کے پیچھے پشتون عوام کی بجائے خلائی ہاتھوں کی طاقت ہے جس کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں، ایک تو فوج بنا کسی وجہ کے باہر جا نہیں سکتا تھا،انخلا کیلئے ایک ٹھوس وجہ ہونی چاہئے تھی جو منظور کو بطور جواز بنا کر فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرالیا گیا اور سول نظام کا اطلاق ممکن ہوسکا، کئی سارے قیدی جو اندرونی طالبان کہلائے جاتے تھے۔ انکی بلاجواز رہائی ممکن نہ تھی یعنی اب وہی لوگ ان (طالبان) گمشدہ افراد کی رہائی کیلئے سراپا احتجاج ہیں جو کسی زمانے میں ان سے اپنی رسوائی کے بدلے لینے کی باتیں کرتے، اور ساتھ ساتھ خفیہ اداروں کو فاٹا کی عوام کی ظرف اور ری ایکشن کا ادراک ہوچکا تھا کیونکہ بہت لمبے عرصے تک کسی بھی قوم کو دبائے رکھو گے تو وہ اپنے اندر بنتے ہوئے لاوے کو کہی نہ کہی باہر لائیں گی جبکہ انکو ایک فعال موقع اور پلیٹ فارم کی تلاش ہوتی ہے اور قبائل کو پی ٹی ایم کی صورت میں وہ پلیٹ فارم مہیا کیا گیا جبکہ انکے تحفظات کو بھی خود پورا کرکے منظور پشتون سے معاملات ٹھیک کروا کر پشتون قوم میں اس ابلتے لاوے کو ٹھنڈا کیا جائے گا اور یہ ممکن ہو اس وجہ سے بھی کیا جا چکا ہو کہ کل کلاں اگر کوئی دشمن ملک یا اجنسی اس ری ایکشن کو ہائی جیک کرتا تو دگنا نقصان اٹھانا پڑتا اسلئے خود سے لوگوں کو کھڑا کرکے خود ہی بٹا دیا اور ممکن ہے اسکی قیام میں اور بہت سی ایسی وجوہات ہو جو سول دانشوروں کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو۔۔۔

یہ تھی تینوں طبقوں کی سوچ اور اظہار رائے، اب قارئین پر منحصر ہیں کہ وہ کن دلائل سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟؟؟

Javed Hussain Afridi
About the Author: Javed Hussain Afridi Read More Articles by Javed Hussain Afridi: 15 Articles with 12624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.