ن لیگ کی حکومت اپنی معیاد مدت پوری کرکے جاچکی ہے اوراس
وقت پر ملک میں نگران حکومت قائم ہے۔ الیکشن 2018کے لیے 25جولائی بدھ کادن
مقرر کردیا گیا ہے ۔الیکشن کمیشن کی جانب سے بڑے زور وشور سے جنرل الیکشن
کرانے کی تیاری کی جارہی ہیں۔صوبائی اور قومی اسمبلی کے پولنگ کے لیے ایک
ہی دن مقرر کیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے لیے ضابطہ اخلاق بھی
پیش کردیا ہے جسکے مطابق مخالف امیدوار،رہنماؤں یا کارکنوں کی ذاتی زندگی
پر تنقید بھی نہیں کی جاسکے گی۔جس کی ہمیشہ کی طرح دھجیاں اڑائی جائیں
گی۔ہر سیاستدان سر عام ایک دوسرے کردار پر کیچڑ اچھالے گا۔ اگر یہ کہا جائے
کے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کو ننگا کریں گے تو غلط نہ ہوگا۔عید کی
چھٹیوں میں بھی کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال جاری رہی۔بہت سے نامور
سیاستدان ایک بار تو اپنے کاغذات مسترد کراچکے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کچھ دن
بعد یہی لوگ اپنے آپ کوعدالتوں سے بحال کرالیں گے۔مجھے آج تک اس بات کی
سمجھ نہیں آئی کہ جب بھی کسی امیدوارو کے کاغذات نامزدگی ڈیفالٹر ہونے کی
بنا پر مسترد ہوتے ہیں تو پھر وہ بغیرسارے پیسے وصولی کے بحال کیسے ہوجاتے
ہیں؟ ایک بندہ اربوں ،کھربوں روپے کا نادہندہ ہونے کے باوجود چھوٹی سی قسط
جمع کراکے الیکشن کے لیے اہل ہوجاتا ہے جبکہ اس برعکس غریب بندہ واپڈا کا
دوماہ بل ادا نہ کرسکے تو اس کامیٹر کاٹ لیا جاتا ہے اور جب تک میٹر نہیں
لگایا جاتا جب تک وہ اپناسارا بل کلئیرنہ کردے۔شاید یہاں امیر اور غریب کے
لیے قانون الگ الگ ہو؟
سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے منشور بھی فائنل کرلیے ہیں ۔کسی نے سو دن کا
پلان بنا کررکھ دیاہے تو کسی نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد کے منصوبہ جات
بنا لیے ہیں۔اب الیکشن کمپئین میں چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے وہ عوام کو
اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں گے مگر کیا کریں ہماری عوام بہت بھولی ہے
اس کو کچھ یاد نہیں رہتایا پھر اس کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں۔بقو ل شاعر
’’یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا ،بھول جانے کو کچھ بھی نہیں‘‘
2013 میں مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کی ،سندھ میں پیپلزپارٹی اور
خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت رہی۔کیا ان پارٹیوں کے سربراہان
اپنے پچھلے منشور پر نظر دوڑا کر بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے منشور پر
کتنا عمل کیا؟ن لیگ کوچند چیدہ چیدہ نکات پرنظر ڈال دوں کہ ان کامنشور کیا
تھا؟ سرکاری و نجی شعبے میں 30 لاکھ سے زائد ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنا،
مزدور کی تنخواہ کم از کم ماہانہ تنخواہ 15 ہزار روپے مقرر کرنا،نئے ’سی
این جی‘ اسٹیشنز پر پابندی لگانا، پبلک ٹرانسپورٹ کو گیس کی فراہمی میں
اولیت دینااور دو سالوں کے دوران لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردینا شامل تھا مگر
دو سال تو کیا پانچ سال پورے ہوگئے مگر ابھی تک لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل نہ
ہوسکا۔شہباز شریف جو زرداری دور میں اپنے ہاتھ سے پنکھا جھلا کرتا تھا ایسے
ہی آج بھی عوام زیادہ نہیں کم جھل رہی ہے ۔عوام آج بھی پیٹرول کے بم کھا
رہی ہے اور آج بھی مزدور دس سے بارہ ہزار کی تنخواہ پر کام کرکے اپنا
ستحصال کرا رہا ہے۔
سندھ میں حکومت کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی کے سابقہ منشور پر ایک نظر
ڈالیں تو اسکے منشور میں ’’روٹی، کپڑا اور مکان۔۔۔علم، صحت اور روزگار سب
کے لیے‘‘ کا اعلان کیا گیا۔ خواتین، اقلیتوں، نوجوانوں اور مستحق افراد کو
قومی دھارے میں لانے، کم اجرت کو مرحلہ وار 18 ہزار تک بڑھانے کے علاوہ
آئندہ اپنی حکومت کی مدت کے اختتام تک مجموعی قومی پیداوار کا ساڑھے چار
فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا کہا گیا ہے مگر سندھ میں آج بھی مزدور در در کی
ٹھوکریں کھا کر بمشکل اپنے خاندان کا پیٹ بھر رہا ہے۔18 ہزار تو بہت دور
پندرہ ہزار بھی تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ تعلیمی میدان میں آج بھی سر عام نقل
کراکے ڈگریاں دی جارہی ہیں۔
خیبرپختوانخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت تھی جو کہ پہلی بار اقتدار میں
آئی اور اس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔اس نے بھی اپنا جومنشور پیش کیا
اس پر ایک نظر دوڑا لیں۔منشور میں دو سے تین سال میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے،
عوام کو با اختیار بنانے اور 90 دنوں میں مقا می حکومتوں کے انتخابات
کرانے،چھوٹے چھوٹے350ڈیم بنانے، گورنر ہاؤس کو لائبریری بنانے ،وزیراعلیٰ
ہاؤس میں یونیورسٹی بنانے اور 250کے قریب کالج بنانے جیسے منصوبوں کا اعلان
کیا گیا تھا۔کیاتحریک انصاف نے اپنے منشور میں پیش کیے گئے منصوبوں میں سے
کسی ایک پر عمل کیا۔ کیا کالج، یونیورسٹی یا لائبریری قائم کی ؟ڈیم پر کبھی
پارٹی کے قائدین یا وزیراعلیٰ نے بات کی؟ سو باتوں کی ایک بات کہ عوام
بھولی ہے اور سیاستدان ان کو اپنی باتوں میں پھسلا کر اپنا الو سیدھا کر
جاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے عوام کے سامنے پیش کیے گئے منشور
میں کسی ایک منشور پر عمل نہیں کیا ۔صرف زبانی کلامی خرچ کرکے عوام کو
گمراہ کیاگیا۔
2018کے الیکشن کی تاریخ آتے ہی سیاسی جماعتوں میں اکھاڑ بچھاڑ شروع ہوگئی
ہے۔ سیاسی امیدوار ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں چھلانگیں لگارہے ہیں۔ایک
دوسرے پر لوٹوں کالیبل لگانے والے آج خود لوٹے اپنی پارٹیوں میں شامل کررہے
ہیں۔ کل تک جو ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے آج ایک دوسرے کے گن گا
رہے ہیں۔ جو دھمکیاں لگارہے تھے کہ اگر میں نے زبان کھولی تو پتانہیں کونسا
طوفان آجائے گا آج اس کے ساتھ بیٹھ کر سیلفیاں بنا رہے ہیں۔
میں تو کہوں گا’’ سیاست کے رنگ بے شرمی کے سنگ‘‘ کیونکہ بقول خواجہ آصف کے
کہ کوئی شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے مگر یہا ں تو یہ بھی نہیں۔ بڑے حوصلے کے
ساتھ ایک بار پھر 2018کے منشور کا اعلان کیا جارہا ہے مگر افسوس اس بات کا
ہے کہ ہماری عوام میں سے کسی نے نہیں پوچھنا کہ پچھلے بار جو منشور پیش کیا
اس پرکتنے فیصدعمل کیا؟
آج پھر وہی پرانے چہرے دوسری پارٹیوں میں جا کرہم پر مسلط ہونے کو تیار ہیں
اور ہم خو د ان کو اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کرکے یہ سوچتے ہیں کہ شاید یہ
پارٹی ہمارے لیے اچھا کرے گی مگر افسوس تو یہی ہے کہ چہرے بدلنے سے نہیں
نظام بدلنے سے ہمارا پاکستان ترقی کرے گا۔ دشمن میں اتنی ہمت نہیں کہ ہماری
طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے مگر کیا کریں ہمارے اندر لگا دیمک ہمیں چاٹ
رہا ہے۔ ہماری جڑیں کھوکھلی کی جارہی ہیں۔
ایک بار پھر الیکشن کا وقت قریب ہے اور ہمارے ملک میں پانی کی سطح کم سے کم
ہوتی جارہی ہے اس لیے ہمیں ڈیمز کی شدت سے ضرورت ہے اس لیے ہمیں اپنے ووٹ
کی طاقت سے ڈیم بنوانے ہونگے ورنہ ہماری آنے والی نسل تباہ و برباد ہوجائے
گی۔ووٹ ایک قومی فریضہ ہے اس کو پورا ضرور کرو مگر یہ دیکھ لو کونسا
امیدوار تمھارے شہر، علاقے اور ملک کے لیے فائدہ مند ہے؟کس کا اخلاق اچھا
ہے؟ کونسی جماعت نے اپنے اقتدار میں کام کروائے اور کونسی جماعت نے پیسہ
بنایا؟ اس وقت ملک کو مشکل حالات سے کونسا لیڈر نکال سکتا ہے ؟ یہ سب ذہن
میں رکھ کر اپنا ووٹ کاسٹ کریں اورجو جماعت اقتدار میں آجائے تو پھر کسی کے
اشارے پر ملک میں انتشار پیدا نہ کریں۔اگلے الیکشن تک اپنی باری کا انتظار
کریں۔اﷲ ہم سب کا حامی وناصر۔
|