دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اَزل سے وہی قومیں کامیاب
ہوئی ہیں۔ جو اپنے ما ضی کو سا منے رکھ کر اپنا حال بہتر بناتے ہوئے اپنے
مستقبل پر نظر رکھتی ہیں۔ اور اپنے آنے والے کل اور اپنی نسلوں کے بہتر
مستقبل کے لئے اچھا سوچتی ہیں۔ آج اُن ہی اقوام نے دنیا میں اپنا منفرد اور
بلند مقام حاصل کیا ہے۔ جبکہ ہم بحیثیت پاکستا نی قوم ستر سالوں سے اپنی
خودی کی تلاش میں ہی سرگرداں ہیں۔یقینی طور پر یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک بھٹک
رہے ہیں۔ اگر ابھی ہم نے خود کو نہ پہنچانا اور اپنے ما ضی سے سبق سیکھ کر
اپنے حال کو ٹھیک نہ کیا اور اپنے مستقبل کی فکر نہ کی تو پھر ہم یوں ہی
دردر کی خاک چھانتے رہیں گے اوریوں ہی آپس میں لڑ جھگڑ کر مٹی تلے جاتے
رہیں گے۔
بہر کیف،آج پھر سے جمہور کو گروی رکھ کر جمہوریت کے پجاریوں کا ٹولہ
جمہوریت برائے خریدو فروخت کا ڈنکا پیٹتا ،ہاہاکار کرتا، اِٹھلاتا، للچاتا
، بل کھاتا، گلی ، محلوں ، سڑکوں اور بازاروں پر نکل گیاہے، کیو ں کہ اِسے
معلوم ہے کہ متوقع عام انتخابات 2018ء سر پر آن پہنچے ہیں۔ آج تب ہی تمام
سیاسی بازی گر اور قوم کی خون پسینے سے قومی خزا نے میں جمع کمائی سے اللے
تللے کرنے والے الیکشن میں اپنی فتح کا خواب آنکھوں میں سجائے قوم سے ووٹ
کی بھیک مانگنے کے لئے سیاسی حربوں کے ساتھ مسائل اور پریشانیوں کی کھا ئی
میں پڑے ووٹرز کی دہلیز پر آرہے ہیں۔
ہمیں اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ پچھلے ستر سالوں کی طرح آج ایک مرتبہ پھر
جمہوریت کے پجاری جمہور کو سبزباغ دِکھا کراپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے
خاطرایک پیچ پر جمع ہورہے ہیں۔ اور آج حسبِ معمول تیزی سے گزرتے لمحات کے
ساتھ جمہور کو گروی رکھ کر جمہوریت برائے خریدو فروخت کا اشتہار اُٹھا ئے
پھر نے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ 25جولائی 2018ء کو ہو نے والے عام
انتخابات کے پُر امن انعقاد اور اپنی کا میا بی کو یقینی بنانا ہے ؛ جس کے
لئے یہ ہرجا ئی ہر جتن کرنے کو تیار ہیں۔بیشک ، اِن کے نزدیک عوا می مسائل
حل کرنے سے زیادہ متوقع الیکشن میں اپنی جیت کے لئے جائز و ناجائز حربے
استعمال کرکے اقتدار کا حصول ہے۔
جیسا کہ اِن دِنوں مُلک کے طولُ ارض میں جمہور کے نام پر جمہوریت برا ئے
خریدو فروخت کاعزم کرنے والے عام انتخابات 2018ء کے اُمیدواروں کی جانب سے
الیکشن کمیشن آف پاکستا ن میں اثاثوں کی تفصیلات جمع کرا نے کا سلسلہ جاری
ہے۔ جن میں ایک نکتہ قدرے مشترک ہے کہ اکثر کے پاس کروڑوں اور اربوں کی
جائدادیں /اثاثہ جات تو ہیں۔ مگراِن میں سے بیشتر اپنی ذاتی گاڑی نہیں
رکھتے ہیں۔ اور اکثرذاتی حوالوں سے مقروض بھی ہیں ۔ ایسا کیوں ہے؟ آج یہ
سوال بھی اپنے اندر بے شمار سوالات کو جنم دے چکاہے۔
بہرحال، ااَب اِس کا کھوج لگانا اور اِس سوال کا درست جواب حاصل کرنا تو
الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ یہ قومی ادارہ اپنے فرائض اور اختیارات کا پوری
قوت سے استعمال کرتے ہوئے۔ تمام حقائق سے انتخابات میں حصے لینے والے
اُمیدواروں کے حلقے کے ووٹروں اور قوم کو آگاہ کرکے مطمئن کریں ۔ تاکہ حلقے
کے ووٹروں اور قوم کو یہ معلوم ہوسکے کہ آج جہاں اُمیدواروں کے پاس کروڑوں
اور اربوں اثاثہ جات ہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ وہیں اِن میں سے اکثر و
بیشتراپنی ذاتی گاڑیوں سے محروم ہیں ؛ اوریہ مقروض بھی ہیں۔ پھر بھی یہ
بھلا چکاچوند اور بڑی و لگژری گاڑیوں میں کیسے سفر کرتے ہیں ؟
آج اِس ساری رام کہانی کو سُننے اور پڑھنے کے بعدووٹرز کی بھی ذمہ داری ہے
کہ یہ بھی اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کرنے سے پہلے اپنے مقام اور اپنی
حرمت کا بھی خیال رکھیں ۔ اور اپنے حلقے کے اُمیدوار سے پوچھیں کہ اِس نے
اپنی کروڑوں اور اربوں کی جائدادیں کیسے بنا ئی ہیں ؟ کو ئی کتنا بڑا سردار
یا جاگیردار اور خان اور چوہدری کیوں نہ ہو؟اَب ووٹرز کوستر سالوں سے بند
اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گیں۔ اپنے شعورکا کھل کر اظہار کرنا ہوگا؛ اِس لئے
کہ سیاسی بہروپیوں نے ستر سال میں قوم کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد اور
اقتدار کے حصول کے خاطر خوب بے وقوف بنا لیاہے ۔ اِس لئے اَب مُلک اور قوم
کے بہتر مستقبل کے لئے ووٹر ز پریہ اولین ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی
دہلیز پر اقتدار کے خاطر بھیس بدل کر ووٹ کی بھیک ما نگنے آنے والوں سے اِن
کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اِن کی بے لگام بڑھتی دولت اوراِن کے امر بیل کی
طرح بڑھتے معیارزندگی سے متعلق ضرور پوچھیں کہ اِنہوں نے اپنی جائیدادیں کن
(حرام و حلال اور جا ئز و ناجائز) راستوں پر چلتے ہوئے بنا ئی ہیں؟ اگر
جائز اور حلال ذرائع سے بنا ئی ہیں۔ توووٹرز اپنا قومی فریضہ سمجھ کر
اِنہیں ووٹ دیں۔ ورنہ تو اِن کی کمر پر کِک مار کر گڑھے میں پھینک دیں۔جو
قومی لیٹروں اور قومی مجروموں کا اصل مقام ہے ۔آج جنہیں قومی ادارے تو اِس
تک پہنچا نے کے لئے مصلحتوں اور مفاہمتی پالیسیوں سے کام لے رہے ہیں ۔ جن
کی وجہ سے قومی لیٹروں اور قومی مجرموں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ مگر اُمید
ہے کہ اگلے متوقع الیکشن میں ووٹرز’’ وووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا نے والے
کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا کڑااحتساب کرکے حق کا بول بالا اور باطل
(کرپٹ عناصر) کا ضرور منہ کالا کردیں گے۔
تاہم آج یہ بہت ضروری ہوگیاہے ، کہ ادارے قومی لیٹروں کا کڑا احتساب کریں
،اِس کے بغیر اگلے عام انتخابات بے معنی ہوں گے، اگرموجودہ صُورتِ حال میں
اور اِن قومی لٹیروں اور مجرموں کی موجودگی میں انتخابات ہوبھی گئے اور
جیسے تیسے کو ئی حکومت تشکیل پا بھی گئی تو اِس کی زیادہ سے زیادہ کل مدت
دو سال یا پھر اڑھا ئی سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اور اگرآج قومی احتساب اور
اِنصاف فراہم کرنے والے اداروں کا کام قومی چوروں اور لیٹروں کا حقیقی
معنوں میں کڑااحتساب کرنا ہی مقصود ہے۔ تو بہتر ہے کہ مُلک میں 25جولا ئی
2018ء کو ہونے والے متوقع عام انتخابات کم از کم دس سال تک موخر کئے جائیں
یا ابھی نہ کرا ئیں جا ئیں۔ اِس طرح یقینی طور پر جب تک کہ مُلک پرانے
حکمرانو، سیاستدانوں اور قومی اداروں میں تعینات اِن کے چیلے چانٹوں، کرپٹ
افسر شاہی اور کرپٹ عناصر سے بھی پوری طرح سے پاک ہوجا ئے گا پھر مُلک کو
پوری طرح کرپشن سے پاک اور ایماندار قیادت بھی مل جا ئے گی۔ تب نہ کو ئی
اپنے ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لئے جمہور کو گروی رکھے گا ؛ اور نہ کو ئی
آئندہ جمہوریت برا ئے خریدو فروخت کا اشتہار اٹھا کر اقتدار حاصل کرکے مُلک
اور قوم کی بقا ء و سلامتی اور استحکام کو داؤ پر لگا ئے گا۔ (ختم شُد) |