وزیراعظم کے جملے ردیف قافیہ کے سبب نعرہ بن جاتے ہیں ۔انہوں
نے کہا تھا ہم ’برین ڈرین ‘ کو ’برین گین‘ میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔ سائنس
اور ٹکنالوجی کے وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے دعویٰ کیا تھا کہ کم ازکم ۱۰۰۰
ہزار سائنسداں ہندوستان لوٹ چکے ہیں۔ وہ بیچارے آئے یا نہیں اور آکر کہاں
مر کھپ گئے ؟ یہ تو کوئی نہیں جانتا؟ اس لیے کہ سائنس کے متعلق سارے حیرت
انگیز انکشافات تریپورہ کے وزیراعلیٰ اور اترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ کرتے
نظر آتے ہیں۔ اب تو وزیراعظم کے گروجی بھیڈے نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ
ان کے باغ میں لگے آم کھانے سے عورتیں حاملہ ہوجاتی ہیں ۔ ایسے میں کسی
سائنسداں کو ہندوستانواپس آ کر تحقیق و تفتیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
سائنس کی دنیا سے قطع نظر معیشت کے جہان میں تو ’برین ڈرین ‘ کی جھڑی لگی
ہوئی ہے اس لیے کہ ’برین لیس‘ حکومت کے ساتھ کام کرنا واقعی مغز ماری کا
کام ہے۔
۲۰۱۶ میں ہندوستان نے اپنے وقت کےایک ذہین ترین ماہر معاشیات رگھو رام
راجن کو گنوادیا۔ وہ بیچارہ ہاتھ جوڑ کرامریکہ بھاگ گیا۔ رگھو رام راجن کے
بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انہیں منموہن سنگھ لائے تھے اس لیے نریندرمودی
کے ساتھ کیسے چل سکتے تھے لیکن اروند پنگڑیا کا کیا کریں جنہیں خود مودی جی
نے امریکہ سے درآمد کیا تھا ۔ مودی سرکار کے عظیم کارناموں سے ایک یہ ہے
اس نے پلاننگ کمیشن نامی ادارے کو تحلیل کرکے اس کی جگہ نیتی آیوگ قائم
کیا۔ اس کی سربراہی کے لیے اروند پنگڑیا کو امریکہ سے بلا کر وائس چیرمین
بنایا گیا ۔ ۲۰۱۷ میں اروند جی بھی استعفیٰ دے کر نکل بھاگے ۔ انہوں نے
اپنے جانے کے لیے ذاتی وجوہات بتلائیں اور تعلیم و تدریس کے پیشے سے رجوع
کرلیا۔ اب بچ گئے تھے اروند سبرامنیم جنھیں رگھورام راجن کے بعد چیف
ایڈوائزر بنایا گیا تھا۔ ان کی مدت کار پچھلے سال ختم ہوئی تو وزیر خزانہ
جیٹلی نے اصرار کرکے ایک سال کی توسیع کردی لیکن وہ اس کو مکمل کرنے سے قبل
ہی فرار ہوگئے۔ پھر وہی ڈاتی وجوہات اور تعلیم و تدریس کا بہانہ۔
سوال یہ ہے کہ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ جن ماہرین کو ہندوستان بلایا جاتا
ہے وہ اس حکومت کے ساتھ کیوں ٹک نہیں پاتے ؟ اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں
۔ اول تو یہ کہ نوٹ بندی جیسا احمقانہ فیصلہ بغیر کسی سے مشورہ لیے کردیا
جاتا ہے۔ عوام کے بیاےدی مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں نعروں سے بہلانے
کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان ماہرین کی رائے ارباب حل و عقد کی سمجھ میں نہیں
آتی اور سرکار کے فیصلے ان لوگوں کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں۔انہیں کام کرنے
کی معقول آزادی نہیں دی جاتی ۔ ان پر سودیشی منچ اور بھارتیہ مزدور سنگھ
جیسیسنگھ نواز تنظیموں کی جانب سے برابر دباو بنایا جاتا ہے اور ہر ایک کے
چلے جانے پر خوشی کا اظہار کیا جاتاہے۔ اب تو انہوں نے اعلان کردیا کہ ہمیں
کسی درآمد شدہ ماہر کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ناگپور کے
ماہرین سارے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ آخری وجہ ان لوگوں کا معاشی مستقبل ہے ۔
یہ سارے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر نہیں بلکہ چھٹی لے کر آئے تھے۔ ان
لوگوں کو جب یقین ہوگیا کہ یہ جہاز جلد یا بہ دیر ڈوب جائے گا اور پھر وہ
بھی بیروزگاروں کی طویل قطار میں کھڑے کردیئے جائیں اس لیے اپنی نوکری
بچانے کے لیے وہ دیش چھوڑ گئے۔
جہاز کے ڈوبنے کا علم چوہوں کو سب سے پہلے ہوتا ہے اس لیے کہ وہ تہہ میں
پانی کے رسنے کو سب سے پہلے محسوس کرلیتے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ ان لوگوں کے
ساتھ ہوتا ہے۔ ویسے ماہرین سیاسیات نے بھی مودی جی کی لٹیا ڈوبنے کی
پیشنگوئی شروع کردی ہے اس معاملے میں راگھو بہل پیش پیش ہیں ۔ وہ چونکہ وہ
سیاستداں نہیں ہے اس لیے محض جذباتی قیاس آرائیوں کے بجائے ٹھوس جائزے کی
بنیاد پر گفتگو کرتے ہیں ۔ حال میں انہوں نے اپنے ادارے سی ڈی ایس کی جانب
سے اے بی پی چینل کے لیے عوام کے سیاسی رحجان کا ایک جائزہ لیا اور ضمنی
انتخابات کے اعداو شمار کے ساتھ اس کا موازنہ کیا تو حیرت انگیز مماثلت
سامنے آئی ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ دونوں سیاسی عمل ایک ہی وقت
میں کیے گئے تھے۔
سی ڈی ایس سروے میں تقریباً ۱۶ ہزار لوگوں سے رائے طلب کی گئی تھی مگر ان
کا انتخاب اس طرح کیا گیا تھا کہ اس میں مختلف علاقوں اور طبقات کی
نمائندگی ہوجائے۔ اس سال ملک کے طول و عرض منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات
میں ایک کروڈ سے زیادہ رائے دہندگان نے حصہ لیا ۔ ان دونوں میں یہ بات کھل
کر سامنے آئی کہ این ڈی اے کی مقبولیت فی الحال وہیں پہنچ گئی جہاں یوپی
اے کی حکومت اپنے خاتمہ سے ۹ ماہ قبل تھی۔ اب اگر گراوٹ کا سلسلہ جاری رہتا
ہے تو مودی جی کا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو منموہن سنگھ کا ہواتھا۔ اس
جائزے کے مطابق اقلیتوں کے علاوہ ہندو اکثریت بھی مودی سرکار کو دوبارہ
موقع دینے کے معاملے میں منقسم ہے۔ یہ واقعی بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی
ہے۔
بی جے پی کی مقبولیت میں پچھلے ایک سال کے اندر ۷ فیصد کی کمی واقع ہوئی
ہےیعنی جلد ہی بی جے پی کے ووٹ کا تناسب ۳۰ فیصد سے کم ہوجائے گا۔ اس کے
برعکس کانگریس مکت بھارت کے تمام نعروں کے باوجود ۲۵ فیصد رائے دہندگان اس
کے ساتھ ہیں ۔ اس میں اگریوپی اے کے پرانے اتحادیوں کو جوڑ دیا جائے ہیں تو
یہ تعداد ۳۱ فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس مرحلے میں کانگریس کا سماجوادی اور
بہوجن سماج کے ساتھ اتحاد اہم ہوجاتا ہے اس لیے جنتادل (ایس)تو کانگریس کے
ساتھ آچکی ہے ۔ ان تینوں جماعتوں کے پاس جملہ ۱۱فیصد ووٹ ہیں۔ آئندہ
انتخاب سے قبل یہ اتحاد زبردست اہمیت کا حامل ہےاور نتائج پر بری طرح اثر
انداز ہوسکتا ہے۔ ایسے میں اگر ٹی ڈی پی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نتیش کمار
پالا بدل دے تو بی جے پی کی مشکلات میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔
گجرات انتخاب کے بعد ایک اکالی دانشور نے اعتراف کیا تھا کہ اب یہ خوش فہمی
دور ہوگئی ہے کہ مودی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔سی ڈی ایس جائزہ اس خیال
تصدیق کرتا ہے۔ اس کے مطابق مودی اور راہل کے درمیان مقبولیت کا فرق ۱۷
فیصد سے گھٹ کر ۱۰ فیصد رہ گیاہے لیکن راہل کو نا پسند کرنے والوں کی تعداد
کم ہے ۔ وزیراعظم سے عوام کی ناراضگی کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہیں مثلاً۶۰
فیصد سے زیادہ لوگ مودی حکومت کو بدعنوان مانتے ہیں۔ نیرو مودی کے گھوٹالے
کے بارے میں جاننے والوں کے اندر سے دو تہائی لوگ اس پر کی گئی کارروائی سے
مطمئن نہیں ہیں۔نوٹ بندی کی بہ نسبت جی ایس ٹی اپنا دیرپا اثر دکھا رہی ہے
اور اس کی وجہ سے حکومت کے خلاف ناراضگی میں گزشتہ پانچ ماہ کے اندر ۱۶
فیصد کا اضافہ ہوا ہے یعنی اب یہ ۴۰ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔جی ایس ٹی کے تعلق
سے نارضگی چونکہ شہری علاقوں میں زیادہ ہے اس لیے بی جے پی کے لیے سمِ قاتل
ثابت ہوسکتی ۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کی تائید کے سبب اس سروے کویکسر
مسترد نہیں کیا جاسکتا اوپر سے ماہرین معاشیت کا پیچھا چھڑانا بھی اشارہ
کرتا ہے کہ کم ازکم ایک سال تک تو اچھے دن آنے سے رہے مگر آئندہ سال مودی
جی کا وعدہ پورا ہوگا اور ان کے تو نہیں مگر عوام کے اچھے دن ضرور آجائیں
گے۔ |