انسان کے لیے سب سے قیمتی اُس کی عزت ہے۔ پیسے سے بڑھ کر
عزت، عزت سے بڑھ کر جان سے زیادہ کوئی اور اہمیت نہیں رکھتی۔ گزشتہ کئی
دنوں سے مشاہدے میں آ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار مسلسل
انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ سماجی و سیاسی عدم برداشت کا مسلسل بڑھنا، ہمارے
معاشرے کے لیے زہر قاتل بنتا جارہا ہے۔ اگر عام زندگی میں ہم معاشرے کے اُن
افراد کی زندگی کا احاطہ کریں، جن سے ہمیں والہانہ عقیدت و خصوصی لگائو ہے
تو افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر متعدد رہنما
ٹاک شوز اور پریس بریفنگ میں لفظوں کے غلط چنائو کے سبب نچلی سطح پر منفی
اثرات منتقل کررہے ہیں۔
کئی برس قبل میئر کراچی وسیم اختر نے زندہ دلان کے شہر میں ہی کھڑے ہوکر
اہل لاہور کے لیے جن لفظوں کا استعمال کیا تھا، وہ انہیں آج بھی یاد کرکے
دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ گو وسیم اخترنے معافی مانگ لی تھی، لیکن اُن الفاظ
کی تلخی قائم رہی۔ کراچی کی دیواروں پر عمران خان کے خلاف جو نازیبا وال
چاکنگ کی گئی تھی، کئی برس گزر جانے کے باوجود آج بھی شہر کے مخصوص علاقوں
کی دیواریں اخلاقی انحطاط کی عکاسی کررہی ہیں۔ اسی طرح ایک ٹاک شو میں بابر
غوری کی جانب سے جس طرح سیتاوائٹ کی بیٹی کے حوالے سے عمران خان کی ذاتی
زندگی کو نشانہ بنایا گیا، وہ بھی انتہائی نامناسب طرز عمل تھا۔ اس قسم کے
پروگرام کو براہ راست نشرکرنا بھی پست صحافت و سیاست کی بدترین مثال تھی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے مخالفین کی شدید تنقید
کا شکار رہے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کے خالصتاً خانگی معاملات کو عوامی سطح
پر مزید بھی اچھالا جاتا رہے۔ ریحام خان کی کتاب کے مبینہ مندرجات کے خاکے
کا تعفن بھی اٹھتا محسوس ہورہا ہے۔ میرا ذاتی خیال تھا کہ تحریک انصاف اپنے
چیئرمین کی تکالیف کا احساس کرکے کبھی پسماندگی کا شکار نہیں ہوگی اور ایسے
رویوں سے گریز کی راہ اختیار کرے گی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا بلکہ
بدتہذیبی کے ذریعے اخلاقی اقدار کو بُری طرح پامال کیا گیا۔
ایک ٹی وی ٹاک شو میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے
سابق عوامی نیشنل پارٹی (نسیم ولی گروپ) کی سربراہ بیگم نسیم ولی کے لیے جب
انتہائی بدتمیزی کا اظہار کیا تو (سابق) نسیم ولی گروپ کے ترجمان ملک ریاض
بنگش نے بھی عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کے حوالے سے نامناسب جواب
دیا اور پروگرام میں تلخی بڑھی۔
مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما خواتین کے حوالے سے متعدد بار نازیبا گفتگو
کرچکے ہیں۔ اسمبلی فلور پر بھی شیریں مزاری سمیت کئی خواتین اراکین کے خلاف
بداخلاقی کے کافی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ پی پی پی کے سابق صوبائی وزیر
امداد پتافی نے اپوزیشن جماعت کی خاتون رکن اسمبلی نصرت سحر کے لیے نازیبا
الفاظ استعمال کیے تھے، جس پر پی پی پی قیادت نے فوراً ایکشن لیا۔ یہ ایک
صائب اور قابل تقلید قدم تھا، جو کسی واحد سیاسی جماعت کی جانب سے اٹھایا
گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ ماضی میں بے نظیر بھٹو
مرحومہ کے لیے مخالفین نے جو لب و لہجہ استعمال کیا اور جس قسم کی قابل
مذمت حرکات کی گئیں، آج وہی عناصر اپنی بوئی فصل بھی کاٹ رہے ہیں۔ مکافات
عمل سب کے سامنے ہے۔ لیکن ایسا رویہ ماضی میں اچھا تصور کیا گیا اور نہ اب
اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی
مہم میں مخالفین نے جس طرح بانی پاکستان کی ہمشیرہ کے خلاف شرمناک اقدامات
کیے، آج وہ ملکی تاریخ کا سیاہ باب ہیں، جنہیں یاد کرکے ہمارے سر شرم سے
جھک جاتے ہیں۔
نیوز چینل پر پاکستان تحریک انصاف رہنما نعیم الحق کا مسلم لیگ(ن)کے رہنما
دانیال عزیز کے ساتھ متشددانہ طرز عمل پر تحریک انصاف کی جانب سے جو
نامناسب ردعمل آیا، اُس کا عوامی اور سنجیدہ سطح پر تاثر اچھا نہیں گیا۔
گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر انہی دونوں جماعتوں کے سینئر رہنمائوں نے ٹی وی
پر جس اخلاقی پس ماندگی کا مظاہرہ کیا، وہ حیران کن تھا۔ طلال اور فواد
چوہدری جس قسم کے جملوں کا استعمال کررہے تھے، اس کو دیکھنے بعد یقین نہیں
آتا کہ ایسے نازیبا و تہذیب سے گرے لب و لہجے کی حامل سیاسی شخصیات کے
قریب سے اخلاقیات چھو کر بھی گزری ہوگی۔
ایک طویل فہرست ہے جس میں دونوں سیاسی جماعتوں کے کئی رہنمائوں اور سوشل
میڈیا ورکرز نے اخلاقی حدود پامال کی ہیں، اُس پر دونوں جماعتوں کے قائدین
کی خاموشی معنی خیز ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کارکنان سے زیادہ سیاسی رہنمائوں
کو تربیت کی ضرورت ہے۔ عدم برداشت و الزام تراشیوں، تہمت و بہتان طرازیوں
کا یہ رویہ نچلی سطح پر تیزی سے منتقل ہورہا ہے۔ اس کے کئی مظاہرے ہم دیکھ
چکے ہیں۔
ان سطور کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے ساتھ میڈیا ہائوسز کے اینکر پرسنز کی
توجہ دلانا مقصود ہے کہ وہ ایسے رہنمائوں کو ٹاک شوز میں بٹھانے سے گریز
کریں جو سیاسی درجہ حرارت میں اضافے اور اشتعال کا سبب بنتے ہیں۔ بعض اینکر
پرسنز کے لیے شاید یہ پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کا نادر موقع ہوگا، لیکن
سنجیدہ طبقہ ایسے اینکرز سے متنفر ہوچکا ہے۔
یہاں بات الیکٹرانک میڈیا پر آکر ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ پرنٹ میڈیا سے
تعلق رکھنے والی کئی عشروں سے صحافت سے وابستہ بعض شخصیات نے بھی بیگم
کلثوم نواز کی بیماری کے حوالے سے جس قسم کا اظہار کیا، یقین نہیں آتا کہ
کوئی اخلاقی طور پر اتنا بھی گرسکتا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی بیماری پر
سیاست کا ایک ایسا سیاہ باب رقم کیا جا رہا ہے جو کبھی بھی مناسب عمل قرار
نہیں دیا جائے گا۔ مریم نواز پر جس قسم کی پھبتیاں کسی جاتی رہتی ہیں، سمجھ
سے بالاتر ہے کہ ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں۔ سیاست میں مخالفت اپنی جگہ
لیکن بعض دانشوروں کی جانب سے نازیبا مکالمے کے اثرات کے مضمرات سے سب
یکساں متاثر ہوں گے۔ بیگم کلثوم نواز کی جلد صحت یابی کے لیے ہم سب دعاگو
ہیں۔
میں یہ کالم انتہائی دل گرفتہ ہوکر لکھ رہا ہوں، کیونکہ میں ذاتی طور پر
ایسی روایات و ثقافت پر یقین رکھتا ہوں، جہاں پیسے سے بڑھ کرعزت کو اہمیت
دی جاتی ہے۔ سیاست و صحافت میں شائستگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ عدم برداشت اور
متشدد رویوں نے ہمیں دور جاہلیت کی تاریکیوں میں پھینک دیا ہے۔ ہم واہیات
اور بیمار ذہنیت کے ساتھ ایک گھٹے ہوئے ماحول میں جی رہے ہیں۔ ہم اسے جنگل
کی زندگی سے بھی تعبیر نہیں کرسکتے، کیونکہ جانور فطری طور پر قانون قدرت
پر گامزن ہیں۔ قانون فطرت میں جنگلی حیات و حشرات کی سرشت طے کردی گئی ہے،
لیکن اشرف المخلوقات کہلانے والے اپنا مقام کھورہے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لفظی متشدد ماحول نے انتشار و خلفشار میں الگ
اضافہ کیا ہوا ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کے بعض رہنمائوں کے رویوں نے سماجی
فرسٹریشن کا راستہ ہموار کردیا ہے، جس کے منفی نتائج سے معاشرے کا ہر خاص و
عام براہ راست متاثر ہورہا ہے۔
اس وقت مملکت میں پارلیمانی انتخابات کے دنگل کا دوسرا رائونڈ شروع ہوچکا
ہے۔ سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ اب کارکنان کے درمیان جھنڈوں اور بینرز
لگانے کی ایک نئی جنگ کا آغاز بھی ہونے جا رہا ہے۔ ان حالات میں اگر سیاسی
رہنمائوں نے ٹاک شوز میں اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا اور کسی بھی سیاسی یا
سماجی شخصیت کے خلاف متشدد رویے کو فروغ دیا تو یہ سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا
ہے کہ اس کے نتائج ملک و قوم کے لیے بھیانک شکل میں سامنے آئیں گے۔
سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں ستونوں کو میانہ روی اور
توازن کی ضرورت ہے، کیونکہ مثبت یا منفی عمل سے ہم کسی معاشرے کی تشکیل
کرتے ہیں۔ اختلاف رائے ہر کسی کا حق ہے، لیکن اس کی حدود و قیود کا تعین ہم
سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حسد لاعلاج بیماری ہے۔ اسی طرح
بدگوئی بھی کینسر کی طرح ہے، جس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو کوئی دعا و
دوا اثر نہیں کرتی۔ تاہم کوئی مرض لاعلاج نہیں۔ اللہ تعالی نے تمام امراض
کا علاج بھی پیدا فرمایا ہے۔ سیاستدان اور میڈیا پرسنز کو اپنے رویوں میں
تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ |