بڑی بڑی لگژری گاڑیوں کے جلوس میں لغاری چیف کا قافلہ
انتخابی مہم کے سلسلہ میں بڑی ہی شان وشوکت سے نکلا، ووٹ درکار تھے، تعزیت
کو جواز بنایا گیا، منزل پر پہنچے تو کچھ نوجوانوں نے گھیر لیا۔ یہ کیسی
تعزیت ہے جو پانچ برس بعد ہورہی ہے؟ اتنے عرصے میں علاقے کا کوئی ترقیاتی
کام بھی یاد نہیں آیا، عوام کو شکل دکھانے کا وقت بھی نہیں نکلا، عوام کی
یاد صرف ووٹ کے وقت ہی آتی ہے؟ نوجوان بولتے گئے اور لغاری سردار انہیں
بیٹھ کر بات سننے کا مشورہ دیتا رہا، ایک نوجوان کی انگریزی میں گفتگو سن
کر سردار حیران رہ گیا۔ کسی نے سردار کے مشورے پر کان نہ دھرا، وہ مایوس
واپس لوٹ گیا۔ ڈیرہ غازی خان کو پنجاب کا پسماندہ ترین ڈویژن ہونے کا اعزاز
بھی حاصل ہے اور لغاری سردار عشروں سے عوام کے کندھوں پر پاؤں رکھ کر
اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ رہے ہیں، چیف موصوف کے والد کو پاکستان کا صدر
رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مندرجہ بالا خبر کی ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے
اخبار کی زینت بنی۔ اگلے ہی روز اخبار میں ایسی ہی ایک اور خبر بھی سوشل
میڈیا نے پہنچا دی۔ سندھ کے شمالی علاقہ کندھ کوٹ میں بھی ایک بااثر مزاری
سردار جب انتخابی مہم پر نکلا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، نوجوانوں نے
اسے پانچ برس بعد آنے کے طعنے دیئے، یہ بھی کہا کہ ہماری چار نسلیں آپ
لوگوں کے ظلم کی وجہ سے جاہل رہ گئیں، اب یہ سب نہ ہوگا۔ یہ بھی کہ علاقے
کے لئے اسمبلی میں آپ کچھ نہیں بولے، ہمیں تعلیم چاہیے، یونیورسٹی چاہیے،
مگر آپ نے کچھ نہیں دیا۔ نوجوانوں نے سردار کو بات کرنے کا موقع نہ دیا، جس
پر اسے مایوس واپس لوٹنا پڑا۔
سندھ ہو یا جنوبی پنجاب یا پھر بلوچستان، سرداری نظام اور وڈیرہ شاہی نے
ماحول کو اپنے آہنی شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ نسلوں کی نسلیں سرداروں کی
غلام چلی آرہی ہیں، سردار خود غیر ملکی جامعات سے یا پھر پاکستان کے بہترین
اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، مگر اپنے علاقے کے لئے وہ نہ تو تعلیمی
میدان میں کوئی قدم اٹھاتے ہیں اور نہ ہی ترقیاتی کام ہونے دیتے ہیں، وجہ
اس کی یہی ہے کہ اگر تعلیم آگئی تو ان کی غلامی کون کرے گا؟ غربت اور جہالت
کے مارے یہ لوگ اور ان کے بچے سرداروں اور وڈیروں کے کھیتوں میں کام کرتے،
ان کے مویشی پالتے، ان کے ڈیروں پر مہمانوں کی خاطر مدارت کرتے، ان کی
گاڑیوں کی صفائی کرتے اور ہمہ وقت ان کی خدمت میں دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔
غلامی کی یہ کہانیاں ظاہری معاملات پر ختم نہیں ہوتیں، جبر اور ظلم کے قصے
چادر اور چار دیواری کو پامال کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں، ایسی داستانیں بھی
ہیں جن میں انسانیت سوز واقعات پوشیدہ ہوتے ہیں، حکم عدولی کی ایسی عبرتناک
سزا دی جاتی ہے جس سے آنے والی نسلوں پر خوف کے سائے بہت گہرے ہو جاتے ہیں۔
کچے جھونپڑی نما مکانوں اور کچی سڑکوں پر مشتمل ان آبادیوں میں جاگیر داروں
کے گھر عالیشان ہوتے ہیں، ان کی بڑی گاڑیاں جب دھول اڑاتی گزرتی ہیں تو ان
کے ذہن میں پائی جانے والی فرعونیت مزید نمایاں ہو جاتی ہے، ان کی برتری
مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے اور غلاموں پر ان کی دھاک اور پختہ ہو جاتی
ہے۔
آگاہی یا بیداری کی اس لہر کو دبانا یا قابو میں لانا اب ممکن نہیں رہا، جب
سے دنیا سُکڑ کر ایک موبائل سیٹ میں سمائی ہے، کوئی چیز کسی سے پوشیدہ نہیں
رہی، اب پِسے ہوئے عوام اپنے حقوق سے آشنا ہو رہے ہیں، اب ظلم کی زنجیریں
پگھل رہی ہیں، اب جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ صدیوں سے
چلی آرہی ان غلامانہ رسوم کو توڑنے میں اگرچہ بہت وقت درکار ہوگا، مگر
صدیاں بہرحال نہیں لگیں گی، یہ کام سالوں میں ہو سکتا ہے۔ اس کام میں ایک
رکاوٹ خود غلامانہ ذہنیت بھی بنے گی، کہ جو لوگ غلامی کے اس قدر رسیا ہو
چکے ہیں، پرندے پنجروں کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ انہیں رہائی بھی منظور
نہیں ہوتی۔ اس ضمن میں دوسری بہت ہی اہم بات یہ بھی ہے کہ ایک جاگیر دار کے
سامنے کھڑے ہونے کے بعد یہ نوجوان یا اِن کے بیدار کردہ عوام کس کو ووٹ دیں
گے، کہ مدمقابل بھی ایک جاگیر دار ہی ہے۔ اس لئے اس نظام کی جڑوں کو
کھوکھلا کرنے، ان قلعوں کی مضبوط دیواروں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے صرف
جذباتی یا ہنگامی منصوبہ بندی سے کام نہیں چلے گا، اس کے لئے ایک مربوط ،
مضبوط اور منظم مہم کی ضرورت ہے، سیاست میں ایسی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی
(یا پھر اُن کے ساتھ مل جانے کی) ضرورت ہے، جو جاگیرداری نظام کے خلاف ہوں،
تب جا کر حقیقی آزادی نصیب ہو سکتی ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں میں بھی آمریت ہے، پارٹی کے
سربراہ عام طور پر پارٹی کے مالک ہیں، یا یوں جانئے کہ پارٹی اُن کے نام کی
رجسٹرڈ کمپنی ہے، جسے وہ اپنی مرضی،اپنے اختیارات اور ضروریات کے مطابق
چلاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایک خاندان سے باہر نہیں نکل سکتی، اگر نکلی ہے تو
نہایت چالاکی سے اسے یرغمال بنا کر اپنے گھر کی لونڈی بنا لیا گیا ہے۔
چونکہ یہ پارٹی زیادہ تر اب سندھ میں ہی پائی جاتی ہے اور وہاں جاگیر داری
نظام اپنے جوبن پر ہے، اس لئے پارٹی کی قیادت کو کسی سے باغیانہ رویے کا
خدشہ نہیں ہے، یا بہت کم ہے۔ مسلم لیگ ن کا زور زیادہ تر پنجاب میں ہے،
یہاں جاگیردارانہ نظام کے اثرات بہت کم ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی سے بغاوت
کے آثار شروع ہو چکے ہیں۔ میاں برادران کا یہ مستقل رویہ ہے کہ وہ اپنے
مزاج کے خلاف کبھی بات پسندنہیں کرتے، تنقید وغیرہ برداشت کرنے کا رجحان
بھی پارٹی میں نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے اب لاوہ پھٹنے پر آگیا ہے، جن
لوگوں کے بارے میں عوام کا وہم و گمان بھی نہیں تھا، وہ بھی پارٹی کو نہ
صرف چھوڑ رہے ہیں، بلکہ للکار بھی رہے ہیں اور زعیم قادری کی طرح جنگ اور
سیاست میں مقابلے کا طبل بھی بجارہے ہیں۔ عمران خان کی پارٹی کی مقناطیسیت
حیران کن کام دکھا رہی ہے، مگر آمریت اور بغاوت دونوں کی جھلکیاں واضح
دیکھی جا سکتی ہیں۔ پارٹی چھوڑنے والوں کی دو اقسام ہیں، ایک لوٹے بن کر
مفاد کے لئے دوسری جماعت میں شرکت، جوکہ آج کل پاکستان میں بہت ہی عام ہے،
دوسرااپنے آمریت پسند قائدین کے تضحیک آمیز رویوں کی وجہ سے ’تنگ آمد، بجنگ
آمد‘ کی نوبت آجانا۔ سیاسی عوامی بیداری کے یہ سلسلے بہت خوش آئند ہیں،
جہاں یہ جاگیر داروں اور آمروں کے لئے پریشانی اور خوف کا موجب ہیں، وہاں
یہ ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آگاہی
اور بیداری کی لہر کے نتیجے میں احتجاجوں اور بغاوتوں سے آمریت کے یہ بُت
ٹوٹ کر گریں گے، کام کرنے والے ، قوم کا درد رکھنے والے عوام کے اندر سے
حقیقی نمائندے سامنے آئیں گے تو بات بنے گی، ورنہ بے حس، ظالم اور استحصالی
طبقہ عوام کا خون چوستا رہے گا۔
|