آزادی کی تحریکیں کیسے کامیاب و ناکام ہوتی ہیں؟

آزادی اور غلامی کا سلسلہ بڑا طویل ہے۔ جب کوئی قوم و معاشرہ آزادی کے لیے قائم اصول و اوصاف چھوڑ دیتے ہیں تو غلامی کی زلت انکا مقدر بن جاتی ہے پھر غلامی سے چھٹکارہ پانے کے لیے صرف قربانیوں کی داستانیں رقم کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے واضح نظریات و حکمت عملی۔ اتحاد و اتفاق۔ با اعتماد و باصلاحیت قیادت جمہوری و تربیتی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔سیاسی زبان میں عام طور پر ایک قوم کی غلامی کا ذمہ دار جارحیت پسندو توسیع پسند قوتوں کو ٹھہر ایا جاتا ہے لیکن مائر نفسیات و سماجیات جنکا کام فرد اور معاشرے کو سمجھنا و سمجھانا ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اپنی کو تائیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے والے کبھی بھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کیونکہ بائر کی بیماری اسی وقت اندر آتی ہے جب اندر کے حالات ٹھیک نہ ہوں جنکا اندر پاک صاف و پاکیزہ ہو انکا صحن بھی صاف ستھرا ہوتا ہے اور جنکے گھروں کے دروازے مضبوط ہوں انکے اندر چور بھی آسانی سے داخل نہیں ہوتے۔ المختصر کہ خرابیوں کے اسباب خارجی کم اور باطنی و اندرونی زیادہ ہوتے ہیں۔ قانون فطرت کو بھی یہ بات قبول نہیں کہ ایک باغی نافرمان اور نااہل قوم زیادہ دیر تک زندہ رہ سکے۔ قرآن کا اس سلسلے میں واضع پیغام ہے اس وقت جموں کشمیر اور فلسطین ایسی دو بڑی آزادی کی تحریکیں ہیں جو لازوال قربانیوں کے باوجود ابھی تک اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔آئیے گزشتہ چند دہائیوں کی بڑی تحریکوں کاموازنہ و جائز لے کر دیکھیں کہ ان سے کشمیری و فلسطینی کیا سیکھ سکتے ہیں۔

الجزائر کی تحریک آزادی کو ان قوتوں نے بھی بیسویں صدی کی ماڈل تحریک قرار دیا تھاجنہوں نے ہر دور میں اپنے حق آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والوں کو ددہشت گرد کہا۔ الجزائر پر یورپ کی ایک بڑی سیاسی و عسکری قوت فرانس کا قبضہ تھا جس نے یورپ اور امریکہ کو یہ باور کرانے کی بھر پور کوشش کی کہ فرانس صرف اپنی نہیں بلکہ پورے مغرب جسے امریکہ نے سوویت یونین کے مقابلے میں آزاد دنیا قرار دیتا تھا کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ فرانس نے یہ بھی واویلا کیا کہ اگر مسلم ریاستیں ایک ایک کر کے آزاد ہو گئیں تو اسلام دوبارہ غلبہ حاصل کر کے مغرب کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ الجزائر کے اندر سے حمایت حاصل کرنے کے لیے فرانس نے عورت کی آزادی اور جمہوریت کا کارڈ بھی استعمال کرنے کی کوشش کی مگر2012 میں 96 سال کی عمر میں وفات پانے والے عظیم حریت پسند لیڈر بن بیلا کی قیادت میں نیشنل لبریشن فرنٹ کی عسکری اور سفارتی جنگ کے خلاف تمام حربے ناکام ہو گے۔ حالیہ صدیوں میں عربوں کی سفارتکاری کو ناکام تصور کیا گیا مگر الجزائر کی نیشنل لبریشن فرنٹ کی سفارتکاری اتنی کامیاب اور موثر تھی کہ اسے عالمی سطع پر بیسیوں صدی کا سفارتی انقلاب قرار دیا گیا ۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ اسکا اندازہ بن بیلا کی قیادت میں قائم این ایل ایف کی باصلاحیت ٹیم اور اس کے اداروں سے لگایا جا سکتا ہے بن بیلا کو مصر کے صدر ناصر کی بھر پور غیر مشروط حمایت حاصل تھی جنہیں بن بیلا نے کہا کہ الجزائر کا ہر فرد مرد و عورت فطری طور پر گوریلا ہے۔ بن بیلا کی قیادت میں این ایل ایف نے صرف چھ سالوں میں 1962 میں فرانس سے آزادی حاصل کر لی جسکی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ بن بیلا صرف سیاسی تقریریں نہیں کرتے تھے بلکہ وہ عسکری محاز پر بھی فرنٹ پر تھے عسکری ونگ نے فرانس کی تمام تنصیبات پر حملے کیے اور اسے زبردست فوجی و اقتصادی نقصان پہنچایا عسکریت سیاسی ونگ کے تابع نہ تھی بلکہ عسکری و سیاسی محاز کی قیادت مشترکہ طور پر انہی کے ہاتھ میں تھی جو عملی طور پر میدان میں تھے اور نہ ہی انہوں نے کسی کو اپنا وکیل بنا کر تحریک کی باگ ڈور دوسروں کے ہاتھوں میں تھمائی ہوئی تھی جو انکی پالیسیاں بناتے اور انکی وکالت کرتے بلکہ انہوں نے اپنے تعلیم یافتہ مردوں اور عورتوں کی ٹیم کو دنیا بھر میں پھیلا دیا جنہوں نے دنیا بھر کے پریس کی خدمات حاصل کر کے بیرونی دنیا کو ہمنوا بنایا ۔ سفارتی محاز پر باصلاحیت ٹیم نے ثابت کیا کہ الجزائر میں جنگ و جدل کی وجہ مقامی لوگ نہیں بلکہ انکے وسائل پر قابض فرانس ہے جس نے مقامی لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور الجزائر کی عوام اسی آزادی کے لیے جد و جہد کر رہی ہے جسے اہل فرانس اور دنیا کا ہر فرد اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ یاد رہے کہ بن بیلا کا تعلق مراکش سے تھاجو الجزائر کی آزادی کی تحریک کے آغاز کے وقت ایک آزاد ملک تھا مگر عرب اور اسلام پسند ہونے کے باوجود ایک حکمت عملی کے تحت بن بیلا کے این ایل ایف نے کسی دوسری عرب ریاست سے قبل از وقت الحاق کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ فرانس کے ناجائز قبضے کے خاتمے کے لیے جد و جہد کی جس میں صرف چھ سالوں میں کامیابی حاصل ہو گئی۔

بیسویں صدی کی آزادی کی دوسری بڑی تحریک عمر مختار کی قیادت میں اٹلی کے خلاف لیبیا کی تحریک تھی۔ عمر مختار کی دلیرانہ اور کامیاب کاروائیوں کے نتیجے میں انہیں لائن آف ڈیزرٹ کا خطاب ملا۔ لیبیا کے صحراؤں میں عمر مختار نے اٹلی کی فوج کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا لیکن شہروں میں عددی اور فوجی قوت کی کمی کے باعث مشکلات تھیں۔ تقریبا ہر عرب ملک میں عمر مختار کے نام پرسڑکیں یا ادارے قائم ہیں ۔ 2009 میں جب لیبیا کے سربراہ کرنل قذافی نے اٹلی کا دورہ کیا تو انہوں نے اپنی چھاتی پر عمر مختار کی تصویر سجا رکھی تھی اور عمر مختار کے فرزند بھی انکے ہمرا تھے۔ عمر مختار ایک غریب باپ کے بیٹے تھے جو ابتدا میں ایک معلم تھے لیکن انکے اندر سامراجیت کے خلاف ایک بہت بڑا حریت پسند بستا تھا جس نے سب سے پہلے انہیں اپنے پڑوسی ملک چاڈ کی تحریک آزادی میں حصہ لینے پر مائل کیا پھر جب حالات سازگار ہوئے تو اپنے آبائی وطن لیبیا میں اپنے نوجوانوں کو اٹلی کے خلاف متحد کیا۔ عمر مختار نے بھی دنیا بھر میں اخلاقی برتری حاصل کی اور اٹلی کی فوج کی سپلائی لائن بند کر دی۔ عمر مختار کی مدد بھی مصر کرتا تھا ۔ اٹلی کی فوج نے مصر سے آنے والی سپلائی لائن بند کر کے عمر مختار کی تحریک کو کمزور کیا جس میں مصر اور لیبیا کی سرحد پر کچھ غداروں کو اٹلی نے خرید ا جس سے عمر مختار کو اتنا نقصان ہوا کہ وہ شہر سے دوبارہ صحرا میں محدود ہو گے جہاں سپلائی لائن کٹ جانے کی وجہ سے اٹلی کی فوج کے جرنیل روڈلفو گریزہانی کی قیادت میں زخمی ہو جانے والے عمر مختار کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار ی کے بعد جنرل روڈلفو نے عمر مختار کو ایک اچھے کمانڈر کے طور پر عزت و احترام سے رکھا لیکن اٹلی نے یہ سوچ کر عمر مختار کو 16.09.1931 کو 73 سال کی عمر میں یہ سوچ کر پھانسی دے دی کہ اس طرح لیبیا کی آزادی کی تحریک بھی ختم ہو جائے گی مگر عمر مختار کی پھانسی کی وجہ سے سے لیبیا کے اندر اوربائر انکی تحریک کو مزید اخلاقی برتری حاصل ہو گئی۔ باالآخر چوبیس دسمبر 1951کو لیبیا ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ سن اکاسی میں عمر مختار کے نام پر بننے والی فلم جب فرانس میں پہلی بار ریلیز ہوئی تو میں اس وقت پیرس میں تھا جہاں میں نے ہر رنگ نسل اور مذہب کے ادمی کو سینما ہالوں کے بائر گھنٹوں ٹکٹ کے لیے قطار میں کھڑے دیکھا۔ کئی دنوں کی جد وجہد کے نتیجے میں جب میں بھی ٹکٹ حاصل کر کے سینما ہال میں بیٹھا تو میں نے بے شمار لوگوں کو اٹلی کے ظلم اور عمر مختار کی عقیدت میں روتے دیکھا۔

کامیاب ہونے والی بیسویں صدی کی تیسری بڑی تحریک نیلسن منڈیلا کی قیادت میں افریکن نیشنل کانگرس کی تحریک تھی۔ جنوبی افریکہ میں ولندیزیوں نے نسل پرست سفید فام حکومت قائم کر کے سیاہ فام مقامی باشندوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں الگ کر دیا تھا جس کے خلاف بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تحریک شروع ہوئی مگر اس نے زیادہ زور نیلسن منڈیلا اور انکے ساتھی اولیور ٹامبو کی قیادت میں ساٹھ کی دہائی کے شروع میں پکڑا۔ عسکری کاروائیوں کے الزام میں نیلسن منڈیلا کو گرفتار کر کے غیر معینہ مدت کے لیے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ نیلسن منڈیلا کی عدم موجودگی میں انکے ساتھی اولیورٹامبو نے قیادت سنھبالی۔ منڈیلا کو سیاسی منظر سے ہٹانے ک لیے سازشی قوتوں نے اولیور ٹامبو کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ناکامی کی صورت میں نام نہاد امن پسند چند چھوٹے بڑے لیڈروں کو مغرب خاصکر برطانیہ نے پروجیکٹ کرنے کی کوشش کی مگر غیرت مند عوام نے یہ سازش بھی کامیاب نہ ہونے دی ۔ افریکن نیشنل کانگرس نے دنیا کے کئی ممالک میں اپنے سفارتی مشن بھی قائم کر لیے جہاں بہترین لوگوں کو بہترین کام کے لیے چنا گیا جنہوں نے دنیا بھر میں اپنی تحریک کی اخلاقی بر تری تسلیم کروائی۔ پڑوسی افریکی ممالک پہلے ہی دامے درمے سخنے نیلسن منڈیلا کی پشت پر تھے یہاں تک کہ ضامبیا کے صدر کا طیارہ نیلسن منڈیلا کی حمایت کے جرم میں اڑا دیا گیا اور نیلسن منڈیلا نے بری ہو کر اپنے دوست ضامبین صدر کی بیوہ کے ساتھ شادی کر لی سن اکاسی کی دہائی کے آخر میں ملیشیا میں منعقدہ باون ممالک پر مشتمل کام ویلتھ کے اجلاس میں برطانیہ کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا اکیلا ووٹ تھا جو نیلسن مندیلا کی رہائی کے خلاف تھا۔ منڈیلا نے بھی بری ہو کر پہلے لیبیا اور پھر برطانیہ سے گزر کر اس کے پڑوس میں آئرلینڈ کا دورہ کر کے مشکل دنوں میں کام آنے والوں کا شکریہ ادا کیا جس پر برطانوی وزیر اعظم نے بڑی لب کشائی کی۔ کرنل قذافی کو ویسے بھی برطانیہ پسند نہیں کرتا تھا جبکہ آئر لینڈ میں بھی برطانیہ کے خلاف آئر لینڈ کے شمالی حصے پر برطانوی قبضے کے خلاف جد و جہد کرنے والی تنظیم آئی آر اے نے متعدد بار وزیر اعظم تھیچر کو قتل کرنے کی کوششیں کیں ایک بار وہ معجزانہ طور اس وقت بچ گئیں جب وہ ہوٹل کے باتھ روم میں غسل کر رہی تھیں اور باتھ روم میں بم پھٹ گیا جو پانچویں منزل سے تھیچر سمیت نیچے سڑک پر آ گیا۔ اس سے چند سال قبل سن اناسی میں آئی آر اے نے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کو قتل کر دیا تھا۔ اکثر تنظیموں کا عسکری ونگ سیاسی ونگ کے تابع ہوتا ہے لیکن کئی سالوں سے آئی آر اے کے سیاسی ونگ کے منتخب ہونے والے چھ برطانوی اراکین پارلیمنٹ کے باوجود سیاسی ونگ آئی آر اے کی عسکری ونگ کی نگرانی میں ہے۔ آئی آراے کا کہنا ہے کہ سیاست میں انفلٹریشن آسان ہے اور مفاد پرست اور موقع پرست سیاسی لوگوں کو غاصب قوتیں آسانی سے استعمال کر لیتی ہیں اس لیے آئی آر اے کا موقف ہے کہ جب تک آئر لینڈ کی تحریک کامیاب نہیں ہوتی تب تک سیاسی ونگ کو عسکری ونگ کی سرپرستی میں رہنا پڑے گا۔ مذکورہ بالا تحریکوں کے بر عکس جموں کشمیر کی تحریک کا نظریہ ایک نہ قیادت۔ جتنے لیڈرز اتنے ہی نظریے اور اتنے ہی آقا۔ جموں کشمیر اور فلسطین میں زیادہ قربانیاں دی گئیں اور یہ دونوں تحریکیں دن بدن طوالت اور پیچیدگی اختیار کرتی جا رہی ہیں کیونکہ یہ تحریکیں فرقہ پرستی۔ علاقہ پرستی اور شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔ یاسر عرفات آخری سالوں میں بول سکتے تھے نہ خود کھا پی سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں قیادت کی منتقلی قبول نہیں کی جبکہ کشمیر ی لیڈر بھی اپنے اپنے عہدے قبر میں جانے تک اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور ایک ہنر مند با صلاحیت اور تجربہ کار ٹیم تیار کرنے کے بجائے یس مینز کی تلاش میں رہتے ہیں دوسری طرف ریاست جموں کشمیر پر قابض قوتیں خود غرض اور نمائشی لوگوں کو پروجیکٹ کر کے حسب ضرورت استعمال کر لیتی ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں نے نوے کی دہائی میں جموں کشمیر کی ابھرتی ہوئی قومی تحریک کو ایک علاقائی تنازعہ میں تبدیل کیا جسکی وجہ سے عالمی سطع پرہماری تحریک کی اخلاقی حمایت ختم ہو گئی ہے۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی اور انکے بھارتی ہم منصب اے ایس دولت نے اپنی مشترکہ کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں جموں کشمیرکو زیادہ سے زیادہ سرحدیں نرم کر کے لوگوں کو آزادانہ آر پار آنے جانے کی اجازت تودے سکتے ہیں لیکن وہ کسی بھی صورت میں جموں کشمیر کو ایک الگ ملک نہیں دیکھنا چاہتے جسکی وجہ جموں کشمیر کے قدرتی وسائل ہیں اسی لیے پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو جموں کشمیر کی قومی تحریک میں مرکزی کردار ادا نہیں کرنے دے رہایہاں تک کہ پاکستان آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے کسی بھی حریت پسند کا مرکزی کردار برداشت نہیں کرتا حالانکہ موجودہ تحریک کا آغاز ہم لوگوں نے یورپ سے شروع کر کے آزاد کشمیر اور یہاں سے تحریک کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں منظم کیا جہاں بھارت کو گھٹنے ٹیکنے مجبور کر دیا گیا لیکن اس تحریک کو فرقہ پرستی میں تبدیل کر کے بھارت کے ہاتھ مضبوط کر دئیے گے۔ پاکستان دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے ساتھ خوش ہیں جبکہ ویلی پاکستان کے ساتھ ملنے کے لیے جد و جہد کر رہی ہے۔اس کے باوجود کم عقل کشمیر لیڈرز خود کسی نکتہ پر متفق ہونے کے بجائے ان دونوں قابضین سے اپس میں بات چیت کا مطالبہ کرکے ثابت کر رہے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کو صرف ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایسی گفت و شنید کے لیے مروا رہے ہیں جس میں کشمیری قیادت کا کوئی فیصلہ کن کردار نہیں اور ہو گا اگر کوئی کشمیر اس میں شامل ہوا تو وہ بھی ہندوستان اور پاکستان کے حواری کے طور پر نہ کہ جموں کشمیر کا عوامی نمائندہ ہو گا۔ ایسے میں کشمیریوں کا قتل عام تو جاری رہ سکتا ہے لیکن جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی ناممکن ہے۔ کشمیری اگر کوئی پیش رفت چاہتے ہیں تو انہیں الجزائر لیبیا اور جنوبی افریکہ کی تحریکوں کے تجربات سے سیکھنا ہو گا جن کا ایک نظریہ۔ ایک منزل اور ایک ہی لیڈر تھا اور لیڈر بھی وہ جسکا خود عملی میدان میں کوئی کردار ہو۔ خود نمائی کے اسیروں کی آزادی کی تحریک میں کوئی ضرورت نہیں!
 

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 41144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.