اعجاز احمد لودھی کا شعری مجموعہ ’’الوداع‘‘

کتاب پر تبصرہ ، ازقلم: بشیر سلطان کشفی
’’الوداع‘‘ جواں سال اور جواں ہمت اعجاز احمد لودھی کی شاعری کا اولین مجموعہ ہے ،خوب صورت لب و لہجے اور منفرد اسلوب کی حامل انکی شاعری روح و پے میں اتر جاتی ہے ،اس مجموعے کلام کا انتساب انہوں نے اپنی اہلیہ مرحومہ کے نام کیاہے ،جس کی جدائی نے نہ صرف ان کے ذہین پر انمٹ نقوش ثبت کیے بلکہ جذبات،احساسات اور خیالات کو شاعری کی زبان دی۔یہ شعری مجموعہ حرف اکادمی پاکستان کے چیئرمین کرنل سید مقبول حسین (ستارہ امیتاز )کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے ۔128صفحات پر مشتمل اس مجموعے کلام کی قیمت 300روپے ہے۔ یہ مجموعہ مصنف سے براہ را ست موبائل نمبر 0092 300 8555856 پر رابطہ کر کے حاصل کیاجا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں شاعری ایک عام چلن کا روپ دھار گئی ہے ،دور حاضر میں جہاں شاعری مختلف موضوعاتی قسم کا نام بن چکی ہے وہاں نثری نظم کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے ،نثری نظم میں حالات حاضرہ پس منظر ،پیش منظر اور دلی کیفیات کابیان گو کہ آسان نظر آتا ہے مگر نثری نظم سے آشنا احباب یہ جانتے ہیں کہ یہ فن ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔اعجاز احمد لودھی کی شاعری ادب کی نثری صنف کا ایک عمدہ معیار ہے ۔

اعجاز احمد لودھی نے اپنی شاعری میں جدائی ،رعنائی ،تنہائی ، ہجر و صال کی کیفیات ،سماجی مسائل اور بہت سے موضوعات کو قرطاس کی زینت بنایا ہے ۔بقول چیئرمین حرف اکادمی پاکستان جناب کرنل سید مقبول حسین (ستارہ امیتاز )’’شاعری کومل جذبوں کے اظہار کا نام ہے ،اعجازاحمد لودھی نے اپنے مشاہدے اور جذبات اور محسوسات کو خوش اسلوبی سے صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے ۔لفظوں کا رچاؤ جذبات اور احساسات کی شدت ان کی نظموں کا خصوصی رنگ ہے ،محنت سے سفر جاری رکھا تو کامیابی قدم چومتے دکھائی دیتی ہے‘‘ ۔شاعر ادیب افسانہ نگار اور صحافی ملک عرفان خانی نے ’’عکس لمحات ‘‘کے تحت اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے’’انسان خیال وخواب کے جزیرے اکثر بنتا رہتا ہے جب کوئی حسین جزیرہ بن لیا جائے تو اس سے محبت کا گزر لازمی ہے جو محبت اس جزیرے سے گزرے جائے تو اس کی خوشبو انسان کے دل پر تاحیات نقش چھوڑ جاتی ہے ،کچھ ایسی ہی کیفیت ’’الوداع‘‘کے تخلیق کار کے دل پر نقش ہے جس کا برملا اظہار وہ لفظوں کے حسین انتخاب کی صورت سامنے لایا ہے ‘‘۔اعجاز احمد لودھی نے اپنی اس اولین کاوش میں دلی جذبات اور کیفیات کی بھرپور نمائندگی کی ہے ۔بقول امجد بخاری نثری نظموں میں شاعرانہ نغمگی کو سمونا ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ افسانہ کے عنوان سے اپنے جذبات کا اظہار اعجازاحمد لودھی نے اپنے ان مصرعوں میں کیا ہے ،
سن یہ افسانہ ایسے بنا
سرجھکا کر وہ بیٹھے تھے
نام پہ دھبہ میرے لگا

رفیقہ حیات کے آنکھوں کے سامنے داغ مفارقت دے جانے کے المناک منظر کو انہوں نے شاعری کی ’’الوداع ‘‘ کے عنوان سے احساسات کی جن لڑیوں میں پرویا ہے اس کا نمونہ پیش ہے:۔
وقت رخصت میری بانہوں میں
تیری سانس کا نکلنا دیکھا
جان ِاعجاز تیری سانسوں سے
میری روح کا رشتہ تھا
میری سانس بھی ساتھ ہی
نکل تو جاتی جاناں!!!
مگر تجھ کو پھر
الوداع کون کہتا۔۔۔؟؟؟؟

اسی طرح فلسفہ کے عنوان سے نشترزنی کرتے ہوئے اعجاز احمد لودھی کے خیالات کی سوچ اس نہج پر پہنچی ہے ۔
سردی ہے تنہائی ہے
دسمبر کا مہینہ ہے
ایک تو موسم سردی کا
اس پر تنہائی کی تپش
جب مل جائیں دونوں
زندگی گھلنے لگتی ہے

الغرض ’’الوداع ‘‘میں سموئی ہوئی شاعری کو جس پہلو سے بھی پرکھا جائے یہ شاعری کے ہرمعیار پر پوری اترتی ہے بلکہ دل پر ایک تادیر اثر چھوڑ جاتی ہے ۔
 

Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 69101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.