عہد حاضر میں مسجد و میناروں اور ادب کے گہوارہ شہرما
لیگاؤں میں اردو ادب میں معیاری تحقیقی کام ہورہا ہے ، کہیں ادبی نشستیں ،مشاعرے،تو
کہیں نئی ادبی کتابوں کا اجراء،یہی وجہ ہے کہ شہر میں اردوادب کے نئے نئے
گوشے بھی سامنے آرہے ہیں یہ اردو زبان کے فروغ کے لئے حوصلہ افزا بات ہے۔با
لکل اسی طرح سے محترم جمیل انصاری صاحب کا مجموعہ کلام’بذاتِ خود‘اِس بات
کا غماز ہے کہ موصوف اپنی گوناں گوں مصروفیات کے دوران بھی شعر و سخن کے
پودے کی آبیاری خاموشی سے کرتے رہے۔ واقعی تخلیق ہو یا تحقیق اس کا کتابی
صورت میں تشکیل پانا کئی صبر آزما اور مشکل مراحل کا متقاضی ہوتا ہے تاہم
کتاب کے تشکیل پا جانے کے بعد اگر قارئین سے کتاب کا رشتہ جڑ جائے تو اس
تخلیق کے خالق کو اپنی تمام محنت وصول ہو جاتی ہے۔ اِس بارمحترم جمیل
انصاری صاحب نے ’بذاتِ خود‘ یہ باور کرایا کہ ان کی حسیات کا دیار کہیں بھی
اور کسی بھی سطح کا ہو، شاعراپنی لگن کی بنیاد پر روحِ عصر کی اُس جہت کو
بھی چھو آنے کا سہار رکھتے ہیں۔موصوف کا یہ پہلا مجموعہ کلام ہے لیکن یہ
کسی نو مشق شاعر کی کتاب نہیں ہے۔ جناب جمیل انصاری صاحب کی اگرچہ مقامی
طور پر ان کی خاطر خواہ پذیرائی ضرور ہوئی لیکن اتنی نہیں جتنی کے وہ مستحق
ہیں۔کیونکہ موصوف ادبی سیاست اور ریاکاری ،دکھلاوے،نام ونمود شہرت سے
اجتناب کرتے ہیں۔بہرحال ، ان کی شاعری اصل انسانی جذبات کی شاعری ہے۔ ایک
ایسے دردمند انسان کی جس کے لاتعداد خواب ہوں، اگرچہ ادھورے رہ گئے ہوں،
موصوف کے کلام کا مطالعہ کرنے پر آپ کو ضرور یہ احساس ہوگا کہ لگی لپٹی کے
بغیر جو انھوں نے محسوس کیا ہے، بے لگام کہہ دیا ہے۔واقعی اس مجموعے سے
کافی کہنہ مشقی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر نے کلاسیکی ادب
کابھی غائر مطالعہ کیا ہے۔ ۔کلام کی عمدگی کا ثبوت ان کے وہ اشعار بخوبی
دیتے ہیں جو کتاب کے شروع میں دیئے گئے ہیں،جن میں سرورق کا ہی شعر دیکھ
لیں۔۔
بہت مصروف لمحوں میں جو یادیں بھی نہیں آتیں
چلی آتی ہیں تنہائی میں وہ یادیں بذات ِخود
جناب جمیل انصاری نے غزل میں نت نئے موضوعات شامل کیے اور وسعت الفاظ کو
ایک انوکھی جگہ دی اور اپنی شاعری کو ایسا ہمہ گیر بنایا کہ ان کی ذات بھی
ہمہ شخصیت کی حامل ہو گئی جس سے ضرور مستقبل میں غزل کی دنیا میں جمیل
انصاری کا نام ایک خوبصورت امتزاج کا مالک بنے گا۔جناب جمیل انصاری کے
مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات قاری کو ذہن نشین رہنی چاہیے کہ
شاعر ایک واضح پیغام لیکر اُفق ادب پر طلوع ہوا ہے۔ ان کی شاعری جذبوں کے
تیز بہاؤ کا نام ہے۔موصوف کی شاعری انہی فرحت انگیز کیفیات کی نقیب ہے،جو
فکری وسعت، گہرے احساسات اور سماجی و معاشرتی مدوجزر کی آئینہ دار ہے۔ اسی
کے ساتھ ساتھ جب پیشکش کا انداز دل نشیں اور جادوئی ہو تو وہ شاعری دوآتشہ
ہی نہیں سہ آتشہ اور چہار آتشہ ہوجاتی ہے۔ایک عرصے تک شعبہ صحافتسے وابستگی
اور معاشرت سے قربت کے سبب ان کی شاعری زمینی سطح سے اچھی طرح مربوط ہے یہی
وجہ ہے کہ جناب جمیل انصاری کی شاعری جذباتیت کی شاعری نہیں ہے۔ ان کے یہاں
خوش آیند خوابوں کوحقیقت میں بدلنے کی تڑپ ہے، انسانی قدروں کے پامال ہونے
کا ملال ہے، ٹوٹتے بکھرتے آپسی رشتوں کی بحالی کی آرزو ہے اور زندگی کی رمق
پورے آب وتاب کے ساتھ
موجود ہے۔ حساس اور باشعور طبیعت کی جولانی ان کے اشعار میں موجِ تہہ نشیں
کی طرح صاف صاف نظر آتی ہے۔
|