بھارت تقسیم ہند سے لیکر آج تک مسلسل پاکستان کو کمزور
کرنے اور نیچا دیکھانے کی ناکام کوششیں کرتا آرہا ہے۔وہ اپنی ترقی کے ساتھ
ساتھ پاکستان کی تنزلی کیلئے کوشاں رہا ہے۔درحقیقت بھارت پاکستان کو کسی
بھی میدان میں کامیاب دیکھنا نہیں چاہتا تب ہی توکھیل کے میدان سے لیکر
اقتصادی میدان تک اپنی شاطرانہ چالیں چل کر پاک وطن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
آئے روز ایسے منصوبے اور سازشیں تیار کر رہا ہے جس سے پاکستان کا امن اور
معشیت متاثر ہو۔پاکستان میں امن کو سبوتار کرنے کی بھارتی سازشوں کا ثبوت
کلبھوشن ہے اور پاکستانی معشیت کے خلاف بھارتی سازش کا عملی ثبوت اس کے آبی
منصوبے ہیں جن سے وہ اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بے شمار نقصان کر
رہے ہیں۔پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی معشیت کا انحصار زراعت پر ہے ۔بھارت
پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی سازش کے تحت پاکستانی دریاوں پرکئی
ڈیم بنا کر پانی روکنا چاہتا ہے اس کی یہ سازش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔بھارت
نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں جن میں سے
ایک کشن گنگا پاور ہاوس ہے اس کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور
پاکستانی اعتراضات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ہوئی۔ اس بجلی گھر کی
تعمیردریائے نیلم پر ہوئی ہے جو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائے جہلم
کا معاون دریا ہے اوریاد رہے پاکستان میں پہلے ہی نیلم جہلم ہائیڈرو
پاورپراجیکٹ کام کررہا ہے بھارت نے اس منصوبے کو متاثر کرنے کی سوچی سمجھی
سازش کی ہے۔ بھارت نے یہ منصوبہ 2005میں پیش کیااور 2009میں اس پر کام شروع
کیا۔ پاکستان نے اس منصوبے سے متعلق خدشات پر عالمی بنک سے رجوع کیااور
اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور اپنا مسئلہ بیان کیا ۔عالمی بینک نے پہلے
پاکستان کے موقف کی تائید کی اور بھارت کو ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کا کہا
لیکن بھارت نے عالمی بینک کا حکم خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس پر کام جاری
رکھا یو 2018 میں بھارت یہ منصوبہ مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔جو پاکستان
کی غیر موثر سفارتکاتی اور کیس کو اطمینان بخش انداز میں پیش نہ کرنے کا
نتیجہ ہے۔کشن گنگا ڈیم کے آپریشنل ہونے کے بعد پاکستان کو ہوش آیا اور پھر
عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس بار پاکستان کواس نے بھی ٹکا سا
جواب دے دیا۔ یوں پاکستان اپنے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کو بچانے میں
ناکام ہوگیا اب اس منصوبے کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد 8فی صد کم ہوگئی
ہے۔اس منصوبے پر بات ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی بھارت کا یہ آخری متنازعہ
منصوبہ ہے ۔بھارت دریائے نیلم جہلم کے علاوہ چناب اور سندھ پر بھی کئی ڈیم
بنا رہا ہے جو پاکستان میں آبی قلت پیدا کرنے اور زمینیں بنجر کرنے کی مکمل
سازش ہے ۔بھارت دریائے چناب پر 3بڑے اور 21چھوٹے متنازع آبی منصوبوں پر کام
کررہا ہے جن پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں اور دریائے سندھ پر بھارت کارگل
ڈیم کے نام سے دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم تیار کررہا ہے یہ منصوبہ 2028تک مکمل
ہوگا۔بھارت اگراپنے ان آبی منصوبوں کومکمل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے
توپاکستان میں پانی کی شدید قلت ہو سکتی ہے اور معشیت کو شدید نقصان پہنچنے
گا۔بھارت تو دشمن ہے اس نے تو ہر چال چلنی ہے کہ کسی طرح پاک سرزمیں
کمزورہو لیکن جو قابل افسوس بات یہ ہے کہ ایک طرف بھارت ہے جو پاکستان
دشمنی میں متنازع اور ناجائز ڈیم بنانے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہے جبکہ
دوسری طرف پاکستان کی حکومت اور ادارے ہیں جو اس جانب طرف توجہ نہیں دے رہے۔
دشمن کی سازشوں کا کوئی توڑ نہیں نکال رہے حالانکہ ان دریاوں کے پانی سے
استفادہ حاصل کرنے کا ہمارا پہلا حق ہے لیکن اس کے باوجودہماری حکومت
اورادارے اس سے مستفید ہونے کے بجائے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان
کو آبی قلت کے شکاربنارہے ہیں جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ
40سال میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا ۔چند ایک کالاباغ اوردیامیر بھاشاڈیم جیسے
منصوبوں پر ہوم ورک کیا گیا جو آغاز میں ہی متنازع ہوگئے تھے لیکن ان کے
بعد کوئی نیامنصوبہ ڈیزائن نہیں کیا اور نہ ہی ان پر اعتراضات ختم کرکے
انہیں شروع کیا گیا ۔آج تک ان آبی منصوبوں کو لیکر سندھ اور کے پی کے کے
لیڈر سیاست چمکارہے ہیں اوردشمن کے عزائم کو کامیاب بناتے ہوئے وطن عزیز کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچارہے ہیں۔آج پاکستان کواپنی آبی ضروریات کے علاوہ
دشمن کے ناپاک عزائم کا مقابلہ کرنے کیلئے آبی ذخائر کی اشد ضرورت ہے جس کا
اندازہ آپ ان اعدادو شمار سے لگا لیں کہ ہر سال پانی کو ذخیرہ کرنے کے
نامناسب انتظام کی وجہ سے 28ملین ہیکٹر پانی سمندربرد ہو جاتا ہے۔جس سے
پاکستان کو سالانہ 180ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے ۔یہ ہی نہیں ہر سال پانی
کو ذخیرہ کرنے کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے جو سیلاب تباہی مچاتے
ہیں اس سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا کوئی محتاط اندازہ ہی نہیں
ہے۔اس کے علاوہ آج ملک میں زمینیں بنجر اور بڑے شہر پانی کی بوند بوندکو
ترس رہے ہیں۔اس ساری صورت حال کے باوجودہمارے ادارے اورحکومت اس مسئلہ پر
توجہ نہیں دے رہے۔پاکستان میں ضرورت کے مقابلے میں آبی ذخائر نہ ہونے کے
برابر ہیں جو دو (تربیلا اور منگلا)ڈیم پاکستان میں بنے ہیں وہ بھی آج مٹی
سے بھرنے کی وجہ سے اپنی استعداد سے کم کام کردے رہے ہیں۔دنیا بھر کے ممالک
میسر آبی وسائل کا 30سے 40فی صد محفوظ کیا جاتا ہے جبکہ ایک پاکستان ہے جو
صرف 10فی صد پانی کو محفوظ کرتا ہے اور اس کا دشمن اس کی لاپرواہی کا فائدہ
اُٹھاتے ہوئے اس کے پانی سے مستفید ہو رہا ہے۔وطن عزیز کے اداروں اور گزشتہ
تمام حکومتوں نے مل کر دشمن کے ناپاک عزائم کو قوت بخشی اور ملک وقوم
کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور ابھی پہنچارہے ہیں کیونکہ آج تک بھی
انہوں نے کسی منصوبے پر کام شروع نہیں کیا اگر اس ہی طرح سستی ،لاپرواہی سے
کام لیا جاتا رہا اور سنجیدگی سے اس مسئلہ پر توجہ نہ دی گئی تو وہ دن
زیادہ دور نہیں جب پاکستان آبی قلت کا شکاراور زمینیں بنجرہوجائیں گی لوگ
پانی کی خاطر ایک دوسرے کی جان لیں گے۔ |