عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ پر مودی کی راکھ

مودی جی نے حلف برداری کے بعد بڑے فخر سے اعلان کیا تھا ’’ہم اکیسویں صدی کو ہندوستان کی صدی بنائیں گے‘‘۔ زمام کار سنبھالنے کے بعد وہ سارے داخلی مسائل کو بھول کرمذکورہ عالمی مشن پر نکل پڑے۔ ان پر غیر ملکی دوروں کا جنون سوار ہوگیا ۔ وہ اپنے ہر سفر میں وہاں مقیم ہندوستانیوں کو خطاب کرتے۔ مقامی لوگوں کو جمع کرنے کے لیے کبھی کسی راک ڈانسر کی مدد لی جاتی تو کبھی دیوالی کی تقریب سجائی جاتی ۔ مودی جی کے غیر ملکی دوروں میں ندرت ہوتی تھی مثلاً کہیں وہ ٹرین میں سفر کرتے اور مسافروں کو ڈھوکلا کھلایا جاتا۔ کبھی ان کو اوبامہ ’کیم چھو‘ کہہ کر مخاطب فرماتے ۔ کسی تقریب میں برطانیہ کے وزیراعظم کے اہلیہ کی ساڑی زیر بحث آجاتی کہیں وہ مارک زوکربرگ کو دھکا دیتے نظر آتے۔ کبھی جرمنی کی چانسلر مرکل ان کا ہاتھ جھٹک کر چل دیتیں اور کہیں قومی ترانے کے دوران وہ خود چل دیتے توروسی فوجی کو انہیں روکنا پڑتا۔ نت نئے بھیس میں وہ کہیں ڈھول تو کہیں شہنائی بجاتے دکھائی دیتے۔ خدا خدا کرکے وہ دوروں کا دور گزر گیا اور اب آخری سال میں ان پر دورے پڑنے بند ہوگئے۔

اقتدار کی پہلی سالگرہ پرمودی جی شنگھائی تشریف لے گئے اور وہاں مقیم بھارت واسیوں کو خطاب کرکے فرمایا ’’ پہلے آپ لوگ ہندوستانی کی حیثیت سے پیدا ہونے پر شرم محسوس کرتے تھے۔ اب اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہو‘‘۔ گویا ایک سال کے اندرمودی جی نے شرم کو فخر میں بدل دیا ۔ اس فقرے پر خوب تنازع ہوا لیکن چار سال بعد حالت اس کے برعکس ہوچکی ہے ۔ پہلے جہاں لوگ اپنے بھارت واسی ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے مودی جی کی ناکامی کے سبب شرم محسوس کرنے لگے ہیں۔ مودی جی کے شرم والے تبصرے کو لوگ سمجھ نہیں پائے وہ خوداپنی حالت کو عوام پر چسپاں کررہے تھے ۔ مودی جی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو فسادات کے باعث امریکہ میں ان پر پابندی تھی اس لیے وہ شرم محسوس کرتے تھے ۔ اس سے قبل جب انہیں کیشو بھائی پٹیل نے گجرات بدر کردیا تھا تو وہ غالباً چندہ جمع کرنے کے لیے امریکہ جایا کرتے تھے اس لیے شرم محسوس ہوتی تھی ۔ اب یہ حال ہے کہ دنیا بھر کے حکمرانوں نے ہندوستانیوں کو وزیراعظم پر قیاس کرکےایسا ناروا سلوک شروع کیا کہ عام لوگ اس پر شرم محسوس کرنے لگے ہیں۔

ان چار سالوں میں مودی جی نے جملہ ۹۰غیر ملکی دورے کیے اور جلد ہی اپنی سنچری پوری کردیں گے ۔ مودی جی نے اپنے دو سالوں میں تین مرتبہ اقوام متحدہ کا دورہ کیا ۔ مودی جی کے ہردورے کی رپورٹ میں کسی نہ کسی بات کے پہلی بار ہونے کا ذکر ہوتا تھا لیکن اب ان کے دورِ اقتدار میں پہلی بار اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن نے کشمیر کی صورتحال پر اپنی رپورٹ شائع کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارتی فوج کی جانب سے عام کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس ادارے نے پاکستان کو بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے پر امن کارکنوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے ’غلط استعمال‘ سے باز رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس رپورٹ کا دورانیہ جولائی ؁۲۰۱۶سے اپریل ؁۲۰۱۸ ہے اس میں جموں و کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوںکے تحت سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ۱۴۵ شہریوں کے مارے جانے نیز طاقت کے بیجا استعمال سے بڑی تعداد میں لوگوں کے زخمی ہونے کا ذکر ہے۔رپورٹ کے مطابق اس دوران عسکریت پسندوں نے ۲۰ شہریوں کو ہلاک کیا۔ جینوا میں جاری انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں زید رعد الحسین نے کشمیریوں پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کیخلاف بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیانیزگذشتہ ۳۰ برسوں میں فوج یا مسلح شدت پسندوں کے ہاتھوں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کی ازسرنو تحقیقات کرانے اور فوجی و نیم فوجی اہلکاروں کے مواخذہ میں حائل فوجی قوانین کے خاتمہ پر زور دیا۔ اس میں وادی کشمیر اور جموں میں مبینہ اجتماعی قبروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کشمیری پنڈتوں کے اُن ۶۲ ہزار خاندانوں کا بھی ذکر ہے جو ۳۰سال قبل کشمیر میں مسلح شورش کے باعث بھارت کے دیگر صوبوں میں چلےگئے تھے۔

ویسے تو یہ دستاویز ہندو پاک دونوں سرکاروں پر تنقید کرتی ہے لیکن جہاں ۳۳ صفحات ہندوستان کے لیے مختص ہیں تو صرف ۶ صفحات میں پاکستان کا بیان ہے۔اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق نے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے اپیل کی ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرکے انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکیں اور اظہار رائےو مذہب کی آزادی کو بحال کیا جائے۔ حکومت ہند کی وزارت خارجہ نے اسے "جھوٹ کا پلندہ" قرار دے کر مسترد کردیا ہے لیکن کیا اس رپورٹ کا منظر عام پر آجانا دفتر خارجہ کی ناکامی نہیں ہے۔ اس رپورٹ کا یہ اثر تو ضرور ہوا کہ اس کی بھنک لگنے کے بعد وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے پتھراو کرنے والے نوجوانوں کو اپنے بچے کہہ کر ان پر قائم مقدمات واپس لے لیے۔ اس کے بعد صوبائی حکومت گرادی اب دیکھنا ہے کہ انتخابی سال میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟

وزیراعظم نریندر مودی نے سب سے زیادہ ۵ مرتبہ امریکہ اور چین کا دورہ کیا۔ ابتداء میں امریکہ کےگجراتی ان کے وزیراعظم بن جانے پر دیگرہندوستانیوں سے زیادہ خوش تھے لیکن ہاردک پٹیل نے رنگ میں بھنگ ڈال دیااور اس کی مخالفت کے بعد مودی جی نے وہاں کے عوام سے ملنا جلنا بند کردیا۔ اوبامہ سے وزیراعظم کی خوب چھنتی تھی اس لیے پہلے تین سالوں میں انہوں نے چار مرتبہ صدر امریکہ سے جاکر ملاقات کی اورایک مرتبہ انہیں ہندوستان آنے کی دعوت دی لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ گرمجوشی نہ جانے کیوں سردمہری میں بدل گئی ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے چونکہ اپنی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اسلام دشمنی کا راگ چھیڑ دیا تھا اس لیےمودی بھکت خوش ہوگئے۔ ان لوگوں نے ہریانہ ایک گاوں اس سے منسوب کردیا۔ بغض معاویہ میں اس کی آرتی اتاری اور اس کی کامیابی کے ہون تک کرڈالا۔ یہ جوش اب بھی ختم نہیں ہوا۔ دہلی میں ہندوسینا کے کارکن ٹرمپ کی ۷۲ویں سالگرہ منانے کا اہتمام کررہے ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ فرسٹ کے تحت اپنا رخ غیر ملکیوں کی جانب مبذول کیا اوران کے لیے نت نئی مشکلات کھڑی کرنی شروع کردی ۔ ان پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر ہندوستانیوں پر پڑا ۔ گزشتہ سال جب وزیراعظم مودی نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی تو امریکہ میں رہنے والے ہندوستانی توقع کررہے تھے کہ وہ ایچ ۱ بی ویزہ کے مسئلے پر گفت و شنید کرکے اس کا حل نکالیں گےلیکن وہ معاملہ زیر بحث ہی نہیں آیا اور مودی جی کے انتخاب پر بلیوں اچھلنے والے تارکین وطن ٹھنڈے ہوکر بیٹھ رہے ۔ اس دورے کے فوراً بعد مریکہ نے ہندوستان اور سری لنکا میں مذہبی آزادی کے فروغ کی ۵ خاطر لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کیا ۔ یہ دراصل مذہبی عدم رواداری کابلاواسطہ اعتراف تھا ۔ اس کے بعد مودی جی نے امریکہ جانے کا خیال دل سے نکال دیا لیکن امریکی صدر کا بغض کم نہیں ہوا۔

ہندوستان اور امریکہ کے درمیان فی الحال ایک تجارتی گھمسان چھڑا ہوا ہے۔ ٹرمپ نے ہندوستانی لوہے اور المیونیم پر ڈیوٹی بڑھائی تو اس کے جواب نے ہندوستان نے چنے اور مٹر پر ٹیکس بڑھا دیا۔ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ وہ ان سبھی ممالک سے تجارتی تعلقات منقطع کر لیں گے جو امریکہ کو لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ امریکہ سے آنے والی کئی مصنوعات مثلاًہارلے ڈیوڈسن موٹرسائیکل پرہندوستان نے صد فیصد ڈیوٹی لگادی ہے اور اب وہ بھی ہندوستان کے اشیاء پر ڈیوٹی لگائیں گے۔ ہندوستان سے کاروبار بند کرنے کی دھمکی ٹرمپ نے ایک ایسے وقت میں دی جبکہ پچھلے سال دونوں ممالک کے درمیان تجارت ۱۲۵ ارب ڈالرہوگئی ہے۔ دس سالوں میں یہ دوگنا اضافہ ہے لیکن امریکہ کو تجارتی خسارے کے تین گنا بڑھ جانے کی فکر ہے۔ ٹرمپ کو ڈیوٹی کے علاوہ سبسڈی پر بھی اعتراض ہے۔ امریکہ پہلے چین، جرمنی، جاپان ، کوریا اور سوئزرلینڈ کے زرمبادلہ کی نگرانی کیا کرتا تھا لیکن اب اس نے اس بدنام فہرست میں ہندوستان کانام بھی شامل کردیا گیا ہے جواچھا شگون نہیں ہے۔ہند امریکی تعلقات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں۔

مودی جی کی قیادت میں وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل کو امریکہ کی جانب سے وہ نذرانۂ عقیدت موصول ہوا کہ جس کا تصور بھی محال تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ہر سال ایک ورلڈ فیکٹ بک شائع کرتی ہے جس میں پوری دنیا کی معلومات ہوتی ہے۔ امریکی حکومت اور دیگر طلباء وغیر سرکاری ادارے اسے حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ اس سال فیکٹ بک میں وی ایچ پی اور بجرنگ دل کو مذہبی انتہا پسند تنظیم کے زمرے میں شامل کردیا گیاہے۔سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے؁۲۰۰۰ میں امریکہ کے اندر وشو ہندو پریشد کے اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ اگر اقلیت میں رہ کر اتنے اچھے کام کرسکتے ہیں ، جب ہم کو دوتہائی ووٹ ملے گا تو ہم سب کے سپنوں کا بھارت بنائیں گے‘‘۔ اٹل جی اس اکثریت سے محروم تھے جو مودی جی کو مل گئی لیکن اب وہ امریکہ کے اندر وشوہندو پریشد کے سمیلن میں شرکت نہیں کرسکتے اس لیے کہ امریکی انتظامیہ اس کی اجازت نہیں دے گا۔ چار سالوں تک مسعود اظہر اور حافظ سعید کو گرفتار کرکے ہندوستان لانے میں ناکامی کے بعد جیش یا حزب کے ساتھ بجرنگ دل اور وی ایچ پی کا نام یقیناً مودی سرکار کے لیے صدمے کا بہت بڑا جھٹکا ہے۔

وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل والےسی آئی اے کے اس فیصلے کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے لیے ماہرین سے صلاح و مشورہ کر رہے ہیں۔بجرنگ دل کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ' کوئی خفیہ ایجنسی ہماری تنظیم کو شدت پسند تنظیم کیسے بتا سکتی ہے؟ کس نے اسے یہ حق دیا۔ ہماری شاخیں بیرون ممالک میں بھی ہیں اور ہم نے کبھی کسی کو کوئی چوٹ نہیں پہنچائی۔ ہم دیکھیں گے کہ اس مسئلے پر کیا کِیا جا سکتا ہے'۔ بجرنگ دل نے بیرون ممالک کیا کیا یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن ہندوستان کی مآب لنچنگ (ہجومی تشدد) میں وہ پیش پیش ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ وی ایچ پی کے ترجمان ونود بنسل نے اس رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے سی آئی اے سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے حکومت سے اس معاملہ میں مداخلت کیلئے کہا ہے۔ بنسل کو توقع ہے کہ حکومت کو ان کا ہمنوا بن کر اس معاملہ کو اٹھانا چاہئےلیکن مودی سرکار اس بابت بالکل خاموش ہے۔ کشمیر کی رپورٹ کو جس شدو مد کے ساتھ مسترد کیا گیا ایسا کوئی ردعمل ان زعفرانی تنظیموں کی مدافعت میں ظاہر نہیں ہوا۔ ویسے تلواروں کے ساتھ ہندووں کی مسلح تربیت کا اہتمام کرنا اور شدت پسند کہلائے جانے پر چراغ پا ہونا کمال درجہ کی منافقت ہے۔

برطانیہ ان دس خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں مودی جی نے دو مرتبہ دورہ کیا ۔ پچھلے سال وہ دولت مشترکہ کے اجلاس میں گئے تھے اور کسی معتبر صحافی کے بجائے سرکاری نغمہ نگار پرسون جوشی کے ذریعہ انٹرویو کا ناٹکبھی رچایا گیا لیکن وہ حکومت برطانیہ کو متاثر نہیں کرسکا۔ ابھی حال میں برطانوی حکومت ان ممالک کی فہرست شائع کی جن کے طلباء کو ویزے کے حصول میں سہولت دی جائیگی ۔ اس فہرست میں ۲۵ ممالک شامل ہیں ۔ اس میں چین، نیوزی لینڈ ، سربیا و بحرین کا اضافہ تو کیا گیا ہے لیکن ہندوستان کو چجوڑ دیا گیا۔ اس کے معنیٰ ہندوستانی طلباء کے لیے وہی پرانی مشکلات بدستور قائم رہیں گی ۔ اس معاندانہ رویہ پر یوکے کاونسل فار انٹر نیشنل اسٹوڈنٹس افیر کے صدر لارڈ کرن بلی موریہ نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق یہ ہندوستان کے منہ پر لات کی مصداق ہے۔ حکومت برطانیہ غلطی پر ہے اس نے ایک غلط پیغام دیا ہے۔ اس سے حکومت ہند کے سمٹتے اثر و رسوخ کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

برطانیہ نے تو خیر ویٹو پاور رکھنے والی ایک بڑی طاقت ہے لیکن آج کل مالدیپ جیسا تین لاکھ والی آبادی والا ملک بھی ہندوستان کو آنکھیں دکھانے لگا ہے اور اس نے دو ہزار ہندوستانیوں کو ویزا دینے سے انکار کردیا ہے۔ مالدیپ جنوب مغرب میں تقریبا آٹھ سو کلو میٹر دور بحر عرب میں واقع ۱۲۰۰ چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتملایک مسلم ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ نوے ہزار کلو میٹر ہے البتہ آباد جزیروں کا رقبہ صرف ۲۹۸مربع کلو میٹر ہے۔ وہاں پر ۲۵۰۰۰ ہندوستانی باشندے رہتے ہیں جو کہ خارجی باشندوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔مالدیپ میں چین کی بڑے پیمانے پر اقتصادی موجودگیہندوستان کیلئے تشویش کا باعث رہی ہے ۔فی الحال مالدیپ کی بیرونی امدادکا ۷۰ فیصد حصہ چین سے آتا ہے اس لیے بھارت محتاط رہتا ہے۔ مالدیپ کے حزب اختلاف نے حالیہ صدر عبد اللہ یمین کی سرکار کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا لیکن چین کی دھمکی کے بعد بھارت خاموش ہوگیا ۔ حکومت مالدیپ کا حالیہ فیصلہ چین کے اثرات میں اضافہ کی دلیل ہے۔

ویسے مالدیپ تو دور نیپال بھی فی الحال پوری طرح چین کی گود میں جاچکا ہے۔ نیپالی وزیراعظم کے پی اولی فی الحال امریکہ کے پانچ روزہ دورے پر ہیں۔ایک تو ان کا نظریاتی جھکاو چین کی جانب ہے دوسرے نیپالی کانگریس کی ہندوستانی حکومت سے قربت ان کے لیے سوہانِ جان ہے۔ اس صورتحال میں لازمی تھا کہ نیپالی حکومت کو نرمی کے ساتھ اپنا ہمنوا بنایا جاتا لیکن یہ کام مودی جی نے سیکھا ہی نہیں۔ پہلے تو زلزلے کی امداد کو ایسے چھچھورے انداز میں تشہیر دی گئی اس سے نیپالیوں کے عزت نفس کو ٹھیس پہنچی جبکہ چین نے نیپال کے اندر تعمیر و ترقی میں ہاتھ بنٹا کر اس کا دل جیت لیا۔ اس کے بعددستور سازی میں بیجا مداخلت نے ان کی انا کو ٹھیس پہنچا ئی ۔ نیپال کی سرحد پر بسنے والے مدھیشیوں نے آئین میں امتیاز کے خلاف جو احتجاج کیا اس پر ہندوستانی حمایت کا الزام لگا اس سے مزید تعلقات بگڑے اور اب اولی سرکار نے وہ بجلی کا پروجکٹ چینیوں کو بحال کردیا ہے جسے ہندوستان کی حامی حکومت نے روک دیا۔ چین اب نیپال کا سب سے زیادہ مددگار ملک بن گیا ہے جواب میں نیپال نے ہندی مخالفت کے باوجود ریشمی سڑک پر دستخط کردیئے ہیں ۔ اس طرح مودی جی ایک ایسے دوست سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جو چند سال قبل دنیا کا واحد ہندو راشٹر تھا۔

مارچ ؁۲۰۱۵ میں وزیراعظم مودی نے سیشلس کا دورہ کیا ۔اس سے قبل اس ملک کا نام بھی نہیں سنا گیا تھا لیکن مودی جی نے وہاں بندرگاہ اور فوجی چھاونی قائم کرنے کا معاہدہ کیا۔ بیرون ملک یہ ایک اہم اقدام تھا ۔ سابق صدر جیمس مائیکل کے زمانے میں معاہدہ ہوا لیکن اس کی پارلیمانی توثیق نہ ہوسکی ۔ ؁۲۰۱۶ میں ڈینی فاورے نے اقتدار سنبھالا تو معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ ؁۲۰۱۷ میں خارجہ سکریٹری جئے شیوشنکر نے ڈینی فاورے کو منالیا اور اس سال جنوری میں معاہدہ کی تجدید ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ فاورے اس کو ایوان پارلیمان میں اسےمنظور کراتے یہ خبر پھیلادی گئی کہ سیشلس نے جزیرہ ہندوستان کو بیچ دیا ہے۔ اس کے بعد فاورے کو صفائی دینی پڑی۔ ڈینی فاورے کی پارٹی کو ایوان پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں ہے اس لیے وہ حزب اختلاف کے محتاج ہیں۔ وہاں پر حزب اختلاف کی باگ دور ہندوستانی نژاد رام کلاون کے ہاتھ میں ہے مگر وہ حکومت ہند سے خوش نہیں ہیں اور غالباً انہیں کے دباو میں یہ معاہدہ منسوخ ہوگیا۔ مودی سرکار خود ہند نژاد رہنما کو راضی کرنے میں ناکام ہوگئی۔ اب یہ بات مودی جی کو سمجھ لینا چاہیے کہ ملک کی کامیاب خارجہ پالیسی اچھے اچھے کپڑے پہن کر اچھی اچھی تقریریں کرنے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223387 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.