فاٹا انضمام ترقی و خوشحالی

 تحریر۔۔ سید کمال حسین شاہ
قبائلی علاقہ جات یا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات، پاکستان کے قبائلی علاقہ جات چاروں صوبوں سے الگ حیثیت رکھتے تھے مئی 2018ء میں ہونے والی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ان علاقوں کی قبائلی حیثیت ختم کر کے ان کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا27 ہزار 220 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے اور 2000ء کے مطابق قبائلی علاقہ جات کی کل آبادی 33 لاکھ 41 ہزار 70 ہے ۔ 17ء کی مردم شماری کے مطابق فاٹا کی کل آبادی 50لاکھ سے کچھ زیادہ ہے ۔ خیبر ایجنسی،کرم ایجنسی،باجوڑ ایجنسی،مہمند ایجنسی،اورکزئی ایجنسی،شمالی وزیرستان ،جنوبی وزیرستان مشتمل ہے فوج فاٹا کی قومی دھارے میں شمولیت کی مکمل حمایت کرتی تھی ۔فاٹا کے لوگوں کے ساتھ اور بہادر عوام کی قربانیوں کے ذریعے جو کامیابیاں حاصل کی گئیں ہیں انہیں مزید مستحکم کیا جارہا ہے جبکہ ملک پائیدار امن کی جانب گامزن ہے ۔پاکستان آرمی دن رات ایک کر کے فاٹا کے عوام کو امن دیا ۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اہم کام آرمی نے کیا ،افغان سرحد پر باڑ لگانے، مادر وطن کے دفاع اور امن پسند قبائلیوں کے تحفظ اور سیکیورٹی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر معمولی قربانیاں دیں قربانیوں کو محفوظ بنانا بھی لازم ہے ۔یقینا پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا لازمی تھا -

فاٹا سے نیشنل جیپ ریلی کا آغاز کیا گیا اور شمالی وزیرستان میں ’امن کرکٹ میچ‘ بھی کرایا گیا۔فاٹا کا نوجوان طبقہ امن وامان کی بحالی اور ملک کی تعمیر وترقی میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے ملک دشمن عنا صر کو ہمارے نوجوانوں کے صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہے اس دھرتی کا ہر نوجوان ہمارا سہارا اور طاقت ہیں ملک میں پاک فوج لیویز فورس اور عوام کے لازوال قربانیوں کی بدولت امن قائم ہوچکا ہے لیکن پھر بھی کچھ دشمن عناصر ایک تحریک کی شکل میں ہمارے نوجوان طبقے کو گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن ان کی تمام تر کوششیں ناکام ہونگے فوج نے فاٹا میں عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کیلئے بھی نتیجہ خیز اقدامات کر کے انکے دل جیت لئے ہیں جو بعض امن مخالف سیاستدانوں کو ہضم نہیں ہو رہے ۔فاٹا کے نوجوانوں کے فکر میں نہ صرف مثبت تبدیلی آئی ہے بلکہ ان کی سوچ کا محور شدت پسندی کی طرف مائل ہونے کی بجائے تعلیم و ترقی اور اصلاحات جیسے مثبت اقدامات کی سمت تبدیل ہوا ہے ۔ فاٹا کا مستقبل وہاں کے اپنے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جن کی تعلیم و تربیت کیلئے پاک فوج کی جانب سے جگہ جگہ تعلیمی اداروں کا قیام اور تعلیمی امور کی نگرانی اور تعلیم و تفریح اور کھیلوں کی سہولیات میں عملی دلچسپی کا اظہار حوصلہ افزاء امر ہے منفی امور کی جگہ مثبت رجحانات نے لے لی ہے جس کے پیچھے پاک فوج کی قربانیوں اور جدوجہد کی لمبی کہانی ہے ۔معاشی و اقتصادی طور پر فاٹا پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں انتہائی تنزلی کا شکار ہے اور یہاں استحکام کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔فاٹا میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو خصوصی ترغیبات دی جائیں تاکہ وہاں صنعت، زراعت، لائیو سٹاک، ،معدنیات اور جنگلات کے شعبے ترقی کریں اورمقامی آبادی کو جلد از جلدقومی دھارے میں شامل کیا جا سکے انشااﷲ

پاک فوج اور سویلین ادارے مل کر قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی اور نوجوانوں کے خواب کی تعبیر کیلئے کوشاں ھوگے مہمند قبائلی علاقے میں ماربل سٹی کا قیام آخری مراحل میں ہے جو تقریباً 300 صعنتی یونٹس کو جگہ دے سکے گا۔ یہ منصوبہ حکومت کے بقول پاکستان چین راہداری منصوبے کا بھی حصہ بنا دیا گیا ہے ۔کوہاٹ اور شمالی وزیرستان میں دو صعنتی سٹیٹس بھی قائم کی جا رہی ہیں فاٹا کو صوبے کی حثیت سے اپنا برابر حصہ ملے گا۔ فاٹا میں تمام پوسٹیں صرف میرٹ پر قبائلی نوجوان کو ملیں گی جس سے فاٹا سے بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ فاٹا کا صوبہ خیبر پی کے میں انضمام خوش آئند ہے پاکستانی علاقوں کو نظریاتی اور جغرافیائی طور پر زیادہ دیر تک تقسیم نہیں رکھاجا سکتا۔فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرکے قبائلی عوام کے دل جیت لئے ہیں، فاٹا انضمام سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھ جائے گا جس سے فاٹا کے عوام کو اعلیٰ عدالتوں تک رسائی ہو سکے گی۔ یہ فیصلہ بہت پہلے ہی ہو جانا چاہئے تھا۔ یہ اقدام قبائلی عوام کے دل کی آواز ہے ۔ اس فیصلے کے دوررس نتائج برآمد ہونگے -

فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لے ے بروقت، آسان اور مناسب راستہ یہی ہے ، فاٹا کے صوبے میں انضمام تھا …… فاٹا کے لیے 20 ہزار لیویز اہلکار بھرتی کیے جائیں گے جبکہ پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار وہاں تک بڑھایا جائے گا۔ 321 ارب روپے اضافی بجٹ کی فاٹا کے لئے منظوری دی گئی۔ترقیاتی و انتظامی کاموں کی نگرانی کے لئے فاٹا کی گورنینس کونسل کی تشکیل کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔ سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کی حدود کو فاٹا تک بڑھانے کی بھی منظوری دی گئی۔قبائلی عوام کی ترقی و خوشحالی اور ان کوشہری سہولتوں کی فراہمی کومقدم کیا ہے ……خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کتنا دانشمندانہ ثابت ہوتا ہے فاٹا کا انضمام ملکی سلامتی اور مضبوطی کا ضامن ہوگا،فاٹا کا انضمام ایک بہت بڑا سنگ میل تھا جسے قومی اتفاق رائے سے عبور کیا گیا تما م قومی قیادت نے ایف سی آر جیسے سیاہ قانون کو دفن کرکے غم زدہ قبائلیوں کو عیدالفطر سے قبل ایک ناقابل بیان خوشی دیدی ہے۔فاٹا یا قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا، البتہ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کی جماعتوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی۔ اس وقت حکومت سمیت فوج کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے کہ سب نے مل کر فاٹا کے لوگوں کا بنیادی حق قبول کرلیا ہے-

اچھی بات یہ ہے کہ ہماری عسکری قیادت نے پچھلے چند برسوں میں فاٹا کے ان قبائلی علاقوں میں تعلیم، صحت، روزگار، کھیل اور فنی تعلیم کے حوالے سے کئی مؤثر اقدامات کیے فوجیں قوموں کے لیے لڑتی ہیں اور قومیں افواج تشکیل دیتی ہیں اس لیے ایک مضبوط پاکستان کے لیے ایک مضبوط فوج کا ہونا سونے پر سہاگہ ہے 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد فوری طور پر اکتوبر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کو جماعتی بنیادوں پر یقینی بنانا ہے ۔ وہاں کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار مقامی لوگ اپنی مرضی سے اپنے سیاسی نمائندوں کا انتخاب کریں گے ۔ قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا اسمبلی میں نمائندگی اس کے بعد دی جائے گی، اور20 ارکانِ صوبائی اسمبلی ان علاقوں کی نمائندگی کریں گے ۔ امکان ہے کہ ان صوبائی اراکین کا انتخاب اپریل 2019ء میں ممکن ہوگا۔ آئندہ پانچ برس تک قومی اسمبلی میں فاٹا کی 12نشستیں ہوں گی، جبکہ آئندہ پانچ سال سینیٹ میں بھی اس کی 8 نشستیں برقرار رہیں گی۔پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا کے خیبرپختونخوا صوبے میں انضمام کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے اور اب ان کی جگہ ڈپٹی کمشنرز تعینات کردیے گئے ہیں۔پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ ڈپٹی کمشنر میں تبدیل ہوگیا ہے جبکہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی جگہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے لے لی ہے ۔

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 470633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.