امریکاسے تجارتی تنازعے کے بعد چین کے صدر شی چنگ پینگ
نے"خود غرض اورمحدود"تجارتی پالیسیوں کومستردکرتے ہوئے پابندیوں سے آزاد
عالمی معیشت بنانے پرزوردیاہے۔چین کے ساحلی شہرچینگ دامیں علاقائی سکیورٹی
سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران چین کے صدر
نے امریکا کی جانب سے عائد کی گئی تجارتی پابندیوں کا براہ راست ذکر نہیں
کیا لیکن انہوں نے امریکی اقدام پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ''ہم خود غرض،
محدود اور بند پالیسوں کو مسترد کرتے ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین کو
برقرار رکھا جائے اور ملٹی لیٹرل تجارتی نظام کی حمایت کرتے ہوئے عالمی
معیشت کوایسابنایاجائے جہاں سب کوآزادی ہو۔ ''امریکااورچین ایک دوسرے پرایک
سوپچاس ارب ڈالرمالیت کی تجارتی ڈیوٹیزعائد کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
ٹرمپ نے چین پرزوردیاہے کہ وہ امریکی مصنوعات کیلئے اپنے دروازے کھولے
کیونکہ امریکا اورچین کے مابین تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔چینی صدرنے دنیاکی
سات بڑی معشیت جی سیون کے سربراہوں کے اجلاس میں صدر ٹرمپ کے مشترکہ
اعلامیہ سے لاتعلقی کے اظہارکے فوراً بعداعلان کیاہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام
سے واشنگٹن اوراس کے قریبی اتحادیوں کے تعلقات پراثر پڑے گا۔ایس سی اواجلاس
سے خطاب میں چین کے صدر نے کہا کہ"ہمیں سرد جنگوں اور گروہوں کی لڑائی کی
سوچ سے باہرنکلناہے اورہم دوسروں کی قیمت پراپنی سکیورٹی کے اقدامات کی
مخالفت کرتے ہیں"۔چینی صدر نے ایس سی او ممالک میں فریم ورک بنانا کیلئے
چارارب 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ دینے کی پیشکش بھی کی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد2001میں رکھی گئی تاکہ چین، روس اور وسطی
ایشیائی ممالک میں سکیورٹی خدشات کا مقابلہ کیا جا سکے۔گزشتہ سال ایس سی او
میں پاکستان اور ایران کو بھی شامل کیا گیا اور توقع ہے کہ آئندہ سال تک
ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بن جائے گا۔ادھرایک مرتبہ پھرچین نے
امریکا کو خبردارکیاہے کہ اگراس نے تجارتی پابندیوں اورنئے درآمدی محصولات
کونافذکرنے پراصرارکیاتودونوں ملکوں کے درمیان تجارتی مذاکرات کاکوئی فائدہ
نہ ہوگااور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی معاہدہ نہ ہوگا۔واضح رہے کہ
امریکانے چند روزقبل چینی مصنوعات پرپچیس ارب ڈالرکے اضافی محصولات
عائدکرنے کی دہمکی دی تھی۔دوسری جانب جی سیون ممالک نے بھی امریکاکی جانب
سے ایلومینیم اوراسٹیل پردرآمدی محصولات میں بالترتیب پانچ فیصداوردس
فیصداضافی ڈیوٹی کے فیصلوں پر سخت ناراضگی کااظہارکیاہے۔ کینیڈامیں یورپی
اتحادی ملکوں کے وزرائے خزانہ کی سہ روزہ کانفرنس نہ صرف بے نتیجہ ختم
ہوگئی بلکہ ٹرمپ نے تمام سفارتی آداب کوپش پشت ڈالتے ہوئے کینیڈین وزیراعظم
کوبددیانت قرار دے دیا۔امریکی وزیرخارجہ اتحادی ممالک کے اضطراب کوختم نہ
کرسکے، انٹرنیشنل ائیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹرجنرل کے مطابق اس
صورت حال سے عالمی تجارت کو نقصان پہنچ سکتاہے۔
واشنگٹن نے حال ہی میں جب میکسیکو،کینیڈااوریورپی یونین پراضافی ڈیوٹی
عائدکی توجی سیون کے ملکوں نے سربراہی اجلاس میں فیصلہ کن اقدامات کرنے
کاعندیہ ظاہرکیاتھالیکن جی سیون کے ممالک ٹرمپ کوکسی بھی نتیجے پرقائل کرنے
میں ناکام ہوگئے ہیں۔ادھرتجارتی جنگ کے حوالے سے ٹرمپ کی طرف سے امریکا میں
درآمد کی جانے والی واشنگ مشینوں اور شمسی توانائی کے پینلز پر ڈیوٹی لگانے
کی حمایت سے سب سے زیادہ متاثر چین اور جنوبی کوریا ہوںگے۔اس فیصلے پرچین
کے جریدے گلوبل ٹائمز نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ سے تجارتی جنگ کے
کوئی اچھے نتائج نہیں نکلیں گے اور چین اس کابھرپور جواب دے گا۔ دونوں
ملکوں کے درمیان 2016میں 578ارب ڈالر اور2017میں 632 ارب ڈالرسے زیادہ کی
تجارت ہوئی تھی۔ امریکی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس تجارت سے
دس لاکھ سے زائد امریکی شہریوں کا روز گار وابستہ ہے اورچین اس سے بخوبی
واقف ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کے حوالے سے بھی امریکاچین کودہمکی دے چکاہے کہ وہ
تنازع بحیرہ جنوبی چین میں میزائل نصب کرکے اپنے پڑوسی ممالک کودہمکارہاہے
۔امریکانے مطالبہ نہ ماننے پرکاروائی کی دہمکی بھی دی ہے جبکہ چین کا
کہناہے کہ بحیرہ جنوبی چین میں فوج کی تعیناتی چین کی نیشنل ڈیفنس پالیسی
کاحصہ ہے،فوج اوراسلحہ اس جگہ رکھنے کا مقصدیہ ہے کہ کوئی وہاں قبضہ نہ
کرے۔جب تک یہ چین کاعلاقہ ہے تب تک وہ وہاں فوج تعینات کرسکتاہے اور اسلحہ
پہنچا سکتاہے،اگرکوئی ملک اس بارے میں شورمچائے توچین کی نظرمیں یہ اس کے
اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔یوں دیکھاجائے توامریکااور چین کے درمیان
معاملات بڑھتے بڑھتے دہمکیوں پرآگئے ہیں جبکہ امریکی اتحادی ملکوں کے ساتھ
بھی تجارتی معاملات پرکشیدگی پیداہوگئی ہے۔
واحدسرپرپاورہونے کے زعم میں امریکاپوری دنیاکواپنے کنٹرول میں رکھنے کی
کوشش کرتاہے اورمستقبل میں اپنے سامنے چین کوحریف سمجھتاہے ۔دیکھاجائے
توامریکاچین تنازعات خاصے سنگین ہیں۔ٹرمپ نے امریکاپہلے کے اصول کے تحت
اپنے اتحادی ملکوں سے بھی تجارتی جنگ شروع کردی ہے اورکسی بھی مخالف کی
پرواہ کئے بغیراپنے منصوبے پر عمل پیراہیں۔ایران کے ساتھ جس طے شدہ ایٹمی
معاہدے کو علی اعلان توڑدالاجس سے یورپی معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہوئے
اوروہاں پہلی بارپٹرول مہنگاہوگیا۔امریکی پالیسی سازوں کوبخوبی ادراک ہے کہ
چین کے ساتھ تصادم انہیں بہت مہنگاپڑسکتاہے کیونکہ چین امریکاکوناقابل
تلافی نقصان پہنچانے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔چین اسی بناء پرامریکی
دہمکیوں کوکوئی اہمیت نہیں دیتا۔ |