بچوں کے بچپن میں بہت سے نام رکھے جاتے ہیں ۔ کوئی گڈو
ہو جاتا ہے تو کوئی ببلو، کوئی مانو کہلاتی ہے تو کوئی گڑیا۔ مگر جس نام سے
میں آپ کو متعارف کروانے جا رہی ہوں وہ ایسی لڑکی ہے جو باغی تھی۔ کبھی
کبھی بغاوت انسان کو اس کی روح کے ساتھ ودیعت کی جاتی ہے۔ وہ جیتا ہے تو
اپنے باغی پن کے ساتھ اور مرتا ہے تو بھی اپنے باغی پن کے ساتھ ۔ مگر کبھی
کبھی زندگی سب کچھ چھین لیتی ہے۔ اکثر انسان کشکول لیے زندگی کے دروازے پر
سوالی بنا نظر آتا ہے۔کچھ سوالی تو ایسے ہوتے ہیں جو زندگی کوہی سوال بنا
دیتے ہیں ۔ان کو ہرانا زندگی کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔ ایسے باغی لوگ نہ تو
معاشرے کی پروا کرتے ہیں نہ ودیعت کی جانے والی زندگی کی ،کیونکہ ان کا
مقصد سمیٹنا نہیں لوٹانا ہوتا ہے ۔وہ بھی ایسی ہی تھی۔ نصرت ۔ نصرت نام تو
بہت اچھا تھا مگر اسے اس کے بھائی فسادی کہتے تھے۔
یہ نام کب اور کس عمر میں پڑا تھا ۔ اسے خود پتہ نہیں تھا۔ کچھ بھی کوئی
غلط کرتا تو وہ شکائت لے کر ابو جی کے کٹہرے میں کھڑا کروا دیتی۔کبھی کبھی
جج خود فیصلہ کرنے کا اہل نہیں ہوتا ۔ ہمارے لیے مگر جج کا ہونا لازمی ہے
تاکہ فیصلہ ہوتا رہے۔ زندگی چلانا لازمی ہے ۔ خواہ کیسے ہی کیوں نہ چلے۔
نصرت کی بہن سعدیہ بھولی کہلاتی وہ بھائیوں کو بھی ہر دل عزیز تھی ۔ ان کے
تمام کام بہت اچھے سے کر دیتی مگر نصرت سے کوئی کام کہا جاتا تو وہ فوراً
سے پوچھتی ؟ بدلے میں ملے گا کیا؟ یہ وہ سوال تھا جو اس کے بھائیوں کو
حیران کر دیتا۔ اس کے بھائی اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتے ۔ امی دیکھو
کیسے گھر کے سارے کام ،ہمارے کام اور ابو کے کام کرتی ہیں ۔ بدلے میں کچھ
مانگتی ہیں ۔ ہمارا پیار ہی قیمت ہے۔ وہ ہنستی اور کہتی اُلو سمجھا ہے ،
چلو پھوٹو۔ پیار گیا تیل لینے۔پیارکر دیا میں نے بھی پر کام نہیں کروں گی۔
جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی تھی۔ اس کا باغی پن بھی بڑھ رہا تھا۔ وہ خود تو
باغی تھی ہی ۔ اپنے باغی پن کو دوسروں میں بھی منتقل کرنا چاہتی تھی۔ اس نے
اپنی بہن کو سمجھانا شروع کیا کہ وہ بھائیوں کا کام بغیرکوئی کام لیے نہ
کیا کرئے۔ دوسروں کو خود انحصاری سکھانا بھی تو ایک اچھی بات ہے۔ سعدیہ ہنس
دیتی۔امی اور سعدیہ کو لگتا کہ وہ کام چور ہے اور اسے لگتا کہ امی اور
سعدیہ کام چور بنانے کاکام کر رہی ہیں ۔ جب اللہ نے ہاتھ پیر دیئے ہوں تو
پھر ہر کوئی اپنا کام خود کرئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سغرہ کام کے لیے جانے ہی لگی تھی کہ اس کے شوہر نے اسے آواز دی۔ تیرے پاس
بچاس کھلا ہے ۔ سغرہ نے اسے قمیض میں ہاتھ دیتے ہوئے کہا۔پرسوں بھی تو نے
اسی طرح مجھ سے پیسے لیے تھے۔ میرے پاس مشین نہیں ہے۔ رحیم نے غصے سے چیخ
کر کہا ۔ اچھا اچھا جا اب دماغ نہ کھا۔
سغرہ ماتھے پر بل لیے کمرے سے نکلتے ہوئے چادر لپیٹنے لگی۔ اس کی دس سال کی
بیٹی بھی اس کے ساتھ چل پڑی۔ اس نے رمشہ سے روتے ہوئے انداز میں کہا۔
میراایک کام چھوٹ گیا ،کوئی نیا کام ڈھونڈنا پڑے گا۔ نہیں تو اگلے ماہ کا
کرایہ لینے کے لیے پھر وہ موٹی میری جان کھا جائے گی۔ رمشہ نے بیزاری سے
کہا۔ اماں ان لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے پھر بھی منہ بنا کر کیوں
رکھتے ہیں ۔ سغرہ نے ہنس کر کہا۔ رعب رکھتے ہیں ۔ پیسہ جس کے پاس جتنا بھی
ہو کم ہی ہوتا ہے۔
رمشہ نے ٹھیلے پر گول گھومنے والے پنکھے دیکھ لیے تھے اب وہ بار بار اپنی
ماں کے چہرے اور کبھی اس میٹھی گولیوں والی نلکی کی طرف دیکھتی ۔ جس کے ایک
سرے پر گول سا پنکھا تھا۔ کافی دیر کے بعد اس نے ہمت کر کے کہا اماں دس
روپے ہیں تیرے پاس۔ سغرہ نے غصے سے کہا۔ کیوں ۔ تجھے بھی کھلا کروانا ہے
تیرے باپ کی طرح ۔ رمشہ نے پنکھے کی طرف دیکھ کر کہا۔ اماں مجھے لے دے نا ۔
وہ۔ سغرہ نے غصے سے ایک مکا بنا کر اس کی پیٹھ پر رسید کرتے ہوئے کہا۔
سیدھا چل اگر رُکی نا ایک اور دوں گی۔ دس روپے۔ صبح صبح سارے حرام خور میری
جان کو آتے ہیں ۔
رمشہ پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی ۔ جبکہ سغرہ نے نسوار نکال کر منہ میں رکھی۔
نشہ کی تسکین نے اس کے لہجہ میں نرمی پیدا کی۔ اچھا اگلے ہفتہ لے دوں گی
تجھے۔ ایک تو پہلے ہی تیرے باپ کی وجہ سے غصے میں تھی ،پھر تو بھی نا۔دیکھ
کچھ دن بعد پہلی آے گی تو تنخواہ ملے گی۔ تنخواہ ملے گی تو لے لینا تو۔
پنکھا ۔ رمشہ نے انکھوں کو رگڑا اور پیچھے مڑ کر دور رہ جانے والے ٹھیلے کو
حسرت سے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارفہ نے افسردگی سے وقار سے کہا۔ بچوں کو جب سے چھٹیاں ہوئیں ہیں ،کام بہت
بڑھ گیا ہے۔ کوئی فل ٹائم بچی مل جاتی تو سکون ہو جاتا ۔ کم سے کم بچوں کو
دیکھنے کے لیے کوئی ہو جاتا۔ نہ سکون سے کھا سکتی ہوں ، نہ نہا سکتی ہوں
۔ابو بکر تو بڑا ہے پر عاتکہ کے ساتھ مل کر وہ بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔ کل
الماری کے سارے کپڑے باہر نکال دیے دونوں نے مل کر ۔وقار نے کھانا کھاتے
ہوئے ایک نظر عارفہ کی طرف دیکھا اور بولا ۔ ہاں رکھ لو۔ دیکھ لینا چور
چکار نہ ہو۔
یہ لوگ بڑے تیز ہوتے ہیں ۔ ذرا دھیان رکھنا۔عارفہ نے ہوں کہہ کر پلیٹ میں
سالن ڈالا۔سوچ رہی ہوں سغرہ ہی کی لڑکی رکھ لوں ۔ وہ بھی دس سال کی تو ہے۔
بات کروں گی اس سے۔وہ اپنی ہی سوچوں میں کھاتے کھاتے وقار سے باتیں کر رہی
تھی۔ جبکہ وہ کھانا کھا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی نصرت کی طرف سے سخت پریشان ہونے لگی ۔ ایک دن امی نے نصرت سے غصے سے
کہا !تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ تم لڑکی ہو ۔ لڑکی کو لڑکی کی طرح ہی رہنا
ہوتا ہے۔ نصرت نے مسکراتے ہوئے کہا۔میں نے کب کہا ہے کہ میں لڑکی نہیں ہوں
مگر لڑکی کیسے رہے گی یہ کون طے کرئے گا۔امی اگر سارے کے سارے لوگ اندھے
ہوں توکیا بندہ اپنی انکھیں پھوڑ لے۔وقاص بھائی جو بہن بھائیوں میں سب سے
بڑا تھا کمرے میں داخل ہوا اور پیار سے نصرت کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے
کہا۔ نصرت دنیا میں ہر معاشرہ اپنے کچھ قوانین رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے
قوانین یہی ہیں کہ قوانین مرد بناتے ہیں ۔ اللہ کے حکم سے اور انہیں عورتوں
کی حفاظت کی زمہ داری بھی دی گئی ہے۔ نصرت نے ہنستے ہوئے کہا۔ عورتوں کی
حفاظت مگرکس سے۔ شیر قانون بنائے گا کہ ہرن کس جگہ گھومے اور کس جگہ نہ
گھومے۔ وقاص نے الجھتے ہوئے کہا۔ مرد شیر نہیں اور نہ ہی عورت کوئی ہرن ہے
۔ دونوں ہی اپنا کام سر انجام دیتے ہیں ۔ سوچو اگر ابو نہ ہو تو امی کیسے
ہم سب کی زمہ داری اُٹھائیں گی۔ نصرت نے بھائی کی بات اچک لی ۔یہی کہنے کے
لیے تو کوئی عورت کو زمہ دار بننے ہی نہیں دیتا۔ آج دیکھو امی کےہاتھ میں
کیا ہے۔ گھر ابو کے نام ۔ ہم سب کے نام کے ساتھ ابو کا نام آتا ہے ۔
پچھلی دفعہ جب امی ابو کی لڑائی ہوئی تو ابو نے امی سے کیسے قوت کا جھنڈا
لہراتے ہوئے کہا ۔ اگر اب منہ کھولا تو دفع کر دو گا اپنے گھر سے ۔ اپنے
باپ کے گھر جا کر منہ کھولنا ۔ کاغذ وہیں بھجوا دوں گا ۔ آنے کی ضرورت بھی
نہیں ہے۔ تم جوان سال بیٹے اپنے کمرے میں منہ گھٹنوں میں دے کر بیٹھے رہے۔
وہ تو میں ہی تھی جس نے ابو جی سے کہا۔ چھوڑیں جانے دیں ۔ پھر روٹیاں کون
پکائے گا۔ ابو جی ۔یہ سنتے ہی وہ باہر چلے گئے۔وقاص کو غصہ آ گیا ۔ اس نے
چیخ کر کہا تو کیا کرتا ابوجی سے لڑائی کرتا۔ نہیں کرتے میں نے کب کہا
کرتے۔ میں تو یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ مجھے قوانین نہ سیکھاو۔جو مرد اللہ کے
حکم سے بناتے ہیں ۔ اللہ کا نام لے کر اس معاشرے میں کیا کیا ہو رہا ہے ۔
تم بھی جانتے ہو اور میں بھی۔ جاو اپنا کام کرو۔
وقاص سے اب کوئی جواب نہیں بن پڑا تو اس نے چیخ کر کہا اس جیسی لڑکیاں
دوسرے دن کھا کر واپس آ جاتی ہیں ۔ امی نے وقاص کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے
سے باہر نکالا،بڑی مشکل سے جھگڑا سلجھا دیا۔ امی نے غصے سے کہا یہ فسادی
میرے ہی گھر پیدا ہونی تھی۔ نصرت کا یہ نام اسے تقریباً دن میں ایک بار تو
سننا ہی پڑتا تھا۔مگر وہ کسی صورت ہارنے والوں میں سے نہ تھی۔اگر وہ کسی
وجہ سے کسی معاملے میں خاموشی اختیار کرتی تو اس پر ذیادہ سوچ بچار کے بعد
دوبارہ سے سامنے لاتی - |