نئی نسل اور حالیہ سیاست

 ہماری آئندہ نسل سیاست کے نام سے ہی متنفرہوچکی ہے اور جو متنفر نہیں ہوئی ہے وہ بھی اس تیزی اور روانی کے دور میں پاکستانی سیاست کو چالاکی اور دھوکہ دہی سے تعبیر کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک آرٹ کا درجہ دیتی ہے اور اس آرٹ کو استعمال کرکے جلد از جلد امیر ہونا چاہتی ہے کیونکہ یہ نسل سیاست کے اسی مفہوم سے واقف ہے جو اس نے دیکھا ہے اور یقین مانیے یہ بڑی ہی خوفناک صورت حال ہے اور ہمارے معاشرے کے لئے ایک لمحہ ء فکریہ بھی ہے یوں گماں ہوتا ہے جیسے ہماری آئندہ نسل کا برین واش ہوچکا ہے جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہمارا معاشرہ ہے گر آپ سیاست کے متعلق نئی نسل کو آگاہی دینا چاہیں اور انھیں بتائیں کہ ،، سیاست کا معنی عوام کی فلاح و بہبود اور خدمت کرنا ہے ،، توہماری نئی نسل حیرت سے آپ کا منہ تکنے لگی گی اور کچھ کی تو بعید نہیں کہ ہنسی ہی چھوٹ جائے ،جانتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ آج کی نسل دیکھتی ہے کہ تاجے کے پاس اقتدار میں آنے سے پہلے پھوٹی کوڑی نہیں تھی صرف ایک پھٹپھٹیا موٹر سائیگکل تھی لیکن اب تاجانہ صرف تاج دین بن گیا ہے بلکہ لینڈ کروزر میں گھومتا ہے باہر کے ملکوں میں ہوٹلنگ کرتا ہے ،مختلف بنکوں کے تاج دین صاحب کے پاس کریڈٹ کارڈز ہوتے ہیں ، مسز تاج دین باہر کے ملکوں میں شاپنگ کرتی ہے اور دس دس نوکر چاکر بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تاج دین کے اعلی ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں گھر دریافت ہونا شروع ہو جاتے ہیں جن کا پہلے کبھی گماں بھی نہیں کیا جاسکتا تھااتنے بڑے ٹھاٹ باٹ کے باوجود وہ گھر ان کی بیگم یا اولاد کے نام پرہوتے ہیں کیوں کہ مسز تاج دین وہ ساری جائیداد اپنے ماں باپ سے جہیز میں لے کر آئی ہوتی ہیں ، مسز تاج دین کے ماں باپ اتنے بڑے لینڈ لارڈز ہوتے ہیں کہ ان کا لکڑی کا کاروبار ہوتا ہے انکوائری ہونے کی صورت میں بات حرف با حرف سچ ثابت ہوتی ہے اور انکشاف ہوتا ہے کہ تاج دین کے سسر عرصہ تیس سال سے مسواکیں بیج رہے ہیں۔

ہمارے سیاستدانوں کی حالت یہ ہے کہ بے پناہ اثاثہ جات ہونے کے باوجود انھیں ڈکلئیر کرنے میں دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں کہ کہیں انھیں قومی ٹیکسز کی مد میں بڑی اماؤنٹ نہ ادا کرنی پڑ جائے (یہ وہ سیاسی شخصیات ہیں جو عرصہ دراز سے جمہوریت پر براجمان ہیں )کیونکہ جو اثاثے ڈکلئیر ہوگئے ان پہ تو ٹیکس لازمی پڑے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ پوچھ لیا جائے کہ بھائی اتنے اثاثے اور دولت کہاں سے آئی اور جو نئے سیاسی پرندے کامیاب ہوجاتے ہیں وہ اس ڈر میں رہتے ہیں کہ کہیں ان کا احتساب نہ ہوجائے حالانکہ اس طرح آئین 62/63کی صریحا خلاف ورزی ہے جس کے مطابق مجوزہ سیاستدان صادق اور امین نہیں رہتا اور وہ الیکشن میں پھر حصہ بھی نہیں لے سکتا لیکن ان کو پوچھے گا کون؟ اور پھر ان کا احتساب کیسے ہوگا؟ کیونکہ یہ تو سب پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پہ وائرل ہوچکا ہے کہ اثاثہ جات کو ڈکلئیر کرنے میں سیاستدان کس حد تک دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں اور کتنی خوشنصیب قوم ہیں ہم کہ ان دروغ گو لوگوں میں سے ہم اپنی صاحب اقتدار شخصیات منتخب کریں گے اور جو شخصیات پہلے سے ہی اثاثہ جات میں ہیر پھیر میں طاق ہیں وہ ملکی زرمبادلہ کے ساتھ کیا کیا گل کھلائیں گی شائد کے اب آپ اس بات کا ادراک کرسکیں۔ میرے خیال میں اس بات کو سمجھنے کے لیے اتنی وضاحت کافی ہے کہ عرصہ دراز سے یہی ہورہا ہے۔

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اس دروغ گوئی کا علاج نہیں ہے جو بیشتر سیاستدانوں کو لاحق ہے۔ اس کا بہتریں حل یہ ہے کہ اثاثہ جات ڈکلئیر کرنے میں جو سیاستدان دروغ گوئی کا سہارا لیتے ہیں ان کی زائید جائیدادیں بحق سرکار ضبط کرنے کا قانون پاس کیا جائے اس قانون کو پاس کرنے کی باقائدہ سمری تیار کی جائے اور سینٹ سے اس کو منظوری ملے اور پھر یقین مانئے بیشتر سیاستدان ملکی سیاست میں حصہ لینے سے کترائیں گے لیکن ہمارا نظام بھی تو کمال کا ہے ایسے قانون کو پاس کرنے کے لیے سینٹ کی منظوری ضروری ہے اور سینٹ کے بیشتر ارکان اس قانون کی مخالفت میں ہی ووٹ دیں گے ،وجہ ؟ حمام میں سب ننگے ہیں۔گر وہ ایسا قانون پاس کرنے کی خطاء کر بیٹھے تو کل کو احتساب کی صورت میں ان بے چارے سینیٹرز کو بچانے کون آئے گا اس لیے وہ خود اپنے ہاتھوں سے کبھی بھی اپنے پاؤں پہ کلہاڑی نہیں مار سکتے ، واہ کیا کمال کی جمہوریت ہے سب کے سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عوام بھی اور حکمران بھی ایک جیسے ہیں کیونکہ عوام میں سے جس کو بھی اقتدار کا موقع ملتا ہے وہی معاف نہیں کرتا اور جسے یہ موقع نہیں ملتا وہ دوسروں پہ تنقید کرتا ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ کا فرمان عالی شان ہے ،،عوام میں اس وقت تک ٹیڑھ پیدا نہیں ہوتی جب تک ان کے پیشوا و رہنماء ان سے سیدھے رہتے ہیں،، حضرت عمر فاروقؓادائے فرض کے معاملے میں اپنا یا اپنے کسی رشتہ دار کا لحاظ نہیں رکھتے تھے اس لیے کہ بے غرضی فاروق اعظم ؓکے قریب ہر چیز پر مقدم تھی چنانچہ جس وقت اعمال مقرر ہوتے تھے ان کے مال و اسباب کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا تھااور اگر بعد میں ان میں اضافہ ہوجاتا توان کی امانت و دیانت مشکوک سمجھی جاتی اور وہ صادق اور امین نہ رہتے تھے۔فاروق اعظمؓ پھر ان سے حساب لیتے تھے اور زائد مال ضبط کر لیتے اور فرماتے ،، ہم تمھیں والی بناکر بھیجتے ہیں تاجر نہیں،،۔۔

میں بحیثیت تجزیہ کار کسی ایک سیاسی جماعت پہ نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں پر تنقید کر رہا ہوں کچھ مرے سیاسی بھائی مری تنقید پر برا بھی منارہے ہونگے میرے بھائی گر آپ کو ہر جگہ اپنی سیاسی جماعت،اپنا لیڈر،اپنافرقہ یا اپنی رائے ہی درست لگتی ہے تویقین جانئے آپ کو مزید تعلیم اور رہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارا لیڈر انسان ہوتا ہے فرشتہ نہیں لیکن ہم اپنے لیڈر کے گندے کرموں پر بھی پرردہ ڈالنے میں اپنا فرض عین سمجھتے ہیں اور اپنے لیڈر کا دفاع کرنے کے لیے بعض دفعہ اخلاقی اقدار بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھتے، یہ ہماری شخصیت کا نہایت ہی افسوسناک اور تاریک پہلو ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے لیڈر کو بھی پرکھتے رہیں ان کی سوشل ایکٹیوٹی کا نوٹس بھی لیتے رہیں اور گر کوئی مخالف لیڈر بھی اچھا کام کرے اس کی بھی کھل کے تعریف کریں لیکن ایسی اقدار ہم میں شائد کچھ صدیوں بعد پیدا ہونگی کیونکہ ہم انفرادی سوچتے ہیں کہ بس میرا لیڈر میرا کام کرے کسی اور کا نہ بھی کرے تو مجھے کیا جبکہ، جب تک ہم اجتماعی نہیں سوچیں گے نہ ہمارا معاشرہ ٹھیک ہوگا نہ ہی ہمارے سیاستدان۔
Ghulam Mustafa
About the Author: Ghulam Mustafa Read More Articles by Ghulam Mustafa: 12 Articles with 9460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.