’’ایک قبیلے کے سردار کو کیا دیتے ہو، صرف ایک
پرچی…‘‘ یہ 42 کلومیٹر لمبی سڑک ’’میں‘‘ نے بنائی ہے۔ یہ غرور اور ووٹ کی
عزت کا اعلان کرنے والوں کی جانب سے ووٹر کی تذلیل سے زیادہ اُس نوجوان کی
جرأت مندی تھی جس نے جاگیرداری نظام کو کھلے عام جان ہتھیلی پر رکھ کر
چیلنج کیا۔ اسی دن ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک امیدوار نے پانچ
برس بعد اپنے حلقے میں قدم رکھا تو ووٹر کے سوال پوچھنے پر ’’شیر‘‘ گرج
اٹھا کہ 25 جولائی کے بعد دیکھوں گا۔ کراچی میں بھی چالیس برسوں سے حکومت
کرنے والوں الیکٹیبلز سے جب مایوس ہجوم نے سوال کیا کہ پانی کے کنکشن فروخت
کرکے ہمارے علاقوں کو کربلا بنانے والو، اب کیوں اور کس لیے آئے ہو، تو
ووٹ مانگنے والے کی نظریں شرم و خوف کی وجہ سے جھکی ہوئی تھیں۔ سکندر حیات
بوسن کی جس طرح حلقے نے پذیرائی کی، وہ عبرت ناک تھی۔
کہنے والے تو کہتے ہیں کہ یہ سب مخالفین کی جانب سے مخصوص سوال کرکے
امیدواروں کو مشتعل کرنے اور سوشل میڈیا میں اس قسم کی ویڈیوز وائرل کرانے
کا ایک نیا ٹرینڈ ہے اور یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے۔
سیاست میں تو اپنی حق اور دوسرے کی بات کو رد کرنا ہی سب سے بڑا فن کہلاتا
ہے۔ سیاسی رہنمائوں کی پرانی ویڈیوز بھی دوبارہ وائرل کرانے کا ٹرینڈ چل
نکلا ہے۔ ملک کے دیگر سیاست دانوں کی طرح کراچی کے حوالے سے مصطفیٰ کمال کی
میئرشپ کے دور کی ویڈیوز بھی بڑے منظم انداز میں چلائی جارہی ہیں، جن میں
عباسی ہسپتال میں خواتین کے ساتھ بدکلامی، پارکنگ پلازے میں صحافی کے ساتھ
بدتہذہبی سمیت متعدد اشتعال انگیز ویڈیوز شامل ہیں، جو اَب واٹس ایپ گروپس
اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بڑی تیزی سے وائرل ہورہی ہیں۔ سیاسی
مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کو جب اقتدار ملا تھا تو’ان کے پیر
زمین پر نہیں ٹکتے تھے‘، ان کا رویہ عوام کے ساتھ متکبرانہ تھا۔ مکمل کلین
سوئپ کرنے کے دعوے کرنے والوں کو دوبارہ ’’خدانخواستہ‘‘ اقتدار ملا تو یہ
پھر ہتھے سے اکھڑ جائیں گے۔ قیاس ہے کہ ان کے مخالفین کی جانب سے دوبارہ یہ
ویڈیوز وائرل کی جارہی ہیں۔ اسی طرح ماضی میں کئی ایسے واقعات جو اشرافیہ
سے سرزد ہوتے رہے ہیں، اب دوبارہ سماجی رابطوں کی سائٹس سمیت الیکٹرونک
میڈیا پر بھی دکھائے جارہے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دکھاکر ووٹرز کی ذہن سازی کی
جارہی ہے کہ کیا ہمارے سیاست دان بدل گئے ہیں، ان پر آپ کو یقین ہے؟
ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ہر کس و ناکس کو اپنی رائے دینے کی مکمل
آزادی ہے۔ صاف و شفاف انتخابات کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ضابطۂ اخلاق پر
عمل کیا جائے اور ایسی فضا مرتب کی جائے جو رائے دہندگان کو درست فیصلہ
کرنے میں سازگار ماحول فراہم کرسکے۔ اس وقت تحریک انصاف ٹکٹوں کی تقسیم کے
حوالے سے منقسم ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق یہ پارٹی مکمل طور پر خوش فہمی
کا شکار ہوچکی ہے کہ وہ ملکی وزارت عظمیٰ سے لے کر تمام صوبوں میں دو تہائی
اکثریت لینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ تحریک انصاف بدترین خوش فہمی کا قبل
ازوقت شکار ہوچکی ہے، چونکہ وہ نمبر گیم میں سب سے آگے ہے، اس لیے اب ان
میں حکومتی عہدوں کے لیے ابھی سے شدید تنازعات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔
ملکی انتخابات کس کروٹ بیٹھتے ہیں، کوئی بھی اس حوالے سے درست پیش گوہی
نہیں کرسکتا۔ پاک سرزمین پارٹی کو ہی دیکھ لیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے
ہیں۔ سندھ میں وزارت اعلیٰ اور کراچی میں کلین سوئپ کرنے کے دعوے کررہی ہے۔
پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت سازی کے دعوے اور مسلم لیگ(ن) کے لیے وزرات
اعلیٰ، سینیٹ کی چیئرمین شپ کی طرح حاصل نہ کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ اس کے
برعکس پنجاب میں پی پی پی کی صورتحال سے سب آگاہ ہیں۔ قمر زماں کائرہ کے
مطابق اس وقت پیپلز پارٹی پر مشکل وقت گزر رہا ہے۔ اس لیے ہم مسلم لیگ (ن)
کی طرح پی پی کے لیے بھی ’’مشکل‘‘ وقت سے نکلنے کے لیے دعا گو ہیں۔
یہاں ضمنی طور پر بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کا اجمالی ذکر بھی کرتا چلوں
کہ ہمارے ملک کے سرکاری نظام کے مطابق بیوروکریٹس 17 سال کی ملازمت کے بعد
گریڈ 20 کے لیے اہل ہوجاتے ہیں، پروموشن کا فیصلہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کرتا
ہے، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین بورڈ کے سربراہ ہوتے ہیں اور ان
میںسینئر ترین بیوروکریٹ بورڈ کے رکن ہوتے ہیں۔ بیوروکریٹس کی قطعی طور پر
سیاسی وابستگی نہیں ہونی چاہیے، لیکن اچھی پوسٹنگ اور مراعات کے لیے حکمراں
جماعت کی خوشنودی کا ایسا کلچر متعارف ہوا ہے کہ ملک میں ’صاف و شفاف‘
انتخابات کے لیے بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ معمول بن گئی ہے۔ نگراں حکومت
کے جانے کے بعد بننے والی نئی حکومت دوبارہ بیورو کریسی میں نئی تعیناتیاں
کرتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کیا عوام یہ سوچنے کے لیے تیار ہیں کہ
ریاست کو چلانے والے بیورو کریٹس سیاست زدہ ہیں، جو ہر حکمراں جماعت کے لیے
ریاست کے بجائے اقتدار میں رہنے والی جماعت کے وفادار ہوتے ہیں۔ کیا اس ملک
میں کوئی میکنزم نہیں کہ بیوروکریسی، سیاست میں آلودہ نہ ہو۔
سلیکشن بورڈ میں ملک کے سینئر ترین افسر شامل ہوتے ہیں، ان افسروں نے اے سی
آرز، پروفائل، اہلیت، انٹیلی جنس رپورٹس اور ویجیلنس ونگز کے فیڈ بیک کی
بنیاد پر فیصلہ کرکے نام وزیراعظم کو بھجوانے ہوتے ہیں، لیکن من پسند
افسران کو ترقیاں دینے کا عجب سیاسی سفارشی نظام ہمارے ملک میں چل رہا ہے۔
بیوروکریٹس کی سیاسی وفاداریاں و سیاسی جماعتوں کے ساتھ رجحانات دیکھ کر
فیصلے کیے جاتے ہیں۔ دوسروں لفظوں میں ایک جانب عوام کے نام پر پرانے چہرے
نئے نقاب کے ساتھ مسلط کیے جاتے ہیں تو دوسری جانب ریاست کو چلانے والے
عوام کے ٹیکسوں سے اربوں روپے کی تنخواہ اور مراعات لینے والے انہی سیاست
دانوں کی خدمات کی انجام دہی کے لیے صبح شام سرتسلیم خم کیے ہوتے ہیں۔
اب اگر ان حالات میں کوئی ووٹر ایک جاگیردار، وڈیرے، سردار، ملک، سرمایہ
کار یا خوانین سے غلطی سے پوچھ بیٹھے اور اُس کو جواب ملے کہ اپنے قبیلے کے
سردار کو دیتے ہی کیا ہو، صرف ایک پرچی۔۔۔ تو پھر اس کے بعد ان بیورو کریٹس
سے کون پوچھے گا کہ ٹیکس تو عوام دیتے ہیں لیکن نوکری تم سیاست دانوں کی
کرتے ہو۔ تو کیابیورو کریسی جواب کے لیے تیار ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ
بیورو کریٹ سے وہی سیاست دان پوچھ سکتا ہے جس سے عوام پوچھنے کی طاقت رکھتے
ہوں کہ ہم نے ایک پرچی ووٹ دے کر تمہیں پارلیمنٹ بھیجا، وزیر بنایا، طاقت
ور بنایا، اب تم ہمارے نمائندے بن کر بیورو کریٹس سے پوچھو کہ تم کیا کررہے
ہو۔ عوام گلی محلوں، ہمارے گھروں میں ہم سے سوال پوچھتے ہیں، ہمیں انہیں
جواب دینا ہوتا ہے، تمہیں ہمیں جواب دینا ہوگا۔۔۔ تو پھر یہ نظام یکسر بدل
جائے گا۔ جب تک اپنا حق لینے کی قوت کسی میں نہیں اُس وقت تک وہ ایسا ہاتھی
ہے جو پیروں میں پڑی زنجیر کو توڑنے کی طاقت رکھنے کے باوجود سمجھتا ہے کہ
وہ کمزور ہے اور اس میں غلامی کی زنجیر توڑنے کی سکت نہیں۔
ووٹرز کی جانب سے الیکٹیبلز سے استفسار کے نئے رجحان پر اظہاریہ کرنے کا
مقصد صرف یہی تھا کہ شاید مملکت میں سیاسی بلوغت کا یہ نیا پودا، آنے والے
وقت میں تناور درخت بن سکے۔ اس حوالے سے ایک تجویز یاد آگئی جو الیکشن
ریفارم کمیٹی کو سفارش کی گئی تھی کہ ووٹر کے پاس اس کا بھی حق ہو کہ حلقے
میں اگر کوئی امیدوار اس کے معیار کے مطابق نہیں تو وہ اُسے مسترد کرسکے۔
اس طرح ووٹس زیادہ ہونے پر اس نشست پر انتخاب کالعدم قرار دے دیا جائے۔
بھارت سمیت کئی ممالک میں بیلٹ پیپر میں نوٹا کی سہولت دی گئی ہے جس کے
ذریعے اگر کسی بھی امیدوار کو کوئی ووٹ نہ دینا چاہے تو وہ نوٹا پر نشان
لگادیتا ہے، بیلٹ پیپر پر نوٹا کا آپشن ہر ووٹر کا بنیادی جمہوری حق ہے،
یہ بڑی صائب اور مثبت تجویز تھی۔ لیکن سیاسی جماعتیں جانتی تھیں کہ عوامی
امنگوں کے مطابق امیدوار مسلط کیے جاتے ہیں، اس لیے انہیں سخت شرمندگی کا
سامنا ہوسکتا ہے، لہٰذا اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دے دیا گیا اور الیکشن
کمیشن نے بھی اس پر دوبارہ زور نہیں دیا۔ ایک پرچی، یعنی ووٹ کی طاقت کا
اندازہ ووٹرز کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو ہے۔ اگر کوئی اپنے ووٹ کی
طاقت کو نہیں جانتا تو وہ صرف ووٹر ہے۔ نوٹا کا آپشن ایک جمہوری حق ہے، جس
سے عوام کو محروم رکھا گیا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں نوٹا کا آپشن
کیوں نہیں۔ |