موت اٹل حقیقت ہےکسی کو اس سے انکارنہیں اور کسی صورت اس
سےمفر نہیں مگر بہت سے جانے والے اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جن کی وجہ
سے دیرتک انہیں یاد کیا جاتا رہتا ہے، نام لئے جاتے رہتے ہیں بلکہ جب جب
زبان پہ ان کا نام آتا ہے ذکرخیر ہوتاہے اور دعائے مغفرت ہوتی ہے۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
چند دن پہلے کی بات ہے پروفیسر میر احتشام علی طائف سعودی عرب میں موجود
تھےاور تقریبا پانچ سالوں سے طائف یونیورسٹی میں شعبہ آئی ٹی سے منسلک ہوکر
اپنا فریضہ انجام دے رہے تھے اچانک اس یونیورسٹی سے کئی پروفیسر وں کو
برخواست کیا گیا ان میں سے ایک آپ بھی تھے ۔ بچوں کے ساتھ یہاں خوشحال
زندگی گزاررہے تھے ۔یونیورسٹی کے اس فیصلے سےاچانک سب کچھ بدل گیا اور بچوں
کے ساتھ اپنا وطن رخت سفر بادھنے پر مجبور ہوگئے۔ 21/ جون 2018 بروز جمعرات
بذریعہ سعودی ایرلائنس جدہ سےحیدرآباد کا سفر ہوا ۔ جمعہ کو صبح سویرےبچوں
کے ساتھ اپنے گھر صحیح سلامت پہنچ گئے تھے ۔ جمعہ گزرا، ہفتہ گزرا ، اتوار
بھی گزرا۔ 25/ جون سوموار کو سرے شام سینے میں شدید درد اٹھا، فورا
ایمبولینس منگاکر ہاسپیٹل لے جایا گیا وہاں ڈاکٹروں نے نبض دیکھ کر میت
قرار دے دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
موت کسی بہانے آتی ہے مگر حقیقت میں وہ اپنے وقت پر آتی ہے۔ ڈاکٹروں نے دل
کا حملہ قرار دیا ہے جو حالیہ صدمہ کے عوض لاحق ہواہو۔
اللہ کی طرف سے تمام نفس کے لئے اس کی موت کا وقت متعین ہے اور اسی وقت
متعین پر موت کا فرشتہ اپنے مالک کے حکم سے کسی کی روح قبض کرتا ہے ۔اس سے
لمحہ بھر نہ آگے اور نہ لمحہ بھر پیچھے عین وقت مقرر پر قفص عنصری سے روح
پرواز کرتی ہے۔ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ، شاید اس کے پیچھے ہمارے
خالق ومالک کی یہ حکمت رہی ہو کہ آدمی ہمہ وقت آخرت کی تیاری میں لگارہے
۔اس لئے ہمیں کبھی موت سے غافل نہیں ہونا چاہئے ،موت کو کثرت سے یاد کرکے
آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا چاہئے ۔ یہ دنیا کیا ہے اور اس کی شی کیا ہے؟
سبھی فانی ہیں ۔
میر احتشام علی صاحب بڑے نیک، ملنسار،دوسروں کا خیرخواہ اور دعوت وتبلیغ سے
جڑے ہوئے تھے ۔ یونیور سٹی کے پروفیسر ہونے کی باوجود طائف دعوۃ سنٹر سے جڑ
کر دعوت کا فریضہ بھی انجام دیتے ، جالیات کے پروگراموں میں پیش پیش رہا
کرتے ،بچوں کا پروگرام یہی سنبھالتے ان کے لئے دینی سوالات تیار کرتے اور
انگریزی میں سوال وجواب کیا کرتے ۔ موصوف نےاس سنٹر سے دعوۃ کورس(EIECC) کی
تربیت بھی حاصل کی تھی بلکہ دعوت سے پہلے بنیادی علوم کورس بھی پاس کئے تھے
جن میں قرآن، حدیث ،عقیدہ اور احکام شامل ہیں ۔
دینی علوم کے علاوہ آپ نے حیدرآباد دکن سے بیچیلر اور امریکہ سے ماسٹر ڈگری
پاس کیا تھا۔ زندگی کی لگ بھگ اڑتیس بہاریں دیکھ چکے تھے ۔ لمبے تڑنگے اور
صحت مند وخوبصورت اوصاف کے حامل تھے ۔ نیزدین وعقیدہ، علم ومعرفت ، اخوت
ومحبت ، صدق ووفااور پیکرجودوسخا سے مزین تھے ۔
طائف دعوۃ سنٹر کے داعی شیخ رحمت اللہ بالی اور ڈاکٹر فیاض الدین صاحب کے
ساتھ اکثر اوقات رہا کرتے ، دین سے محبت کرتے اور دعوتی امور میں ان کی
بھرپور مدد کیا کرتے تھے ۔ آج ان کی دینی خدمتوں سے طائف والے محروم
ہوگئےمگر ان کی یادیں لوگوں پر مہربان رہیں گی،وہ اپنی خوبیوں کی وجہ سے
اپنے حلقوں میں سدا یاد کئے جاتے رہیں گے ۔ طائف کے تمام دعاۃ بطور خاص شیخ
بالی صاحب اور ڈاکٹر صاحب دونوں شکریہ کے حقدار ہیں جنہوں نے پروفیسر صاحب
کواپنے سنٹر سے وابستہ کرکے دین ودعوت اور عقیدہ ومنہج سے مالا مال کیا ۔
آج ہی 26/ جون ظہر بعد حیدرآباد کی صفہ مسجد ٹولی چوکی تلنگانہ میں جنازہ
کی نمازادا کی جائے گی اور سپردخاک کیا جائے گا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزه نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اللہ تعالی موصوف کی بشری خطاؤں کو معاف فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل
اور غیبی امداد عطا کرے، جملہ دینی خدمات کوشرف قبولیت سے بخشے، آپ کی
قبرپہ رحمت وفضل کی بارش برسائے، برزخی زندگی میں جنتی نعمتوں سے نوازےاور
آپ کے لئے جنت کا راستہ آسان بنائے ۔ آمین
|