جو گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے، فرشتے اس سے محبت کرتے ہیں، حضرت ابوہریرہؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل پر ایک
کا لادھبہ لگ جاتا ہے۔ اور پھر اگر تو برو استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو
جاتاہے اور اگر گناہ میں زیادتی کی تو وہ کالا دھبہ پھیلنا جاتا ہے۔ یہاں
تک سارے دل کو گھیر لیتا ہے۔
(احمد۔ ترمذی)
گناہ کے کئی معنی ہیں,مثلا.خطا، قصور، لغزش۔وغیرہ
ایسا فعل جس کا کرنے والا مستحق سزا ہو، جرم، ناپسندیدہ فعل، فعل ممنونہ،
بری بات۔وغیرہ.شرع ایسا فعل کرنا کہ جو شرعا ممنوع ہو اور کرنے والا عذاب
کا مستوجب ہو، حکم خدا, اور رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنا، نافرمانی کرنا۔
طریقت اپنے آپ کو دنیا میں منہمک رکھنا اور حق سے غافل ہونا۔مذاہب میں غیر
اخلاقی کام انجام دینے کو گناہ کہا جاتا ہے۔ قدیم مذاہب میں گناہ کا تصور
نہیں تھا اس لیے کہ اچھائی اور برائی اور پھر اس دنیا کے بعد کی ابھی کوئی
واضح تصویر ذہنوں میں قائم نہیں ہوئی تھی۔ ان مذاہب میں جہاں خدا کا تصور
ہے اور اس کی بندگی افضل ہے مثلاْ یہودیت، مسی یا اسلام ان میں گناہ کا
تصور واضح ہے
ایک گناہ کرنے سے دوسرے گناہ اور اس طرح گناہ پر گناہ کرنا عادت بن جاتی ہے۔
گناہوں کے آثار انسانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ اور گناہوں کی وجہ سے طرح
طرح کے مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پرٹا ہے۔ حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ
رسولہ اللہ ﷺ نے فرمایا ! اپنے آپ کو گناہوں سے بچاؤ کیونکہ گناہ کرنے سے
اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک
آدمی گناہ کے سبب سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے (مسنداحمد)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أَنْ
تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہُوَ خَلَقَکَ. قَالَ: قُلْتُ لَہُ: إِنَّ
ذٰلِکَ لَعَظِیْمٌ. قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ: ثُمَّ أَنْ
تَقْتُلَ وَلَدَکَ مَخَافَۃَ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ. قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ
أَیُّ؟ قَالَ: ثُمَّ أَنْ تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ./strong>
حضرت عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے؟ آپ نے
فرمایا: یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، جبکہ اس نے تمھیں پیدا
کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے آپ سے عرض کی: یہ تو واقعی بڑا گناہ ہے۔ وہ
کہتے ہیں: میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: تو اپنی اولاد کو اس
اندیشے سے قتل کردے کہ وہ تمھارے کھانے میں شریک ہو گی۔ وہ کہتے ہیں: میں
نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: پھر یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے
ساتھ زنا کرے۔
اب اگر ہم یہ سوچیں کہ وہ کونسی چیز تھی جس نے ابلیس کو راندہ ردگاہ کیا۔
کیا وہ نافرمانی نہیں تھی؟وہ کونسی چیز تھی جس نے نوحؑ کی قوم کو غرقاب
کیا! وہ کونسی چیز تھی جس نے قوم عاد پرباد تند کو مسلط کر دیا ؟ وہ کونسی
چیز ہے قو م فرعون کو بحر قلزم میں غرق کر دیا؟ قوم ثمود پر چیخ آئی، قوم
لوط کی بستیاں اجڑ گئیں، قارون زندہ درگوہ ہو گیا ؟ تو میرے ہم وطنو! تاریخ
اسلامیہ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان تمام عذابوں کا سبب نافرمانی
اور گناہ تھا۔ یہ آخری امت ہے اس لیے اس پر یکبارگی عذاب تو مسلط نہیں ہوتا
مگرہر انسان کو انفرادی طور پر اس کے گناہ کرنے پر سزا ملتی ہے۔ حضرت انسؓ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو تمہاری بیماری اور دوا
نہ بتلادوں؟ سن لو کہ تمہاری بیماری گناہ ہے اور تمہاری دوا استغفار ہے۔
(بیہقی، ترغیب) ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! دلوں
میں گناہوں کی وجہ سے ایک قسم کا زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی صفائی استغفار
ہے(ترغیب، بیہقی، حیاۃ المسلمین) گناہ کرنے کی وجہ سے جو نقصانات ہوئے اور
ہمارے اکابر نے جن کا ذکر کیا ہے ان میں چند ایک یہ ہیں۔ ۱۔ علم کی محرومی،
۲۔ رزق میں کمی۔ ۳۔ نیک لوگوں سے وحشت۔ ۴۔ اخلاق کی خرابی ۔ ۵۔گناہ سے
تقویٰ کی راہیں بند۔ ۶۔ دل میں تاریکی۔ ۷۔ جسمانی اور قلبی کمزوری۔۸۔ عمر
میں کمی۔ ۹۔ لگاتار گناہ سے تونہ کی توفیق سلب۔ ۱۰۔ رسول اللہ ﷺ کی لعنت
میں داخل ہونا۔ ۱۱۔ دلوں کا اطمینان ختم ۔۱۲۔ نعمتیں سلب۔ ۱۳۔ حیاء شرم ختم
۔ ۱۴۔ امام شافعی ؒ نے اپنے استاد سے حافظہ کمزوری کی شکایت کی تو انہوں نے
فرمایا کہ علم اللہ کا فضل ہے اور اللہ فضل گناہ گار کو حاصل نہیں ہوتا ۔
اور ان کے استاد امام وکیعؒ نے گناہ چھوڑنے کی وصیت فرمائی کیونکہ علم اللہ
کا نور ہے۔ اور اللہ کا نور گناہ گار کو نہیں دیا جاتا ۔ امام مالک ؒ نے
امام شافعی ؒ سے فرمایا! میں دیکھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل میں
ایک نور ڈالا ہے تو تم اسے گناہ کی تاریکی سے مت بجھانا ۔
قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَیُّ
الذَّنْبِ أَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أَنْ تَدْعُوَ لِلّٰہِ نِدًّا
وَہُوَ خَلَقَکَ. قَالَ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ: أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ
مَخَافَۃَ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ. قَالَ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ: أَنْ
تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ
تَصْدِیْقَہَا: ’وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ
وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ
وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا‘.
حضرت عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول
اللہ، اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
فرمایا کہ تو اللہ کا ہم سر ٹھہرائے، حالاں کہ اس نے تمھیں پیدا کیا ہے۔ اس
نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار دے
کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ اس نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ
تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے (الفرقان ۲۵: ۶۸
میں) آپ کے فرمان کی تصدیق بھی نازل فرما دی: ’’وہ جو اللہ کے ساتھ کسی
دوسرے الٰہ کو نہیں پکارتے اور نہ کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ
نے حرام قرار دیا ہے، مگر یہ کہ حق قائم ہو جائے اور نہ زنا کرتے ہیں اور
جو یہ کرتے ہیں، وہ اپنے گناہوں کے انجام سے دوچار ہوں گے.
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بدی سے چہرہ بے رونق ، قبر اور قلب
میں ظلمت، بدن میں سستی، رزق میں تنگی اور لوگوں کے دل میں اس سے بغض ہوتا
ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ! خدا کی
قسم میں استغفار کرتاہوں اللہ تعالیٰ سے اور اسکی طرف رجوع کرتا ہوں ایک دن
میں ستر مرتبہ سے زیادہ (فروغ الایمان بہیقی)۔ ہمارے اکابر بیان کرتے ہیں
کہ ہر گناہ دشمنان خدا میں سے کسی کی میراث ہے، یعنی ہر گناہ دشمنان خدا
میں سے کسی ایک کی میراث ہے تو گویا یہ شخص گناہ کرکے ان کا وارث بن جاتا
ہے۔ جیسے لواطت قوم لوط کی میراث ہے۔ ناپ تول میں کمی قوم شعیب کی میراث ہے
تکبر قوم ہود کی میراث ہے۔ اور علماء حق (علماء دیوبند) بیان فرماتے ہیں کہ
اللہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا قیامت کے
دن اس کا اس قوم کے ساتھ حشر ہوگا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ اس کے بھائی کا کوئی حق ہو۔ آبرو
کا یا کسی اور چیز کا اسکو آج معاف کر الینا چاہیے۔ اس دن سے پہلے کر نہ
دینار ہوگا نہ درہم (یعنی قیامت کا دن)ورنہ نیک عمل اس کے حق کے بقدر لے
لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو دوسرے کے گناہ اس پر لا
دیئے جائیں گے۔ (مسلم ) تو میرے ساتھیو! گناہ کی وجہ سے انسان فرشتوں کی
دعا سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ان کے لیئے اللہ
کی بتائی ہوئی راہ پر چلتے ہیں۔ زمین پر گناہ کی وجہ سے فساد کا سبب نہیں
بنتے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور جسے تم لوگوں
کے سامنے بتانا نا پسند کرو۔ (مسلم)
قرآن مجید میں اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
وَمَن يَعْمَلْ مِنَ ٱلصَّٰلِحَٰتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ
مُؤْمِنٌۭ فَأُو۟لَٰٓئِكَ يَدْخُلُونَ ٱلْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ
نَقِيرًۭا ﴿124﴾
ترجمعہ: اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہوگا
تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہ کی
جائے گی۔(سورہ النساء،آیت 124)
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور جب ان لوگوں سے كوئى فحش اور ناشائستہ كام ہو جائے، يا كوئى گناہ كر
بيٹھيں تو فورا اللہ تعالى كا ذكر اور اپنے گناہوں كے ليے استغفار كرتے
ہيں، فى الواقع اللہ تعالى كے سوا اور كون گناہوں كو بخش سكتا ہے؟ اور وہ
لوگ باوجود علم كسى برے كام پر اڑے نہيں رہتے، يہى ہيں جن كا ان كے رب كى
جانب سے مغفرت اور جنتوں كى شكل ميں بدلہ ملےگا، جس كے نيچے سے نہريں جارى
ہيں، جن ميں وہ ہميشہ رہيں گے، ان نيك كاموں كے كرنے والوں كا ثواب كيا ہى
اچھا ہے ﴾آل عمران ( 135 - 136 ).
ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
﴿قولہ: اور وہ علم ركھتے ہوئے برے كام پر اصرار نہيں كرتے﴾.
يعنى: وہ جلد ہى اپنے گناہوں سے توبہ كرتے اور اللہ تعالى كى طرف رجوع
كرليتے ہيں، اور وہ معصيت اور گناہوں كا ارتكاب جارى نہيں ركھتے بلكہ وہ
اسے چھوڑ ديتے ہيں، چاہے ان سے وہ گناہ بار بار ہو وہ توبہ كرليتے ہيں.
حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا! نہیں نازل ہوئی کوئی بلامگر بسبب گناہ کے اور
نہیں دور ہوتی کو مصیبت مگر بسبب توبہ کے۔ گناہ کرنے سے بُرے القاب ملتے
ہیں جیسے فاسق، فاجر، عاصی، مخالف مسیء مقصد، خبیث مخوط ، زانی ساری، قاتل
کاذب فائن لوطی ، قاطع، رحم، تکبر، ظالم ملعون وغیرہ ، گناہ کرنے والے پر
شیطان مسلط ہو جاتا ہے۔ پھر جس طرح چاہیے اس ہی تصرف کرتے ہوئے اس کے تمام
اعضاء کو گناہ میں لگاتے ہیں۔ تو میرے بھائیوں مسلمان ہوتے کے ناطے ہمیں ان
تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے توبہ کرنی ہوگی اگر توبہ کرے گئے تو امن ہوگا اور
یہ امن صرف ہماری زندگیوں میں ہی نہیں بلکہ اس کے اثر سے پورے کا پورہ
معاشرہ اور یہ ملک امن کا گہواہ بن جائے گا اللہ سے دعا ہے کہ اللہ مجھے
اور آپ کو ان تمام منکرات سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے. (آمین)
|