انتخابات میں منشور کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ تیسری دنیا
میں گو کہ اس کا رواج نہیں۔ مگر سیاسی پارٹیاں منشور ضرور سامنے لاتی ہیں۔
اگر چہ یہ سب علامتی ہی ہو۔ پیپلز پارٹی کا منشور 2018پرنٹنگ پریس میں ہے۔
24صٖحات پر مشتمل منشور میں ووٹر کے لئے جامع پالیسی پیش کی گئی ہے۔ نعرہ
وہی پرانا ہے روٹی، کپڑا اور مکان، تا ہم اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کیا
گیا ہے تا کہ یہ کسی غزل کا ایک خوشنما شعر محسوس ہو۔ اس کا وزن بھی ایسا
ہی ہے۔ دوسرا مصرعہ یہ ہیـ،ــتعلیم ، صحت، سب کو کام۔ کشمیر کے حوالے سے
منشور خارجہ پالیسی کے زمرے میں آتا ہے۔ یعنی کشمیر کو پاکستان کی خارجہ
پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے اپنی داخلہ پالیسی
کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ گزشتہ برس سے کشمیر کے حوالے سے ایک مذکرات کار
دنیشور شرما کا تقرر بھی بھارت کی وزارت داخلہ نے کیا۔ وہ ان ہی سے ہدایت
لیتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔ ایسا اس لئے کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ
قرار دیتا ہے۔ کشمیر کو پاکستان بھی اپنی شہ رگ سمجھتا ہے مگر یہ پالیسی
کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں صرف عوام کے ہاضمہ کے لئے ہے۔ یعنی کشمیر ایک ملک
کی خارجہ اور دوسرے کی داخلہ پالیسی کا اہم جز ہے۔ پاکستان کے عام انتخابات
کو ایک ماہ رہ گیا ہے۔ کشمیری بھی ان میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور ان کا
حصہ بنتے ہیں۔ جو کشمیری پاکستان کے مختلف شہر و دیہات میں رہتے ہیں۔ وہ
دوہری ووٹنگ کا حق استعمال کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی اور
پاکستان کے انتخابات میں بھی۔ اسی طرح پاکستان کی قومی پارٹیوں نے اپنا
کشمیر کا سیٹ اپ تشکیل دیا ہے۔ آج آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔
اہم فیصلے رائیونڈ میں کئے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اہم راہنماؤں نے آزاد
کشمیر میں اپنے امیدواروں کے حق میں مہم چلائی۔ اس سے قبل پی پی پی نے بھی
ایسا ہی کیا۔ گزشتہ عرصہ میں پی پی پی کی حکومت تھی۔ مگر فیصلے بلاول ہاؤس
میں ہی ہوتے تھے۔ آج پاکستان کے انتخابات میں آزاد کشمیر کے سیاستدان اپنے
امیدواروں کی مہم چلا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ریاستی مشینری بھی ان انتخابات
میں استعمال کی جاتی ہے۔ ماضی میں ایسا ہوا ہے۔
پی پی پی کے منشور میں کہا گیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ مکمل اور
مسلسل یک جہتی کا اظہار کرے گی ۔یہ اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت ہے۔ تا
کہ کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کیا جا سکے۔ مسلم لیگ ن مسلہ کشمیر کو
متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور 1999کے اعلان لاہور، خطے کے عوام کی
خواہشات جو کہ حق خودارادیت کے حوالے سے ہیں، اس بارے میں خصوصی کوششیں
کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ پر امن بقائے باہمی چاہتی
ہے اور جو برابری اور تصفیہ طلب تنازعات کے حل کے لئے ہو۔ وہ کشمیر کی
فریڈم جدوجہد کی حمایت کرتی ہے۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ وہ تمام ممالک
خاص طور پر پڑوسیوں کے ساتھ قریبی، دوستانہ اور باعزت تعلقات کا فروغ چاہتی
ہے۔ تمام تنازعات اور کنفلٹس بات چیت اور پر امن طریقوں سے حل کرنا چاہتی
ہے۔ مسلہ کشمیر بامعنی، پر خلوص اور باعزت ڈائیلاگ سے کشمیری عوام کی
خواہشات کے مطابق حل کرنا چاہتی ہے۔۔ وہ بھارت کے ساتھ اعتماد سازی کے
اقدامات یا سی بی ایمز اور بات چیت کے عمل کی حوصلہ افزائی چاہتی ہے اور
جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ امن اور قریبی تعاون چاہتی ہے۔ اے این پی
پڑوسیوں کے ساتھ خاص طور پر دوستانہ اور پرامن تعلقات کا دعویٰ کرتی ہے۔ وہ
کہتی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ پر امن، تعاون پر مبنی اچھے پڑوسیوں والے
تعلقات کی تشکیل چاہتی ہے۔ جو کہ پہلی ترجیح ہے۔ تمام ایشوز بشمول جموں و
کشمیر پر امن بات چیت اور کھلے ڈائیلاگ سے حل کرے گی۔ مسلم لیگ کیو کا دعویٰ
ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتی ہے اور ان کے کاز کی
مکمل حمایت کرتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کہتی ہے کہ کشمیر اور فلسطین اس کی
خارجہ پالیسی کے کور نکات ہیں۔
یہ سب نکات پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے ہیں جو کشمیر کے بارے میں پالیسی
بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں اے این پی اور ایم کیو ایم نے اپنی پالیسی میں
بھارت کے ساتھ تعلقات اور مسلہ کشمیر کے حل سے متعلق خصوصی موقف اپنایا ہے۔
کشمیری پاکستان کی سیاست اور سیاستدانوں کے ساتھ علاقائی یا پارٹی کی سطح
پر تعلقات بناتے ہیں۔ ان سیاسی وابستگیوں کے کشمیر کاز پر زیادہ منفی اثرات
مرتب ہوتے ہیں۔ مسلہ کشمیر کے حل کے لئے کسی وابستگی سے بالا تر ہو تعلقات
قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلہ کشمیر کے حل کے لئے سب کے تعاون کی ضرورت ہے۔
بھانت بھانت کی بولیاں اور صرف سیاست چمکانے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔
کشمیری کسی ایک سے وابستہ ہو کر دوسروں سے دوری اختیار کریں تو اس سے مثبت
نتائج حاصل کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ آپسی خلفشار میں فریق بننے کے
بجائے کشمیریوں کو پل کا کردار ادا کرنا چاہیئے تا کہ پاکستان کی سیاست میں
کشمیریوں کے مثبت کردار کی عکاسی ہو سکے۔ اسی طرض پاکستان کی خارجہ پالیسی
سمیت کشمیرداخلہ پالیسی میں بھی اہم کردار ادا کر سکے گا۔ |