ایوین فیلڈ ریفرنس کیس میں میاں محمدنواز شریف اورمریم نواز کو بڑی سزا

میاں محمد نواز شریف ولادت 25دسمبر1949ء لاہورپاکستان کے سابقہ وزیر اعظم اور پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء ، 1997ء تا 1999ء اور آخری بار ء 2013 تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان پر رہے اس سے پہلے 1985 تا 1990 وزیر اعلیٰ پنجاب رہے نواز شریف ایک درمیانی امیر گھرانے شریف خاندان میں پیدا ہوئے اتفاق گروپ اور شریف گروپ کے بانی میاں محمد شریف ان کے والد اور تین بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے شہباز شریف ان کے بھائی ہیں نواز شریف نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے تجارت کی تعلیم اور 1970ء کی دہائی کے آخر میں سیاست میں داخل ہونے سے پہلے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی 1981ء میں محمد ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دوران میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔بعدازاں ضیادور میں وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے جس پر دوبارہ مارشل لا کے بعد 1988ء میں منتخب ہوئے 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کی جس پر فتح ملی اور وزیراعظم بنے۔ بعد میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی نے نواز شریف کے حق میں انتخابی عمل میں لاکھوں روپے کی رشوت سیاست دانوں میں تقسیم کی پہلی شریف انتظامیہ کو غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا جس پر نواز شریف نے عدالت عظمیٰ پاکستان سے رجوع کیا15 جون 1993ء کو منصف اعلیٰ نسیم حسن شاہ نے نواز شریف کو بحال کر دیا نواز شریف نے جولائی 1993ء میں ایک معاہدے کے تحت استعفا دے دیا جس کے باعث صدر کو بھی اپنا عہدا چھوڑنا پڑا نواز شریف فروری 1997ء میں بھاری اکثریت سے دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوئے اورانہیں اکتوبر 1999ء میں جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف نے عہدے سے ہٹا دیا جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں آغازسے ہی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا رہاا س احتجاج میں ڈاکٹر طاہر القادری اورعمران خان دونوں شامل تھے یہ احتجاج دھاندلی کی تحقیق کے لیے کمیشن بنانے کے لیے کیا گیا احتجاج بہت شدید تھا بلاشبہ متحدہ اپوزیشن کی باہمی رضامندی کے ساتھ پارلیمنٹ اور سینٹ کے جوائنٹ سیشن کے ذریعے اس احتجاج کو جمہوریت کے خلاف منظم سازش قرار دیتے ہوئے ناکام بنا دیا گیا ابھی سابقہ احتجاج کا خوف زائل نہیں ہوا تھا کہ پاناما پیپرز میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام شامل تھے۔ ڈیٹا کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نواز کئی آف شورکمپنیوں کے مالکان تھے ۔ ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کیا گیاجس کو مسلم لیگ نواز نے رد کردیا۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں تحقیقات کیلئے ٹی اوآرز بنانے کیلئے کوشش کرتی رہیں لیکن حکومت کا اصرار تھا کہ احتساب کا عمل سب سے شروع ہونا چاہیے جبکہ اپوزیشن کا اصرار تھا کہ صرف وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کا پہلے احتساب ہونا چاہیے بعدازاں اس حوالے سے عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد سمیت دیگر افراد نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا اس پر اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جما لی کی سربراہی میں پہلی مر تبہ یکم نومبر 2016 کو پاناما کیس کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل دیا گیا، کچھ روز سماعت کے بعد سابق چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ کی وجہ سے یہ بینچ ٹوٹ گیا اس کے بعد نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے کیس کی سماعت کی اور سماعت مکمل کر نے کے بعد 20 اپریل 2017 کو اپنا فیصلہ سنایاپانچ رکنی بینچ کے تین ججوں نے پاناما پیپرز کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ سنایا جبکہ دو ججو ں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو صادق اور امین قرارنہ دیتے ہوئے نا اہل قرار دیابعدازاں جے آئی ٹی کی دس جلدوں پر مشتمل تحقیقات سامنے آنے کے بعد28 جولائی 2017ء سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کے بعد اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ۔کرپشن کی مزید تحقیقات کے لیے کیس نیب کے حوالے کردیا گیا ۔ایوین فیلڈ ریفرنس کیس میں میاں نواز شریف سے 127سوالات پوچھے گئے ۔ایوین فیلڈ ریفرنس کیس کی 107سماعتیں ہوئیں اور میاں محمدنواز شریف اورمریم نواز 78مرتبہ نیب عدالت میں پیش ہوئیں ۔سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف ، ان کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کے خلاف 8 ستمبر 2017 کو عبوری ریفرنس دائر کیاگیا تھا جس میں انہیں ملزم نامزد کیا،ریفرنس پر 14 ستمبر 2017 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے پہلی سماعت کی اور لگ بھگ ساڑھے 9 ماہ بعددن بھر انتظار کرنے کے بعد6جون2018 سہ پہر ساڑھے چار بجے فیصلہ سنادیا گیا۔ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں مجموعی طور پر 18 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔احتساب عدالت نے سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں بڑا فیصلہ سناتے ہوئے ان کو 10 سال قید 8 ملین پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنا ئی ہے جبکہ صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال قید2 ملین پاؤنڈ جرمانہ اور ان کے خاوند کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔عدالت نے ایوین فیلڈ اپارٹمنٹس کو ضبط کرنے اور مطلوبہ پراپرٹی کو فروخت کر کے قومی خزانے میں جمع کروانے کا بھی حکم دیا ہے۔مریم نواز اورکیپٹن صفدر کو 10سال کے لیے نااہل قراردے دیا گیا ۔جبکہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اورانکی بیٹی اورداماد کے پاس ایک ماہ کا وقت ہے جس میں وہ احتساب عدالت کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں ۔پی ٹی ائی کے سربراہ عمران خان نے فیصلے کو پاکستان کی فتح قرار دیا اورمزید کہا کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ بڑے ڈاکوؤں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے ۔کرپشن نے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے پاکستان کا ہربچہ مقروض ہوچکا ہے مزید کہا کہ میں اس فیصلے پر اﷲ تعالیٰ کا خاص شکر ادا کرتا ہوں دیگر رہنماؤں نے ملے جلے الفاظ میں اپنا ردِ عمل جاری کیا جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اورکارکنان نے فیصلے کو سوچی سمجھی سازش قرار دیا ۔باالفاظ دیگر ایوین فیلڈ ریفرنس کیس کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ نواز بے حال اورتحریک انصاف نہال ہوچکی ہے ۔ایک طرف بھنگڑے مٹھائیاں اور شادیانہ بج رہے ہیں تودوسری طرف ماتم ،شکوہ اور اعتراضات کیے جارہے ہیں ۔یقینا مسلم لیگ نواز کے لیے یہ بہت بڑا جھٹکا ہے اور میاں نواز شریف کی سیاست کالی کوٹھڑی میں بندہوچکی ہے اور مسلم لیگ نواز اقتدار کے ایوانوں سے دور ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔مسلم لیگ ن اپنا اقتدار کیسے بحال کرے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہے ۔البتہ مسلم لیگ ن کے قائدین کو چاہیے کہ اپنے کارکنان کو امن کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کریں اور اپنے دفاع کے لیے قانونی راستہ اختیار کریں ۔ایسا کرنے میں پاکستان اورمسلم لیگ نواز کی بہتری ہے ۔یقینا مسلم لیگ نواز پاکستان کی بڑی جماعت ہے ۔بڑی جماعت ہونے کا بڑا ثبوت یہی ہے کہ عدالت کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے ۔بصورت دیگر عدالت کے خلاف بدزبانی پر نہال اوردانیال کی مثال موجودہے ۔یقینا قانون کی حکمرانی کے ذریعے ہی پاکستان کو مضبوط اورمستحکم کیا جاسکتا ہے ۔

Rashid Sudais
About the Author: Rashid Sudais Read More Articles by Rashid Sudais: 56 Articles with 66079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.