پاکستان میں ہمیشہ قانون کی عملداری صرف غریبوں کے لیے
رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں غریب پر قانون لاگو ہوتا ہے اور امیر قانون کی
عملداری ہونے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا۔ عوام کے خون کو چوس کر جائیدادیں
بنا کر خود کو سیاسی جماعت سے منسلک کرکے خود کو بچاؤ کا ڈھونگ رچالیتے
ہیں۔سیاست کے اندر پناہ لینے والے یہ لُٹیرے پچھلے ستر سالوں سے عوام کا
استحصال کر رہے ہیں۔سیاست میں کاروباری افراد اور جاگیر دار وڈیرے بطور مشن
کے وابستہ ہیں کہ اپنے کاروبار اپنی زمینوں جائیدادوں کو تحفظ دیں اور
قانون اُن کا بال بیکا نہ کر سکے۔
بدقسمتی سے فوج کے سابق جرنیل اور سابق بیوکرویٹ بھی اِس دھندے میں ملوث
ہیں۔ پاکستان میں موجود جائیدادیں اور پاکستان سے باہر کے ممالک میں موجود
پاکستانیوں کی جائیدادوں کا اگر سروے ہو تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں
ہوجاتی ہے کہ سیاستدان ، سابق فوجی، سابق بیوروکریٹ قوم کا استحصال کرنے
میں پیش پیش ہیں۔جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مقولے کی عمل داری کے تحت
کرپشن میں ملوث سابق فوجی جرینل اور سابق بیوکریٹ قانون کے شکنجے میں نہیں
آتے ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ یوں پاکستان
میں قانون کی عمملداری کے بخیے اُدھیڑنے میں سیاستدانوں، سابق فوجیوں اور
بیوروکریٹوں کا مکمل ہاتھ ہے۔ سارے فوجی اور سارئے سیاستدان اور سارئے
بیوروکریٹ کرپٹ نہیں ہیں ۔ لیکن یہ ٹرائیکا طاقتور ہے اِس لیے ملک کی دولت
لوٹنے والوں میں اِس ٹرائیکا کا ہی کردار ہے۔ ایوب ، ضیاء کا مارشل لاء اور
مشرف کی حکومت ، ان ادوار میں نوکر شاہی اور سابق فوجیوں کو خوب نوازا گیا
حتی کہ مارشل لاء کو دوام بخشنے کی خاطر نام نہاد سیاستدانوں کو رام کرنے
کے لیے قومی خزانے کو لٹایا گیا۔ یوں ایوب کو بھٹو، جنرل ضیاء کو جونیجو
اور نواز شریف اور مشرف کو گجرات کے چوہدری میسر آتے چلے گئے۔
یہ بات اطہر من الشمس ہے کہ قانون کی عملداری کا رونا بھی وہی طبقہ روتا ہے
جو کہ خود استحصال کرنے کا براہ راست ذمہ دار ہے۔بھٹو کی پھانسی اور نواز
شریف کو سزا اُن معروضی حالات کی وجہ سے ہے جو عالمی سطع پر اسِ وقت ہیں۔
ورنہ ماڈل ٹاون کے دو درجن سے زائد بے گناہوں کا قتل، ختم نبوت کے قانون پر
ڈاکہ، غازی ممتاز قادری شھید کو پھانسی، بھارتی وزیر اعطم مودی کے ساتھ
دوستی کا بھرم اور تین دہائیوں سے ملک میں مسلط سکھا شاہی کافی تھی کہ شریف
خاندان کا بے لاگ احتساب کیا جاتا۔ چونکہ عالمی قوتیں پاکستان کو خوشحال
ہوتا نہیں دیکھنا پسند کرتیں اِس لیے نواز شریف کو پورا پورا موقع دیا گیا
ہے کہ وہ خود پر لگنے والے الزامات اور سزاؤں کو بھر پور طریقے سے سیاسی
رنگ دے سکے۔یوں اب جب نواز شریف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں سُنائی
گئی ہیں اُس سے اِس خاندان کی سیاست کو مزید آکسیجن ملے گی۔ یہ سب کچھ
پاکستان کو غیر محفوظ کرنے کی سازش ہے۔
ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے مطابق عدالت نے ملزمان کو فرد جرم میں نیب
آرڈیننس کی شق 9 اے(4) کے تحت لگائے گئے کرپشن کے الزام سے بری کر دیا،نواز
شریف کو آمدن سے زائد اور بے نامی دار کے نام سے جائیداد بنانے پر نیب آرڈی
نینس کی سیکشن 9A-5 کے تحت 10 ?سال قید اور 8 ملین پاؤنڈ جرمانہ جبکہ والد
کے اثاثے چھپانے میں معاونت کے الزام میں مریم نواز کو 7 ?سال قید اور 2
ملین پاؤنڈ جرمانہ کیاگیا ہے۔ نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے فائیو زیرکفالت
افراد یا بے نامی دار کے نام جائیداد بنانے سے متعلق ہے۔نواز شریف، مریم
نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو مریم نواز کی جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنانے اور معاونت
میں تینوں کو ایک ایک سال قید ا کی سزا سنائی ہے، دونوں سزائیں اکھٹی شروع
ہونگی۔ تحریری فیصلے کے مطابق حسین نواز نے خود تسلیم کیا کہ وہ لندن فلیٹس
کے مالک ہیں۔ فیصلے میں جے آئی ٹی رپورٹ، سپریم کورٹ کے فیصلوں، حسین
نوازکے ٹی وی انٹرویو،سابق وزیراعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی اور قوم سے
خطاب کا حوالہ بھی دیا گیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ مریم نواز اپنے
والد نواز شریف کی جائیداد چھپانے کیلئے آلہ کار بنیں، مریم نواز کی جانب
سے جمع کرائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ثابت ہوئی ہے اور مریم نواز والد کے جرم
میں معاون ثابت ہوئی ہیں، مریم نواز نے جرم کے ارتکاب میں اپنے والد کی
معاونت کی۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے قطری خطوط کے ذریعے
لندن جائیداد کا کبھی پہلے ذکر نہیں کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قطری
خطوط سنی سنائی بات سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ اپارٹمنٹس سے متعلق کوئی معاون
دستاویز یا براہ راست ثبوت نہیں دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 1993ء
میں مریم نواز کی عمر 20 سال، حسین نواز 17سال اور حسن نواز 15 سال کے
تھے،اس وقت تینوں ملزمان کم عمر تھے اور اپارٹمنٹس خریدنے کے وسائل انکے
پاس نہیں تھے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر بچے والدین کے ہی
زیر کفالت ہوتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے
بچوں کو رقم نہیں دی۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ حسن نواز کے انٹرویو کے
مطابق بھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس انکے زیر استعمال رہے۔ فیصلے کے مطابق کیپٹن
صفدر نے بھی جرم کے ارتکاب میں معاونت کی، فیصلے میں نواز شریف کو شیڈول 2
کے تحت مزید ایک سال قید کی سزا دی گئی۔ اس طرح نواز شریف کو مجموعی طور پر
11 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ مریم نواز کی سات سال اور ایک سال
اضافی سزائیں جبکہ نواز شریف کی دس سال اور ایک سال اضافی سزائیں ایک ساتھ
شروع ہونگی۔عدالتی فیصلے کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز کو تفتیشی
ایجنسی سے تعاون نہ کرنے پر ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عدالت نے
قرار دیا کہ استغاثہ ملزمان پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں کر سکا تاہم بے
نامی دار اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ثابت ہو ا ہے۔فیصلے میں
کہاگیاہے کہ ملزمان 10سال تک کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتے۔ تمام مجرمان
کو اپیل میں جانے سے پہلے سرنڈر کرنا ہو گا۔
معزز قارئین یقینی طور پر عدالتوں نے فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے
اور ایسے خاندان کو گرفت میں لے لیا ہے جس نے اِس قوم سے قیمتی 35 سال چھین
لیے ہیں۔اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ سابق جرنیلوں اور سابق بیوروکریٹوں سے
بھی قومی دولت نکلوائی جا ئے اور زردار کو بھی انصاف کے کٹرے میں لایا جائے۔
ظاہر سی بات ہے زردار اور زشریف نے حکومت کی ہے اور اُنھوں نے وسائل کو
لوٹا ہے عمران خان چونکہ ابھی تک اِس حوالے سے اقتدار میں نہیں رہا ِٓس لیے
۔
اِس لیے اُس پر ابھی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔ دیگر لٹیروں کو بھی پکڑا جانا
چاہیے۔موجودہ جمہوری نظام بدترین آمریت ہے۔ قوم کی نظریں اب عد التوں پر
ہیں کہ کب مشرف کی جائیداد کا بھی حساب کتاب ہوتا ہے۔پنڈ کا چوہدری بدمعاش
پالاتا ہے اُس سے سارے پنڈ کو ڈرا کر رکھتا ہے ۔ چوہدری کو جب محسوس ہوتا
ہے کہ یہ میرئے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے تو چوہدری اُس بدمعاش کر مروا دیتا
ہے یا کسی کیس میں اندر کروادیتا ہے ۔بدمعاش کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ
چوہدری اُس کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے۔ ہم ستر سالوں میں چوہدری اور
بدمعاش کے درمیان پھنسی ہوئی مخلوق ہیں۔اب بدمعاش پالنے والا سلسلہ بند
ہونا چاہیے۔
|