آج میں بات کروں گا اپنے ضلع جھنگ کی سیاست اور اس
کی عوام کی ذہنی رسائی کی۔ ایک سو انہتر سال پرانا ضلع بہت سی خوبیوں کا
مالک ہے اور اس کی سر زمین ریت ، پانی اور ذرخیز مٹی سے سیراب ہے ، یہاں
ہریالی ہی ہریالی ہے ، اس کا پانی اب سے تین سال پہلے تک میٹھا تھا ، اور
تاثیر ایسی کہ زبان سے شیریں نہ جائے لیکن اب اس سر زمین پر اﷲ ناراض نظر
آتا ہے۔اس سر زمین پرڈکٹیٹر شپ زیادہ اثر انداز کبھی بھی نہیں ہو پائی لیکن
یہاں کی عوام پاک آ رمی سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے ۔ یہاں کی شرح خواندگی
سندھ کے تھل ، سرحد کے فاٹا اور بلوچستان کے وزیرستان کے بعد انتہائی درجے
تک کم ہے اور تعلیمی سہولیات تو موجود ہیں لیکن اعلیٰ تعلیمی سہولیات سے یہ
ضلع ہمیشہ سے محروم ہے ۔دیکھا جائے تو اس کی ذمہ دارعوام الناس خود ہے
کیونکہ آزادی کے ستر سال گزرنے کے با وجود بھی ایسا محسو س ہوتا ہے جیسے
یہاں کبھی آزادی آئی ہی نہیں ، یا یوں کہہ لیں کہ اس عوام کی بون میرو میں
ہی غلامی کے جراثیم موجود ہیں ۔ ہم چلے ادھر کو ہوا جائے جدھر کو ، چڑھتے
سورج کو سلام ہے ، ان کی نظر میں بڑا آدمی دولت مند شخص ہے ، چالاک ، جھوٹا
اور مکار شخص ان کے مطابق عقلمند ہے جبکہ منافق، بدتمیز ، خود پرست ، ڈرپوک
، اور چور ، ڈاکو ان کا لیڈر ہے ۔ ان کے معیار زندگی میں خود داری نام کی
کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔اس سر زمین پر اﷲ کے بڑے بزرگ دفن ہیں جنہوں نے اپنی
زندگی کی عبادات سے اﷲ کو راضی کر لیا اور اﷲ نے انہیں آج تک لوگوں کے دلوں
میں زندہ رکھا ہوا ہے ، اور ان کی اولادیں ان کا نام کمانے میں کوئی کثر
اٹھا نہیں رکھتیں ، یہاں تک کہ اپنی ذمہ داری سے بھی عاری ہیں ۔اس سر زمین
میں مذہبی تعصب بہت زیادہ ہے اور اسی تعصب نے ضلع جھنگ کو آج سے قریب دس
سال یا اس ے زیادہ عرصہ قبل تک فرقہ وارانہ فسادات میں جکڑے رکھا ، عوامی
نمائندوں نے بھی اس آگ کو پھیلانے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔ ہر ایک عمل
کو مذہبی تعصب کا نام دے کر کیش کیا گیا ، یہاں کی سیاست میں چند خاندان
شروع سے اب تک حاوی ہیں ۔ عوام نے بھی سوچ لیا ہے کہ سیاست پر صرف انہیں
چند لوگوں کا حق ہے ، عام آدمی کا یہ کام ہی نہیں ہے ۔ ہم سیاست کی بات
کریں تو سب سے پہلے شاہ جیونہ کی گدی آتی ہے یہ خاندان دو حصوں میں بٹا ہوا
ہے اور کئی بار حکومت میں وزیر، مشیر اور سفیر رہ چکے ہیں ، کرنل عابد حسین
امام اس خاندان کے پہلے سیاستدان تھے جن کے منتخب ہونے کے بعد جھنگ کو
انڈسٹریل زون ڈکلئیر کیا گیا تو انہوں نے ناخواندہ عوام کو بیوقوف بنایا
اور حکومت کو کہا کہ ہم اپنے ضلع کو گندہ نہیں کرنا چاہتے یہ آپ کہیں اور
لے جائیں تو وہ انڈسٹریل زون فیصل آباد میں چلا گیا جس کی حیثیت آج ایشیائی
مانچسٹر کی ہے ، اس کے علاوہ جھنگ کے میٹھے پانی کو گندہ اور زہر آلود کرنے
والی سیم نہر بھی کرنل صاحب کا تحفہ ہے ۔ ان کے بعد فیصل صالح حیات وزیر
خارجہ ، عابدہ حسین سفیر ، صغریٰ امام سینیٹر رہ چکی ہیں لیکن جھنگ میں
کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا سوائے ایک پل کے جو انہیں کی لاؤ لشکر وں کیلئے
مفید ہے ، شاہ جیونہ کی گدی ہر سال کروڑوں روپے کماتی ہے اور آج وہ بڑے
وسیع پیمانے پر کاروبار کے مالک ہیں۔ جھنگ شہر میں شیخ کنبہ نے اودھم مچا
رکھا ہے ، اور ان کی اپوزیشن سپاہِ صحابہ ، اہلسنت و الجماعت، لشکر جھنگوی
اس طرح کے کئی نام رکھنے والی جماعت نے خوب نبھائی ہے ۔ اسی کی دہائی سے
اکیسویں صدی کے آغاز تک جو کچھ بھی ہوا میں اسے یہاں زیر بحث نہیں لانا
چاہتا کیونکہ وہ کسی کو ہضم نہیں ہو گا لیکن نائن الیون کے واقع کے بعد شیخ
وقاص اکرم پہلی مرتبہ اعظم طارق کے قتل کے بعدقومی اسمبلی کی سیٹ پر منتخب
ہوا ۔سپاہ پارٹی اس لئے بدنام ہے کہ انہوں نے متشدد فتوے جاری کئے ۔ یہی
وجہ ہے کہ اہلسنت و الجماعت طبقہ پاکستان میں تعداد میں زیادہ ہے لیکن
بدنام ہے ۔ دوسرا شیخ خاندان شیخ یوسف گروپ ہے جو خود کو شہنشاہِ تعمیرا ت
کہلواتا ہے لیکن اس کی کارکردگی صرف کرپشن پر ختم ہوتی ہے ،ایک معمولی سا
ٹھیکیدار شیخ یوسف دنوں میں امیر ہوتا گیا ، انہوں نے جو کچھ بھی بنوایا وہ
سب کا سب ناقص رہا اور ان کے دور میں ایک ایک سڑک ، گلی، نالی سولنگ تین
تین دفعہ بنائی گئی ، جس کی وجہ سے عوام کو ہر بار اپنے گھروں کی تعمیر پر
بڑی لاگت صرف کرنا پڑی۔ یہ گروپ شیخ وقاص کے قریبی رشتہ دار ہیں لیکن دونوں
ایک دوسرے کی ظاہری مخالفت کرتے ہیں ، شیخ یوسف گروپ شیخ وقاص گروپ سے
زیادہ پیسوں والا ہے لیکن ان دونوں نے کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف انتخاب
میں حصہ نہیں لیا ، لیکن اب یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ شیخ وقاص کے
ناراض بھائی شیراز سے صلح ہونے کے بعد وہ اب شیخ یوسف گروپ کے خلاف میدان
میں ہے ۔ ضلع جھنگ کے دوسرے حلقے کی بات کریں تو یہاں سیال فیملی کی اجارہ
داری اول دن سے قائم ہے جن میں بھروانہ فیملی پہلے نمبر پر ہے ۔ یہاں سے
غلام حیدر حیات بھروانہ کی نواسی غلام بی بی بھروانہ تین مرتبہ منتخب ہو
چکی ہے لیکن سوائے اپنی جائیداد کو مضبوط کرنے اور کاروبار کو مستحکم کرنے
کے کوئی کام نہیں کروا پائی ہے ۔ بلکہ ہر بار آتی ہے ووٹ لیتی ہے اور پھر
پورے پانچ سال منہ ہی نہیں دکھاتی۔ ایم پی اے کی سیٹ پر بھی اسلم بھروانہ
جو مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے ہیں اور ان کے بھائی سلطان سکندر بھی یکے
بعد دیگرے منتخب ہو چکے ہیں نے بھی اس حلقے کیلئے کچھ نہیں کیا بلکہ ان کی
تو ایک عادت ہے کی الیکشنوں کے بعد نمبر بدل لیتے ہیں اور عوام سے قطع
تعلقی اختیار کر لیتے ہیں ۔ سابقہ انتخابات میں انہیں شکست دے کر نوجوان
آزاد منتخب ہونے والا نمائندہ خرم خان سیال تھا جس نے خوب کمائی کی ہے اور
جو انتخابات پر خرچ کیا اس کا سو گنا وصول کیا ہے ۔ تیسرے حلقے میں باہو
سلطان کی گدی بڑی مضبوط ہے جبکہ ایک صوبائی حلقے جو آدھا شہر میں ہے اور
آدھا شہر سے باہر خالد محمود سرگانہ پچھلے کافی انتخابات سے منتخب ہو رہا
ہے ، جانے کیوں لوگ اس سے شکایت گو بھی رہتے ہیں لیکن اسے ہر بار منتخب بھی
کر لیتے ہیں اور ایسا ہی حال اٹھارہ ہزاری میں چیلہ سیال کا ہے جو کچھ نہیں
کرتا سوائے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے اور لوگ بھی اس کی رعایا بن کے
رہنا چاہتے ہیں ، باہو سلطان والی گدی بھی ایسی ہی ہے ان میں سے ضلع ناظم
بھی منتخب ہو چکے ہیں اور کئی بار صوبائی اور نیشنل اسمبلی کی نشستیں بھی
جیت چکے ہیں لیکن بھلا کسی کانہیں کرنا چاہتے۔ ان کی اولاد بدمعاشیہ بنی
پھرتی ہے جس سے حلقے کے ہر باسی کو شکایت ہے لیکن ان میں کچھ پڑھے لکھے بھی
موجود ہیں جو کار جیپ ریلیوں ، شکار اور سیر و سیاحت کا بھی شوق رکھتے ہیں
لیکن ان کے پاس عواام الناس کیلئے وقت نہیں ہے۔پاکستان کی طرح جھنگ کے لوگ
بھی لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں ۔ بلکہ میں کہنا چاہوں گا کہ ان کے دماغ
غلامانہ سوچ کے مالک ہیں ، ممکن ہے کہ شاید آئندہ آنے والے چند سالوں میں
یہاں کے لوگوں کو شعور آئے اور وہ اس ذہنی غلامی سے آزادی حاصل کر پائیں
لیکن تاحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ آخر میں بھکر کے عاصم تنہا کا
ایک شعر:
گو میرا سیاست سے واسطہ نہیں کوئی
کم ظرف مرے شہر کا سلطاں نہ بنے گا
|