احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ
ریفرنس کے کا فیصلہ سنادیا۔ جس کے نتیجے میں نواز شریف مجموعی طور پر 11سال
قید بامشقت، 8ملین پاؤنڈ (132کروڑ) جرمانہ، نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو
مجموعی طور پر8سال قید بامشقت 2ملین (33کروڑ) جرمانہ (مجموعی طور پر
165کروڑ روپے) جب کہ مریم نواز کے شوہرِ نامدار کیپٹن (ر) صفدر کو جعلی ڈیڈ
میں گواہی دینے کے جرم میں صرف ایک سال قید کی سزا سنائی ۔داماد جی جرمانے
سے بچ گئے۔ اس بیچارے کے پاس تھا بھی کیا جو وہ جرمانہ ادا کرتا، عدالت کو
ترس آگیا معصوم دامد جی پر۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق سزائین ایک ساتھ شروع
ہونگی، ملزمان کسی بنک سے مالی فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے، 10سال تک کوئی
عوامی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتے، گویا مریم نواز لاہور سے قومی اسمبلی کا
الیکشن لڑ رہی تھیں وہ اب الیکشن لڑنے کی حقدار نہیں رہیں۔ حسین نواز نے
خود تسلیم کیا کہ وہ لندن فلیٹس کے مالک ہیں، مریم نواز کی جانب سے جمع
کرائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ، والد کے جرم میں معاون ثابت ہوئیں، ملزمان نے
قطری خطوط کے ذریعہ لندن جائیداد کا پہلے کبھی ذکر نہیں کیا، عدالت کے
مطابق 1993ء میں مریم کی عمر20سال اور حسن نواز کی عمر15سال تھی، ان کے پاس
اپارٹمنٹس خریدنے کے وسائل نہیں تھے، عام طور پر بچے والدین کے زیر کفالت
ہوتے ہیں، نوازا شریف یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچوں کو رقم نہیں دی۔ عدالت کی
جانب سے حسین اور حسن نواز کے دوبارہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، آمدن سے
زائد اثانے بناے کا الزام ثابت ہوا، عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ
ملزمان کو اپیل میں جانے سے پہلے سرنڈر کرنا ہوگا۔ احتساب عدالت کا فیصلہ
174صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت کی کاروائی نو ماہ بائیس یوم چلی۔
فیصلے کے ابتدا میں مقدمہ کے استغاثہ کا موقف بیان کیا گیا ہے ۔ مقدمہ کے
حقائق یہ ہیں کہ زیر دفعہg) 18(144144144144اور نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ
24(d)144144144(کو ساتھ ملا کر پڑھاجائے) کے تحت مندرجہ بالا پانچ ملزمان
یعنی نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور صفدر)کے خلاف عبوری
ریفرنس دائر کیا گیا۔ ان ملزمان میں سے دو حسین نواز اور حسن نواز سمن ،
وارنٹ کے اجراء کے بوجود عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر انہیں ضابطہ
فوجداری کی دفعہ88,87کے تحت اشتہاری قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے تمام تقاضے
پورے کرنے کے بعد ان دو ملزمان کو مقدمے میں مفرور ؍اشتہاری
قراردیاگیا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طورپر پانامہ پیپرز
(پانامہ کی لاء فرم موسیک فونسیکا کے ریکارڈ سے منظر عام پر آئے جن میں
میاں نواز شریف ویگر پر آف شور کمپنیوں کے ساتھ مبینہ تعلق کا الزام سامنے
آیا ۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اٹھایا گیا، سپریم کورٹ میں کیس
کی کاروائی کے دوران ملزمان نے اپنے اپنے موقف ، خطوط اوردیگر دستاویزات
پیش کیں۔ معزز عدالت نے سوالا ت تیار کیے اور معاملے کی تحقیقات شواہد
اکٹھے کرنے کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی۔ جے آئی
ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کو12والیمز کی صورت میں پیش کی۔ اس
کے بعد احتساب عدالت کی کاروائی کا آغاز ہوا۔ سپریم کورٹ نے نیب کو چھ
ہفتوں میں ملزمان کے خلاف ایوان فلیڈ فلیٹس نمبر17A,17,16A,16واقع ایون
فیلڈ ہاوس ، پارک لین لندن سے متعلق جے آئی ٹی کی جانب سے اکٹھے اور پیش
کئے گئے شواہد کی روشنی میں ریفرنس تیا راور دائر کر نے کا حکم دیااور یہ
بھی ہدایت کی کہ اگر ایف آئی اے اور نیب کے پاس بھی ان فلیٹس سے متعلق کوئی
شواہد ہوں تو انہیں بھی شامل کیا جائے۔
احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ’آپ میاں نواز شریف ، مریم نوازاور
مفرور ملزم حسین نواز اور حسن نوازجائیداد کی خریداری کے ذرائع بتانے میں
ناکام رہے، آپ ملزمہ مریم نواز ایون فیلڈ جائیداد کی ملکیت رکھنے ، ان
کمپنیوں کی بینیفشل اونر ہیں کیلبری فونٹ میں جعلی معاہدہ از
مورخہ2فروری2016ء میں پیش کیا گیا حالانکہ اُس سال میں ایسا فونٹ اس طرح کے
معاہدوں کے لیے دستیاب نہیں تھا۔ اس معاہدے پر آپ ملزمہ مریم نوا اور شریک
ملزم کیپٹن(ر) محمد صفدر نے بطور گواہ دستخط کئے۔ یہ معاہدہ پیش کر کے آپ
نے تحقیقاتی ایجنسی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔اس طرح ملزمان میاں نواز شریف
، مریم نوازاور مفرور ملزم حسین نواز اور حسن نواز دفعات
9(a)(iv)(v)&(xii)اور نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ10کے تحت قابل سزا جرم کے
مرتکب ہوئے۔اس مقدمہ میں کل 18گواہوں کے بیانات قلمند کئے گئے۔8مئی 2018ء
کو استغاثہ نے شہادتیں ختم کیں۔
میاں نواز شریف ، ان کی بیٹی، داماد کے خلاف فیصلہ آچکا ، سیاست سے میاں
صاحب کے بعد ان کی بیٹی اور داماد بھی باہر ہوگئے یعنی اب وہ الیکشن نہیں
لڑ سکیں گے۔ نون لیگ کی صفوں میں صف ماتم بچھنا ہی تھی، ان کا مورال ڈاؤن
ہوا، وہ ہونا ہی تھا ،نون لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے فیصلہ سننے کے بعد
جو پریس کانفرنس کی اور اس میں فیصلہ قبول کرنے سے تو انکار کیا ہی لیکن وہ
کوئی ٹھوس دلائل دینے میں کامیاب نہ ہوسکے، ان کی باڈی لینگویج ،جملے،
ارادے اور کچھ کرگزرنے کے دعووں میں جان نظر نہیں آئی۔ یہ اندازہ بھی ہوا
کہ اگر میاں صاحب جیل چلے جاتے ہیں اور وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر
لیتے ہیں تو میاں شہباز شریف نون لیگ کو دوبارہ اس مقام پر لے جانے کی
صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ ایک اچھے منتطم تو ہیں لیکن ایک سیاسی جماعت کے
رہنما میں جس قسم کی کرشماتی خوبیاں ہونی چاہیے ان کا فقدار محسوس ہوتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ فیصلہ آجانے کے بعد نون لیگ کی قیادت خاموش رہی اگر
کسی نے کچھ کہا بھی تو اس میں کوئی جان نہیں تھی۔ نون لیگ کی قیادت کا خیال
تھا کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا تو نون لیگ کا ووٹر یا عوام سڑکوں
پر نکل آئیں گے اور ملک میں شاید ایک طوفان برپا ہوجائے گا لیکن ایسا کچھ
نہیں ہوا، نون لیگیوں کے منہ لٹکے ہوئے، بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر
پریس کانفرنس میں منہ لٹکائے بیٹھے رہے۔ یہ وقت اس طرز عمل کا نہیں تھا، اس
وقت تو ہر لیڈر کو اپنے اپنے حلقے میں طوفان برپا کردینا چاہیے تھا۔ جگہ
جگہ جلسے ہوتے، میاں نواز شریف کے حق میں احتجاج ہوتا لیکن پورے ملک میں
سنناٹا ، جو کچھ شور شرابا ہوا وہ اس واقعہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں
تھا۔ میاں صاحب اور ان کے بیٹی نے لندن میں پریس کانفرنس کی آنے کا عندیہ
دیا لیکن وہ بھی مشروط، اس واقعہ کو 24گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا، نون
لیگ کی صفوں میں خاموشی ہے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ
میاں نواز شریف واپس پلٹنے والے نہیں اور نہ ہی ان کی بیٹی وطن واپس آئے
گی۔ رہ گیا غریب داماد وہ کسی نہ کسی طرح ایک سال کی قید کاٹ ہی لے گا۔
کپتان سے سو اختلاف لیکن میاں نواز شریف کو اس حال پر پہنچانے میں عمران
خان کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا، عمران خان کے بعد شیخ رشید کی
جدوجہد تھی جس نے شریف فیملی کو مسلسل دباؤ میں رکھا۔ احتصاب عدالت میں
دوران سماعت جس قسم کی کاروئی سامنے آرہی تھی، شریف فیملی کے وکیل جس انداز
سے اپنے کلائنٹ کا دفعہ کر رے تھے ، یہاں تک کہ فیصلے سے چند دن قبل نواز
شریف کے وکیل نے وکالت سے انکار کردیا۔ کس وجہ سے؟ اسے نظر آرہا تھا کہ کیا
ہونے جارہا ہے۔ یہ بات ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ فیصلہ کیا آنے والا ہے، یہ
عام طور پر سب ہی کو معلوم تھا، ملزمان بھی اس سے واقف تھے ، لیکن انہوں نے
کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی ، اپنے ورکرز کو تیار نہیں کیا۔ ایک سوچ یہ
پائی جارہی تھی کہ اس فیصلے کے بعد نون لیگ انتخابات کا بائیکاٹ کر دے گی،
لیکن نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے اس کی تردید کردی، نون لیگ کی سیاست کا
دارومدار اب نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی سے وابسطہ ہے۔ اگر یہ
دونوں وطن واپس آتے ہیں اور گرفتار بھی کر لیے جاتے ہیں تو بھی نون لیگ کے
لیڈر ، ورکرز اور حمایت کرنے والوں کا مارل بلند ہوگا، یہ جیل سے بھی کسی
نہ کسی طریقے سے بیان جاری کر سکیں گے۔لیکن اگر انہوں نے لندن کو ہی اپنا
مستقل مسکن بنانے کا فیصلہ کیا تو پھر نون لیگ کا گراف نیچے اور نیچے چلا
جائے گا۔ بہت ممکن ہے کہ پنجاب میں جیپ نون لیگ کی کوئی صورت اختیار کر لے،
نون لیگ اسمبلی میں کسی نہ کسی صورت باقی تو رہے گی لیکن اس کی وہ حیثیت
یقیناًاب وہ رہنا مشکل نظر آرہا ہے۔ جیسے جیسے انتخابات نذدیک آتے ہیں ،
سیاسی موسم اپنے ارادے بتانا شروع کردیتا ہے ، سیاسی حالات اور واقعات یہ
ظاہر کرنے لگتے ہیں کہ اقتدار کی کرسی کسے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ اس کے
آثار کچھ کچھ نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔سیاسی ہوا کے جھونکوں کا رخ ایک
سیاسی پارٹی کی جانب ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اقتدار کے گھنے درخت کے پتوں
نے ایک جانب اپنا سایہ کرنا شروع کردیا ہے۔ بے شمار موسمی پرندوں نے اپنا
آشیانہ اس درخت کی ٹہنیوں پر بنا لیا ہے ، کچھ با اثر چرنداور پرند بھی اس
درخت کے سائے تلے بسیرا کرنے کی فکر میں ہیں۔ انتخابات ملتوی یا آگے نہیں
بڑھیں گے، یہ بات میں اپنے کئی کالموں میں لکھ چکا اور اب بھی یہی خیال ہے
کہ انتخابات وقت مقررہ پر اور صاف و شفاف ہوں گے۔ انشا ء اللہ۔ |