پاکستان کے قبائلی علاقہ جات چاروں صوبوں سے الگ حیثیت کے
حامل علاقے ضرور ہیں، لیکن بنیادی طور پر قبائلی علاقہ جات کے صوبے کیساتھ
سماجی، ثقافتی ، جغرافیائی اور نسلی ہم اہنگی اس ہم اہنگی سے کئی گنا زیادہ
ہے جو قبائلی ایجنسیوں کے مابین پائی جاتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کیساتھ
جغرافیائی اتصال کے باوجود یہ علاقے وفاق کے زیرِ انتظام ہے۔ قبائیلی علاقہ
جات کا کل رقبہ ستائیس ہزار دوسو بیس مربع کلومیٹرہے۔ جبکہ سن دوہزار کے
خانہ شماری کے مطابق قبائیلی علاقہ جات کی کل ابادی تینتیس لاکھ اکتالیس
ہزار ستر ہے۔ جوکہ پاکستان کے کل ابادی کے دو فیصد بنتی ہے۔ بدقسمتی سے ایک
صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا، کہ یہ علاقہ علاقہ غیر کہلایاجاتاہے۔ اور ایف
سی آر جیسے کالے قانون کے تحت چلایاجارہاہے۔ جس کے ارٹیکل ۲۴۷ نے فاٹا کے
مکینوں سے بنیادی حقوق بھی چھین لئے ہیں۔ جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے
ائین ۱۹۷۳ کے ارٹیکل ۸ سے لیکر ۲۸ تک دوسرے شہریوں کو حاصل ہے۔ اور جہاں پر
انسانی بنیادی حقوق نہیں ہوتے ، وہاں پر انسانیت کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ اس
لیے ان لوگوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جارہاہے۔ جیساکہ اگر
کہیں کوئی ناخوشگوار واقع ہوجاتاہے تو اجتماعی زمہ داری کے تحت کسی ایک یا
سارا قبیلہ یا علاقہ کو جیل میں ڈال سکتاہے۔ پس یہ قانون نہ صرف اسلامی
قوانین کی منافی ہے۔ بلکہ ائین پاکستان ۱۹۷۳ کے بھی سراسر مخالف ہے۔ اور یہ
علاقہ ائین پاکستان ۱۹۷۳ کےارٹیکل ون سی کی تحت پاکستان کا حصہ قرار
دیاگیاہے۔ اور ارٹیکل ۲۴۶ کی تحت فاٹا کے تمام سات ایجنسیوں اور ایف آرز
کی نشاندہی بھی کی گئی۔ جبکہ دوسری طرف ارٹیکل ۲۴۷ کے تحت فاٹا کے ممبران
اپنے علاقے کیلئے قانون سازی کے حق سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ ایسی صورت حال
سے عموماً جرائم جنم لیتے ہیں ، اور خصوصاً نوجوان نسل ، منشیات، شدت پسندی
اور دوسری سماجی بیماروں کے طرف راغب ہوجاتےہیں، جو کہ بدامنی اور دہشتگردی
کی سبب بنتی ہے۔ گو کہ فاٹا جغرافیائی اور سماجی طور پر خیبر پختونخوا سے
کسی بھی صورت میں الگ نہیں ، تاہم اس قانون کے ذریعہ ان کو قبائیلی اور غیر
قبائیلی پختونوں میں تقسیم کیاگیا ہے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول اور
دانشمندانہ فعل نہیں ہے۔ ائیں بالترتیب فاٹا اور خیبر پختونخوا کے مشترکہ
نکات پر نظر ڈالتے ہیں۔
مارکیٹ: خیبر پختونخوا کی کاروبار میں فاٹا کا جو حصہ ہے اس کسی صورت انکار
نہیں اور اسکا بہترین مثال پشاور کا کارخانو مارکیٹ ہے جس میں قبائیلی
کاروباریوں کی تعداد قابل ذکر ہے جبکہ تیمرگرہ بازار میں باجوڑی قبائیل کے
کافی بڑے کاروبار ہیں۔ علاوہ ازیں قبائیلی پختون صوبہ بھر میں اپنے کاروبار
چلارہے ہیں جن سے اچھا خاصہ ریونیو جنریٹ ہوتاہے۔
سماجی : سماجی لحاظ سے تمام پختون تقریباً ایک جیسے رسم ورواج اور تہذیب
وتمدن کے حامل ہیں۔
اگر ہم قبائیلی علاقوں کی تعلیم اور صحت پر نظر ڈالے تو یہ شعبے صوبے کے
ساتھ ہیں۔ صوبے کے تمام تعلیمی مراکز میں فاٹا کے طالب العلموں کی ایک کثیر
تعداد پائی جاتی ہے۔
روابط اور موصلات: روابط اور موصلات کے حوالے سے بھی پورا قبائیلی علاقہ
خیبر پختونخوا سے جڑا ہواہے۔
ان مشترکہ نکات کے علاوہ ہزاروں ایسے مشترکہ چیزیں ہیں جو اس بات پر دلالت
کرتی ہے کہ پختونوں کی اس طرح کی تقسیم کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے۔
لہذا یہ استدعا کی جاتی ہے ۔ کہ حکومت فاٹا کے حوالے سے سنجیدہ ہوکر اس کو
خیبر پختونخوا میں ضم کردیں ۔ اور جو قانون ملک کے دوسرے حصوں میں لاگو اس
کو یہاں تک توسیع دی جائے۔
اس سے انکار نہیں کہ چند لوگ اس فیصلے سے ضرور اختلاف کرینگے ۔ مگر یہ وہ
لوگ ہیں، جن کے اس فرسودہ نظام سے ذاتی مفادات وابستہ ہیں ۔ جبکہ وہ ان
ذاتی مفاد کیلئے قوم کو بیچھنا بھی قابل مذمت یا قابل عار فعل نہیں سمھجتے۔ |