اس نے تیار ہوکر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اور بالوں کو
ایک ادا سے جھٹکا،اس کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ آگئی ۔اس کو یقین تھا کہ آج
کی دعوت میں ساری عورتیں اس کی تیاری دیکھ کر ششدر ہو جائینگی ۔سماء کو
اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا بہت شوق تھا ۔وہ جس جگہ جاتی اپنی اور اپنے بچوں
کی تیاری پر خاص توجہ دیتی ۔وہ نوکری کرتی تھی اور خود ڈرائیونگ بھی جانتی
تھی اس لئے کہیں پر آنا جانا اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ آج کی دعوت
میں تو اس کے میاں بچے سب مدعو تھے۔حسب توقع آج کی دعوت میں بھی اس کو
ہاتھوں ہاتھ لیا ۔کھانے کے دوران ایک پرانی دوست فضا نے گلہ کیا کہ اس نے
کئی بار سماء کو فون کیا ہے اور سماء نے اسے جوابی کال کرنے کی زحمت بھی
گوارا نہیں کی اس کے جواب میں سماء نے اپنی حد درجہ مصروفیت کی کہانی بڑے
زور و شور سے سنائی کہ کس طرح وہ نوکری ،گھر اور بچوں کی مصروفیات میں
مصروف ہے۔ فضا نے دبے لفظوں اس کو یہ کہنے کی کوشش کی کہ کبھی تو وقت نکال
کر پانچ منٹ کی کال کی جاسکتی ہے۔ مگر اس نے اس کا ذمہ اپنے سیل فون سیٹ کی
خرابی پر لگا دیا اور فضا اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ۔ دوران دعوت بھی سماء
کی ساری توجہ اپنی خودستائش پر رہی ۔ وہ اپنی نوکری کے واقعات سناتی رہی کہ
کس قدر قابلیت سے وہ اپنی نوکری کو چلا رہی ہے۔ کبھی وہ یہ بتاتی رہی کہ کس
طرح وہ چھٹی والے دن اپنے گھر کی صفائی ستھرائی اور آرائش میں وقت صرف کرتی
ہے۔ غرض اس کی ہر بات کا محور اس کی ذات تھی ۔ پھر بھی اس نے جدید فیشن اور
ڈیزائنرز پر تبصرہ کیا ۔اکثر عورتیں اس سے مرعوب سی ہوگئی تھیں ۔ مگر یسرا
نامی ایک خاتون جنھوں نے سر پر سکارف باندھا ہوا تھا ، انھوں نے خواتین کی
توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور کہنے لگیں :
آئیے اس محفل کو مکمل کرنے کے لئے کچھ دین کی باتیں بھی کرلیتے ہیں۔انھوں
نے حقوق اللہ اور حقوق العباد پر بات شروع کی۔ وہ کہنے لگیں اسلام انسان کا
تعلق انسان سے جوڑتا ہے۔ سورت نساء
کی آیت نمبر 36 میں ارشاد ہوا”اور تم عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی اور نہ تم
شریک بناؤ اس کے ساتھ کسی کو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت
والوں اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوںاور قرابت والے (رشتے دار) ہمسائے اور
اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی اور مسافر اور جس کے مالک بنے ہیں تمہارے
داہنے ہاتھ (ان سب کے ساتھ حسن سلوک کرو) بے شک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا
جو ہو مغرور فخر کرنے والا۔ ‘
انھوں نے مزید بات کو بڑھایا اور کہا کہ اللہ تعالی کو خودپسند اور شیخی
خورے پسند نہیں ہیں۔
❶ القرآن |◄ یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں (بڑی باتیں
کرنیوالوں) کو پسند نہیں فرماتا۔ سورۃ النساء(36)
❷ القران |◄ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل
کسی ( تکبر ) کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی
چال میں میانہ روی اختیار کئےرہنا، اور بولتےوقت آواز نیچی رکھنا، کیونکہ
(اونچی آواز گدھوں کی ہے) یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی ہے۔
سورۃ لقمان (18,19)
============================
سماء کو محسوس ہوا کہ شاید یسرا کا اشارہ اس کی طرف تھا۔ مگر اس نے درس کے
بعد بھی اپنی باتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
گھر آکر بھی وہ بہت سرشار رہی۔ اس کی مسابقت پسند طبیعت اس کو بس یہی
دکھاتی کہ وہ ہر ایک سے بہتر اور برتر ہے۔ اس کے پاس اپنی ہر حرکت کی توجیہ
موجود ہوتی تھی ۔اس کی زندگی اس کے گھر ،بچوں اور نوکری کے بیچ بڑی اچھی
گزر رہی تھی ۔ وہ جدھر جاتی ادھر اپنی مصروفیات اور قابلیت کا ڈھول پیٹتی ۔
آہستہ آہستہ بہت سے پیارے رشتے دار ، دوست، احباب اس سفر میں اس کا ساتھ
چھوڑ گئے ۔کچھ اس خیال سے پیچھے ہٹ گئے کہ اگر کوئی شخص اس قدر مصروف ہے تو
اس کے اوپر مزید کیا بوجھ ڈالا جائے ، کچھ اس کی خودنمائی اور خود تعریفی
کی عادت سے پیچھے ہٹ گئے۔ یوں رفتہ رفتہ اس کے گرد سے خیرخواہوں اور محبت
کرنے والوں کا ہالہ ختم ہوتا گیا ۔ بالوں میں چاندی آگئی ،بچوں کی شادیاں
ہوگئیں وہ اپنی نوکریوں میں ویسے ہی مصروف ہوگے جیسے ایک وقت میں وہ مصروف
تھی ۔اس کی ریٹائرمنٹ ہوئے عرصہ ہوگیا تھا۔ آج وہ اکیلی بیٹھی فون کو گھور
رہی تھی ۔اس کے ذہن میں یہی سوال گونج رہا تھا کہ یہ بجتا کیوں نہیں؟
مجھے کوئی فون کیوں نہیں کرتا؟
اچانک اس کو لگا کہ سامنے لگے شیشے سے اس کا عکس مسکرایا اور چیخا :
آج تم اکیلی بیٹھ کر خوش کیوں نہیں ہو؟
یاد کرو وہ وقت جب تمھارے پیاروں کو تمھاری ضرورت تھی اور تم اپنی مصروفیات
اور قابلیت کا ڈھول بجا رہی تھی؟
اس نے اپنے عکس سے آنکھیں چرانے کی کوشش کی مگر ماضی اس کے آگے بے نقاب
ہوکر کھڑا تھا۔ اس کو وہ بے شمار دوست ، رشتہ دار یاد آئے جو اس کی محبت
اور توجہ مانگتے تھے مگر اس کے پاس کبھی ان کے لئے وقت نہیں رہا تھا ۔
سماء کا دل ندامت سے بھر گیا۔ پچھتاوے کے آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
بے اختیار ہی سماء کی آنکھ کھل گئی ۔اس کو اندازہ ہوا کہ وہ دعوت کے اختتام
پر گھر کی طرف رواں دواں تھے اور دن بھر کی تھکن کے باعث اس کی آنکھ لگ گئی
تھی ۔اس کے بچے ابھی بھی چھوٹے تھے، وہ جوان تھی، ابھی اس کے رشتہ دار،
دوست احباب اس کو چھوڑ کر نہیں گئے تھے ۔اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ
آج کے بعد وہ ہر تعلق کو ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کریگی اور اپنی
مصروفیات کی تفصیلات اور خودستائش کو اپنی حد تک محدود رکھے گی۔اس کو لگا
کہ یہ پانچ منٹ کی نیند اصل میں اللہ کی طرف سے ایک الہامی اشارہ تھی۔اللہ
تعالی اس سے اب بھی محبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ وہ ایک فاش غلطی سے سب
پیار کرنے والے کھو دے ۔
رات کی مسحور بادصبا،چاند اور ستارے بھی اس کی اس خود آگاہی سے خوش لگ رہے
تھے ۔
|