پانچ سال کی جدائی بھی بڑی ظالم ہوتی ہے ، یہاں تو ایک
ایک پل گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ، انتظار کی اتنی طویل کالی رات کسی اذیت سے
کمی نہیں ہوتی ، جانے والے تو چلے جاتے ہیں لیکن پیچھے انتظار کرنے والے ان
کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے رہتے ہیں ، جب یہ جدائی کے لمحات ختم ہونے
کے قریب ہوتے ہیں تو انتظار کرنے والوں کی خوشی دیکھنے کے لائق ہوتی ہے
ساتھ ان کے لبوں پر شکوے شکایات بھی ہوتے ہیں -
میں نے جس جدائی کا ذکر کیا ہے یہ جدائی کسی محبوب اور محبوبہ کی نہیں بلکہ
ایک محبوب لیڈر اور عوام کی ہے جو پانچ سال پہلے وعدے قسمیں دے کر اقتدار
کے پردیس میں گیا پھر لوٹ کر نہ آیا جب اس کے اقتدار کا ویز اختتام پذیر
ہوا تو دوبارہ ویزا لینے کے لیے عوام کے پاس لوٹنا پڑا ، پر ہر دفعہ کی
نسبت اس مرتبہ عوام کے مزاج بدلے ہوئے ہیں اور عوام کے ردعمل سے لگتا ایسا
ہے کہ عوام کو اپنے لیڈران کی جدائی کا کچھ زیادہ ہی غم تھا جو اب لبوں سے
شکوے کے ساتھ ہاتھوں اور لاتوں سے کہیں کہیں تو پتھروں کے ذریعے بھی شکوے
کیے جارہے ہیں ، اب سیاسی محبوبوں کو احساس ہو گیا ہے کہ آئندہ ایسے کیا تو
یہ ردعمل مزید سخت ہوسکتا ہے جس کے لیے لمبی جدائی اقتدار کے ویزے میں
روکاوٹ بن سکتا ہے -
الیکشن کے قریب ہوتے ہی لوکل سطح کی سیاست میں جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے
ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کمزور کرنے کے لیے سیاست دان نفسیاتی حربے اور
افواہوں سے بھی کام چلا رہے ہیں ، ساتھ ہی اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا
بھر پور استعمال کیا جارہا ہے کارنر میٹنگ جلسے ، ریلی کی پوسٹیں فوری سوشل
میڈیا پر ڈال دی جاتی ہیں تاکہ ان کا یہ عمل مخالفین کے اعصاب پر سوار رہے۔
ملک کے انتخابات میں نشانات الاٹ ہونے سے پہلے تو مین مقابلہ دو سیاسی
جماعتوں میں نظر آتا تھا یعنی پی ٹی آئی اور ن لیگ میں لیکن نشانات الاٹ
ہونے والے دن ملکی سیاست میں عجیب صورت حال بنی ن لیگ کے اکثر امیدواروں نے
ٹکٹ واپس کر کے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اور ان میں سے
زیادہ تر نے ایک ہی نشان جیپ کا انتخاب کیا ، چوہدری نثار کافی عرصہ سے ن
لیگ سے ناراض تھے اور ان کے تمام ہم خیال سیاست دانوں نے ایک ہی نشان سے
الیکشن لڑنا ایک جماعت جیسا ہی ہے جن کی بڑی تعداد ہے ، چوہدری نثار اور اس
کے ہم خیال کے گروپ کے بعد شہباز شریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اشارہ دیتے
ہوئے مشروط طور پر الیکشن لڑنے کا کہا اور اپنی تین شرائط کو سامنے لے آئے
، شہباز شریف کے اس اقدام کے جواب میں چوہدری نثار نے بھی یہ بیان داغ دیا
کہ الیکشن کے بعد اور بھی بہت سارے امیدوار ان کے گروپ میں شامل ہونا چاہتے
ہیں -
اب ن لیگ میں اس تقسیم کی وجہ سے ن کا ووِٹر تقسیم ہوگیا ہے ، دوسری طرف ن
لیگ کے ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی وجہ سے اپنی جماعت کی پالیسوں سے
ناراض تھے لیکن اس کے باوجود وہ پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے ان
کو جیپ کی صورت میں تیسری آپشن مل گئی ہے ، کیونکہ اب ان کے حلقے میں پی ٹی
آئی کے ورکر ان کو کسی بات کا تانا نہیں دے سکیں گے ، اس وجہ سے چوہدری
نثار کا گروپ کافی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔
آنے والے الیکشن کے بعد بننے والی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہوگی کہ وہ
اکیلے حکومت بنا سکے ، اسے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانی
پڑے گی لیکن اقتدار کے لیے اتحاد میں چھوٹی جماعتوں کی بجائے آزاد
امیدواروں کی اہمیت زیادہ رہے گی ، اس الیکشن میں زیادہ سیٹیں بھی آزاد
امیدوار حاصل کریں ، جبکہ چوہدری نثار کا گروپ آئندہ حکومت بنانے میں سب سے
اہم ہوگا اور زیادہ مراعات اور اچھی وازرتیں بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے
گا -
آزاد امیدواروں کی طاقت جس کے پلٹرے میں جائے گی حکومت اس کی بنے گی اور
ایسے ہی الیکشن کے بعد بھی جماعتوں میں فاروڈ بلاک بھی بنیں گے ، پی ٹی آئی
نے اس سے بچنے کے لیے ہر ٹکٹ ہولڈر سے اسٹامپ پیپر پر بیان حلفی بھی لے
رکھا ہے کہ اسے کوئی چھوڑ کر نہ جائے ، پی ٹی آئی کو زیادہ خطرہ جنوبی
پنجاب کے امیدواروں سے ہے جو صوبہ محاذ کا گروپ بنا کر مشروط طور پر پی ٹی
آئی میں شامل ہوئے تھے ، لیکن اس اسٹامپ پیپر پر الیکشن کمیشن میں پٹیشن
دائر ہو چکی ہے اور 5 جولائی کو الیکشن کمیشن میں اس کی سماعت ہے، اس سے
لگتا ہے دال میں کچھ کالا اور نیت میں کچھ فتور ضرور ہے -
عمران خان نے کہا ہے میرا کوئی بھی اسمبلی ممبر کرپشن کرئے گا اسے جیل میں
ڈال دیا جائے گا ، آج کا یہ بیان بھی ان کے لیے خطرناک ہے کہ جو صرف پی ٹی
آئی کی پٹری سے اقتدار کے ایوانوں میں جانا چاہتے ہیں جن کو نوجوانوں اور
نظریاتی لوگوں سے لینا دینا کوئی نہیں اور وہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کا
بیتابی سے انتظار کریں گے کہ اسٹامپ پیپر اور بیان حلفی کو کالعدم قرار دیا
جائے تاکہ وہ جلد اڑنے کے قابل ہو جائیں- |