اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالقارعلی بھٹو کی حکومت کے زیرِانتظام بچے کھُچے پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے جن میں ایک طرف پیپلزپارٹی اور دوسری طرف پی این اے کے تحت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا اتحاد سامنے آیا۔ اُن انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کھُلم کھُلا دھاندلی کی جس کے خلاف پی این اے سڑکوں پہ نکل آئی۔دِن بدن زور پکڑتی پی این اے کی احتجاجی تحریک سے بھٹو پریشان ہو گئے اور اُنہوں نے مولانا مودودیؒسے ملاقات کی درخواست کی جسے مولانا نے شرفِ قبولیت بخشا۔ یہ ملاقات سیّد مودودیؒکی رہائش گاہ، اچھرہ میں ہوئی جس میں مولانا نے معاملات کو سلجھانے کے لیے بھٹو کے سامنے چند تجاویز رکھیں ۔ملاقات کے بعد جب بھٹو مرحوم باہر آئے تو بہت مطمئن تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ مولانا سے ملاقات مثبت رہی، ہم اُن کی تجاویز پر غور کریں گے اور اُمید ہے کہ اب معاملات طے پاجائیں گے۔ بھٹو مرحوم کے اِس بیان کے بعد پی این اے کے مدار المہام نوابزادہ نصراﷲ خاں نے کہا کہ مولانا کا پی این اے کی تحریک سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی ہم اُن کی تجاویز پر عمل کے پابند ہیں (دراصل اُس وقت میاں طفیل محمد جماعت اسلامی کے امیر تھے اور سیّدصاحب کا پی این اے کی تحریک سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا)۔ اگلے دِن اخبار میں ایک کارٹون چھپا جس میں مولانا مودودیؒ پیچھے مُڑ کر دیکھ رہے تھے جہاں کمان بکف نوابزدہ نصراﷲ خاں کھڑے تھے۔ کارٹون کے نیچے یہ شعردرج تھا
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

آجکل میاں نوازشریف بھی اِسی دُکھ میں مبتلاء ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جب وہ چودھری نثار علی خاں کی باتیں سنتے ہیں تو اُنہیں بہت تکلیف پہنچتی ہے۔ دَرجوابِ آن غزل چودھری صاحب نے کہا کہ میاں صاحب بتائیں تو سہی ، اُنہیں کس بات سے تکلیف پہنچی ہے؟۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ’’میں چونتیس سالہ رفاقت کا حجاب رکھ رہا ہوں۔نوازشریف صاحب! آپ بھی حجاب رکھیں ورنہ معاملات دور تک جائیں گے‘‘۔ یہ باتیں چودھری صاحب کئی بار دہرا چکے ہیں لیکن بتاتے کچھ نہیں۔شاید یہ بھی بھٹو مرحوم کی ’’پٹاری‘‘ ہی ہو جو کبھی نہ کھُل پائے۔

ہمیں چودھری صاحب کی بے باکی بہت پسند ہے اور یہ بھی عین حقیقت کہ چودھری صاحب نوازلیگ کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ اُن کی اپنی جماعت سے وابستگی بھی شک وشبہے سے بالاتر تھی لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میاں نوازشریف نے اُنہیں نوازا بھی بہت۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد مخدوم جاوید ہاشمی کی قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے چودھری صاحب کو قائدِحزبِ اختلاف بنایا گیا اور اقتدار میں آنے کے بعد ہمیشہ اُنہیں مَن پسند وزارت دی گئی۔ 2014ء کے دھرنوں کے دوران جب تمام سیاسی جماعتیں نوازلیگ کی پشت پر کھڑی تھیں، چودھری صاحب پیپلزپارٹی سے پھڈا ڈال کر بیٹھ رہے۔ پھر بھی میاں صاحب نے صبر ہی سے کام لیا۔ پرویزمشرف ،چودھری صاحب اور اُن کے بھائی کا انتخاب تھا جس نے میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا۔ نون لیگ کے باقی رَہنماء تو جیلیں بھگتتے اور تشدد کا نشانہ بنتے رہے لیکن چودھری صاحب نے ایک دِن بھی جیل نہیں کاٹی البتہ اُنہیں گھر میں نظربند ضرور کیا گیا۔ اِس سب کے باوجودقائدِحزبِ اختلاف کے لیے میاں صاحب کی نظرِانتخاب اُنہی پر پڑی۔ معاملہ تو تب خراب ہوا جب وہ گھر کی بات باہر لے آئے اور دشمنوں نے رائی کا پہاڑ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر سیاسی جماعت میں اختلافات ہوتے ہیں لیکن اُس کا بہترین فورم سیاسی جماعت ہی ہوتی ہے، پریس کانفرنسز نہیں۔ پہل چودھری نثار علی خاں ہی نے کی اور پھر اُن کے یکے بعد دیگرے تلخ بیانات سامنے آتے گئے۔ آفرین ہیں میاں نوازشریف پر جنہوں نے رَدِ عمل میں ایک لفظ بھی مُنہ سے نہیں نکالا۔ جب مریم نواز سے سوال کیا گیا تو اُنہوں نے بھی کہا کہ چودھری صاحب اُن کے بڑے ہیں، اُن کی باتوں کا جواب دینا مناسب نہیں۔

چودھری صاحب کو منانے کی بار بار کوششیں ہوئیں۔ اِسی سلسلے میں میاں شہبازشریف کی اُن سے متعدد ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ نوازلیگ کے کئی رَہنماؤں نے اُن کے دَرِ دولت پر حاضری بھی دی لیکن راجپوتی خون ٹھنڈا نہ ہوسکا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت بھی چودھری صاحب کی یہی ضِد تھی کہ نہ اُنہوں نے پہلے کبھی ٹکٹ کے لیے درخواست دی ،نہ اب دیں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب نوازلیگ کے صدر میاں شہباز شریف سمیت، تمام اُمیدواروں نے ٹکٹ کے حصول کے لیے درخواستیں دیں، میاں شہباز شریف ، مریم نواز اور حمزہ شہباز تک بھی سلیکشن کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو چودھری صاحب کی انانیّت کیوں آڑے آئی؟۔ کیا ’’جیپ‘‘ کے انتخابی نشان کا حصول تو مقصود نہیں تھا؟۔ آجکل یہ انتخابی نشان بہت مقبول ہو رہا ہے اور الیکٹ ایبلز اپنی جماعتیں چھوڑ چھوڑ کر اِس نشان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ شنید ہے کہ اِس نشان کو زورآوروں کی اشیرباد حاصل ہے۔ میاں نوازشریف نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ الیکشن سے پہلے دھاندلی ہو رہی ہے اور نوازلیگ کے اُمیدواروں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ یا تو تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائیں ، یا پھر ’’جیپ‘‘ پر چڑھ جائیں۔ اب آصف زرداری بھی ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں۔

حامد میر کے پروگرام’’ کیپیٹل ٹاک‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ 25 جولائی کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ 2018ء کے الیکشن سو فیصد درست نہیں ہوں گے۔ پنجاب سے زیادہ تر آزاد امیدوار جیتیں گے ۔ اِن میں سے کچھ پیپلزپارٹی، کچھ نون لیگ اور کچھ پی ٹی آئی کی بَس سے اُترے ہیں۔ آزاد اُمیدوار خود بھی جیپ پر چڑھے ہوں گے اور کسی نے چڑھایا بھی ہوگا۔ سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ جیپ کے نشان والے اُمیدوار اگر بڑی تعداد میں جیت گئے تو پھر وہی ڈکٹیٹ کریں گے ۔ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد کوئی سنجرانی بھی وزیرِاعظم بن سکتا ہے۔ ہم اِنہی کالموں میں متعدد بار لکھ چکے کہ زورآوروں کو کسی بھی صورت میں بَرسَرِ اقتدارنوازلیگ قبول نہیں۔ وہ ’’بلوچستان فارمولے‘‘ پر عمل پیرا ہیں اور سنجرانی جیسا ہی وزیرِاعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کے ہاں نوازلیگ کی کوئی گنجائش ہے نہ پیپلزپارٹی کی اور نہ ہی تحریکِ انصاف کی۔ اِس لیے کپتان اگر وزارتِ عظمیٰ کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں تو یہ اُن کے لیے بہتر ہوگا کیونکہ اب کی بار بھی امپائر کی انگلی اُن کے حق میں کھڑی ہونے والی نہیں۔

2018ء کے حالیہ انتخابات بھی عجیب ہیں کہ ابھی تک انتخابی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکیں اور اُمیدواروں پر بھی ایک عجیب سی مایوسی اور بے کیفی طاری ہے۔ انتخابات میں محض تین ہفتے باقی ہیں لیکن انتخابی حلقوں میں کوئی جوش وخروش نظر آتا ہے، نہ پرچموں اور بینروں کی بہار۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ خود اُمیدواروں کو بھی یہ یقین نہیں کہ انتخابات بَروقت ہو جائیں گے۔ نوازلیگ تو عسکری اور عدالتی گَٹھ جوڑ کے قصّے سنا تی ہی رہتی تھی، اب پیپلزپارٹی بھی اُس کی ہم زباں ہو چکی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس طرح سے ادارے نوازلیگ کا گھیراؤ کیے بیٹھے ہیں اور میاں نوازشریف بار بار کسی خلائی مخلوق کا ذکر کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ نوازلیگ انتخابات سے ایک ہفتہ قبل بائیکاٹ کر دے۔ اگر ایسا ہو گیا تو ایسے انتخابات کو قومی و بین الاقوامی سطح پر کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔ یہ یقیناََ اُس انارکی کا پیش خیمہ ہوگا جس سے ہر صاحبِ دِل خوفزدہ ہے۔ ویسے ہمیں یقین کہ نوازلیگ میدان چھوڑ کر بھاگنے والی نہیں لیکن اگر زورآور حالات ہی ایسے پیدا کر دیں تو پھر کچھ بھی ممکن۔

پسِ تحریر :۔ بالآخر فیصلے کی گھڑی آن پہنچی، شریف خاندان کے خلاف’’ ایون فیلڈ ریفرنس ‘‘ کا فیصلہ کل سنایا جا رہا ہے۔ اگر شریف خاندان کے خلاف ماضی قریب میں کیے جانے والے فیصلوں کو مدّ ِ نظر رکھا جائے تو اڈیالہ جیل اُن کی منتظرکہ عدلیہ سے قربت کا دعویٰ کرنے اور اُس کی پُشت پر کھڑے ہونے کی بڑھکیں لگانے والے تو کئی ماہ سے قوم کو اڈیالہ جیل کی ’’نوید‘‘ سنا رہے ہیں لیکن اگر استغاثہ کے گواہوں ، جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء اور وکلاء کی بحث کو مدّ ِ نظر رکھا جائے تو فیصلہ حق میں بھی آ سکتا ہے۔ بہرحال یہ طے کہ جیل میں بیٹھا میاں نوازشریف حریفوں کے لیے آزاد نوازشریف سے کہیں زیادہ خطرناک ہو جائے گا۔ نوازلیگ پر حکم تو بہرحال اُس کے قائد میاں نوازشریف کا ہی چلنا ہے، وہ خواہ آزاد ہوں یا جیل میں۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642313 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More