خوبصورت لب و لہجے کی شاعرہ یا سینم حمید ایک تعارف

محترمہ یاسمین حمید عصر حاضر کی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں آپ بیک وقت نامور شاعرہ ، مترجم اور نقاد ہیں ۔ یاسمین حمیدگذشتہ ۲۵ برسوں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ آج کل ’’لاہور یونیورسٹی ٓاف مینجمنٹ سائنسز‘‘ کے شعبہ سوشل سائنسز سے وابستہ ہیں ۔۔ یاسمین حمید۱۹۵۰ء لاہور میں پیدا ہوئیں ۔ نو عمری سے شاعری کا آغاز کیا ۔ ادبی دنیا میں وہ 80 ءکی دہائی کے آخر میں سامنے آئیں ۔ ا ن کے اب تک کے شعری سرمائے کی تفصیل یوں ہے۔
پس آئینہ 1988 ء
حصار بے درودیوار 1991 ء،
آدھا دن اور آدھی رات 1996 ،
فنا بھی ایک سراب 2001 ء،
بے ثمر پیڑوں کی خواہش 2012 ۔

ان کے پہلے چار شعری مجموعوں پر محیط شعری کلیات ”دوسری زندگی“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی شاعری کے حوالے سے بھی ان کا کام موجود ہے ۔ ان علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے 1995 ءمیں لندن میں ، 1996 ء میں واشنگٹن میں ، پاکستان کے فیشن شو ، کلچرل فیسٹیول کے لیے سکرپٹس بھی لکھے ۔۔ یاسمین حمید مختلف انگریزی اور اردو اخبارات میں کالم بھی تحریر کیے ۔ پاکستانی ٹی۔ وی کی مشہور ادبی شخصیات کے انٹرویو بھی لیتی رہیں ہیں ۔ یاسمین حمیداعلیٰ تعلیم یافتہ شاعرہ ہیں ۔ ایم ایس ۔سی ’’تغزیات‘‘ میں جامعہ پنجاب سے ۱۹۷۲ء میں کیا ۔ نسلِ نو کی آواز تسلیم کی جاتی ہیں ۔پاکستانی شاعری کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا ۔۲۰۱۲ء میں یونائٹڈ بینک نے آپ کی انگریزی کتاب’’پاکستان ان اردو ورس‘‘ کو ایک لاکھ رُوپے کا ادبی انعام دیا ۔ یاسمین حمید کو ۱۴؍ اگست ۲۰۰۸ ء کو ’’ تمغہ امتیاز ‘‘ سے ، ۸ ؍ مارچ ۲۰۰۶ ء میں فاطمہ جناح میڈل برائے ادب سے اور ۲۰۰۱ ء میں احمد ندیم قاسمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ یاسمین حمید ، منفرد اسلوب کی حامل شاعرہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی شاعری کا رنگ رس جداگانہ ہے۔
تھوڑے غم کے حق میں ہیں ،تھوڑے خوشی کے حق میں ہیں
زندگی جیسی بھی ہے ہم زندگی کے حق میں ہیں

میرے فن کی نمود ہے جس سے
مجھ کو اس کرب نے سنبھالا ہے
میں تو زندہ وہاں پر بھی رہتی
مجھ کو ملبے سے کیوں نکالا ہے

بہت پہلے ، شکست و فتح کی منزل سے پہلے
کسی مشکل کا دل میں خوف ہے مشکل سے پہلے
نموئے عشق نے تعمیر کے عالم میں رکھا
یہ دنیا اور تھی آثار آب و گل سے پہلے
یاسمین حمید کی یہ غزل ان کے تیسرے مجموعے میں چھپ چکی ہے ۔
مجھے آگہی کا نشاں سمجھ کے مٹاؤ مت
یہ چراغ جلنے لگا ہے اس کو بجھاؤ مت
مجھے جاگنا ہے تمام عمر اسی طرح
مجھے صبح و شام کے سلسلے میں ملاؤ مت
مجھے علم ہے مرے خال و خد میں کمی ہے کیا
مجھے آئینے کا طلسم کوئی دکھاؤ مت
میں خلوص دل کی بلندیوں کے سفر پہ ہوں
مجھے داستان فریب کوئی سناؤ مت
مجھے دیکھ لینے دو صبح فردا کی روشنی
مری آنکھ سے ابھی ہاتھ اپنا ہٹاؤ مت
وہی پیڑ ہے وہی شاخ ہے وہی نام ہے
جو گرا ہے پھول یہاں سے اس کو اٹھاؤ مت
مجھے تہہ میں جا کے اچھالنے ہیں گہر کئی
میں ہوں مطمئن مجھے ڈوبنے سے بچاؤ مت
تمہیں بے مقام رفاقتوں کی تلاش ہے
مرا شہر شہر ثبات ہے یہاں آؤ مت
ایک دوسری غزل ہے جو پانچویں شعری مجموعے سے ہے۔
لہجے کے تیکھے تیور پر لفظوں کی من مانی پر
کبھی کبھی ہنسنا پڑتا ہے اپنی کسی کہانی پر
کبھی قلم سے کاغذ پر جب منظر ایک بناتی ہوں
دور تلک بہتی ہوں دھیان کے دریاؤں کی روانی پر
ساتوں در جب کھل جاتے ہیں سات سروں کے سواگت میں
حیرت سی ہونے لگتی ہے مجھ کو اس مہمانی پر
آب و ہوا دل کے خطے کی بدلی بدلی لگتی ہے
تیز ہوائیں تیز بہت ہیں ، موجیں ہیں طغیانی پر
مجھ میں ایک ضدی بچے نے میری بات کو آن لیا
اپنے آپ کو ٹوکا جب اپنی نادانی پر
کرنے کے جو کام نہیں تھے وہ بھی کر کے دیکھ لیے
ریت پر میں نے کشتی کھینچی ، شہر بنایا پانی پر

Naeema Bibi
About the Author: Naeema Bibi Read More Articles by Naeema Bibi: 11 Articles with 20347 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.