نادیہ عنبر لودھی اردو زبان کی شاعرہ ہیں آپ کا تعلق
اسلام آباد سے ہے ۔ غزل رباعی نظم کہتی ہیں برطانیہ کے اخبار خبریں مانچسٹر
سے مدیرہ کی حیثیت سے وابستہ ہیں ۔ آپ نے اردو ادب میں ایم ۔
نثر نگاری میں مضامین نگاری کرتی ہیں ۔
دل بھی پایا تو بلا کا زود رنج
اک اداسی گھیرے رہتی ہے اِسے
شعر بہت اچھی شاعرہ اور نثر نگار محترمہ نادیہ عنبر لودھی کا ہے ۔اصل شعر
ایسے ہے کہ
لیکن مرے خیال میں نادیہ عنبر لودھی صاحبہ کا تعلق اداسی کے دبستان سے ہے ۔
آپ کی شاعری قاری کو حقیقت پسندی کے قریب لے جاتی ہے ۔
جہاں ٹوٹے خوابوں کی کر چیاں ہیں ۔
نادیہ عنبر صاحبہ ہمارے اخبار سے ریذیڈنٹ مدیرہ ( اسلام آباد ، پاکستان )کی
حیثیت سے وابستہ ہیں ۔ نادیہ عنبر شاعری اور نثر کی جاندار آواز ہیں۔ آپ
بر طانیہ کے اردو اخبارات سے شہرت حاصل کرنے والی پاکستانی لکھاری ہیں
۔ جنہیں ہمارا اخبار ادبی ایوارڈ 2017 سے نواز چکا ہے آپ بچوں اور خواتین
کے مسائل پہ لکھتی ہیں۔
خواتین اور بچوں کی بے بسی پہ قلم اٹھاتی ہیں۔
محترمہ سے مرا تعارف شاعرہ کی حیثیت سے ہوا ۔
میں نے ان سے اپنے اخبار کے لیے کلام بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس وقت
وہ بر طانیہ کے اخباروں میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہی تھیں ۔معاشرتی معاشی
اخلاقی مسائل پہ قلم اٹھا رہی تھیں۔ پاکستانیوں کے مسائل سامنے لانے کی کو
شیش میں مصروف تھیں ۔ نادیہ عنبر لودھی صاحبہ نے ہمارے اخبار میں مضامین
لکھنے کا آغاز کیا ۔آپ کی لگن اور محنت کو دیکھتے ہوۓ اخبار نے آپ کو مدیرہ
کے عہدے پہ فائز کیا ۔
اس اخبار کو شائع ہوتے اکیس سال ہو نے کو آۓ ۔ پاکستان سے بے شمار لکھاریوں
نے اپنی تحریریں چھپوا ئیں ۔
لیکن جو مستقل مزاجی اور لگن محترمہ کے مزاج میں نظر آئی وہ کسی اور کے بس
کی بات نہیں ہے ۔
آپ بہت ہمت اور بہادری سے پرورش ِ لوح و قلم کر رہی ہیں ۔ کئی رکاوٹوں کا
سامنا کرتی ہیں ۔
کئی محاز پہ نبرد آزما دکھائی دیتی ہیں ۔ ہر لکھنے والا تخلیق کے عمل میں
بہت سے درد سہتا ہے ۔ حساس فطرت لوگوں کا یہ المیہ ہے ۔
نادیہ عنبر صاحبہ اصناف ِسخن میں غزل ، نظم ، رباعی اور قطعہ میں طبع
آزمائی کررہی ہیں ۔ محترمہ کے چند اشعار دیکھئے
۔۔۔۔
بس چند ہم خیال ہیں عنبر مجھے عزیز
بے حس جم ِ غفیر نہیں چاہیے مجھے
۔۔۔۔۔۔
زندہ رہتے ہیں کیا یہ کافی نہیں
کوئی لازم ہے پھر کہ خوش بھی ہوں
۔۔۔
پابجولاں تو ہر اک شخص یہاں ہے عنبر
تری زنجیر ہی کیوں شور بپا کرتی ہے
۔۔۔۔
مکتبِ عشق سے وابستہ ہوں کافی ہے مجھے
داد ِ غالب ، سند ِ میر نہیں چاہتی میں
۔۔۔۔
۔۔۔۔
عشق کی چاہئیے تعلیم ابھی اور اسے
جو محبت ادب ، آداب سے کم واقف ہے
۔۔۔۔۔
مرے اندر کا چہرہ مختلف ہے
بدن پر اور کچھ پایا گیا ہے
۔۔۔
ہوئی ہے زندگی افتاد ایسے
ہوس میں ہر مزا پایا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بے انت سمندر ہوں
کیسے دریا میں اتر جاؤں
۔۔۔۔
چادر ِشب ہوں میں تیری
تو اوڑھے تو سنور جاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو آغاز ِ سفر مارتا ہے
مرتا کوئی نہیں ڈر مارتا ہے
۔۔۔۔
زندگی اس کی ہے محتاج مگر
دے بھی سکتا ہے مگر مارتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
تجسس کی نظر سے دیکھتا ہے وقت بھی مجھ کو
میں کھلتی ہی نہیں اس صاحب ِ اسرار کے آگے
۔۔۔۔۔
فروزاں ہے ہر اک لذت سے لطفِ وصل کی ساعت
کہ ساقی خود سبُولاۓ شب بے دار کے آگے
۔۔۔۔۔
جمیل شیخ
مانچسٹر بر طانیہ
۔۔ |