اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق نے فلسطینی
شہریوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی حالیہ کارروائیوں کی تحقیقات کے لیے ایک
تحقیقاتی کمیشن غزہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں جمعے کو ۲۹ ممبر
ممالک کی حمایت کے بعد قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جلد
از جلد ایک بین الاقوامی اور آزاد تحقیقی کمیشن بھیجا جائے گا جو کہ غزہ
میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں اور "جارحیت"کی
تحقیقات کرے گا۔
اس قرارداد کی مخالفت میں صرف امریکہ اورآسٹریلیا نے ووٹ دیا جبکہ ۱۴ ممالک
نے حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق
۴۷ ممالک پر مشتمل ہے۔ قرارداد کے مطابق یہ تحقیقاتی کمیشن ۳۰ مارچ ۲۰۱۸ء
کے بعد سے غزہ میں بڑی تعداد میں احتجاج کرنے والے شہریوں کے خلاف فوجی
کارروائی کے سلسلے میں تمام مبینہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لے گا۔ یہ کمیشن
اپنی حتمی رپورٹ اگلے سال مارچ تک پیش کرے گا۔
قرارداد کے منظور ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے
ٹوئٹر سے پیغام بھی جاری کیا گیا جس میں قرارداد کی منظوری اور اس کی حمایت
اور مخالفت میں ملنے والے ووٹوں کے بارے میں معلومات تھیں۔اس سے قبل اقوام
متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے اسرائیل کے فلسطینی مظاہرین کے
خلاف طاقت کے استعمال کو مکمل طور پر ’’نامناسب‘‘ قرار دیا ہے۔ زید رعاد
الحسین نے جنیوا میں منعقدہ ایک اجلاس میں بتایا کہ غزہ کے رہنے والے
’’موثر انداز سے زہر آلود پنجرے‘‘ میں بند ہیں اور اسرائیل کو غزہ کا قبضہ
ختم کرنا چاہیے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زید راد
الحسین غزہ کی صورتحال پر منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس میں بتایا کہ دونوں
جانب سے ہونے والے ہلاکتوں کی تعداد میں واضح فرق اندازہ ہوتا ہے کہ
اسرائیل کی جانب سے ردّعمل مکمل طور پر غیر مناسب تھا۔انہوں نے کہا کہ
اطلاعات کے مطابق پیر کو پتھر لگنے سے ایک اسرائیلی فوجی معمولی زخمی ہو
گیا جبکہ مظاہرے کے مقام پر ۴۳ فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد مزید ۱۷
فلسطینی مظاہروں کی جگہ پر مارے گئے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایک خصوصی سازش
کے تحت اس وقت فلسطین میں اقتدارکی رسہ کشی نے ان کواب داخلی طورپربھی
کمزور کرنا شروع کردیاہے۔
اس سازش کاآغازاس وقت ہواجب ۱۵/ اور ۲۱ مئی کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے
صدر محمود عباس کو تین بار رام اللہ کے مرکزی اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ ان
کے کان کا آپریشن ہوا ہے۔ مختلف ٹیسٹ کے نتائج کی روشنی میں ڈاکٹر کہتے
ہیں کہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے تاہم ان کی صحت کے حوالے سے چہ مگوئیاں
جاری ہیں، قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ ۲۰ مئی کو محمود عباس تیسری
مرتبہ اسپتال میں داخل کیے گئے۔ یہ پھیپھڑوں کے انفیکشن کا معاملہ تھا۔
انہیں نَس کے ذریعے اینٹی بایوٹکس دی گئیں۔
۸۲ سالہ محمود عباس کو اس سال اسپتال میں داخل کرنے کایہ کوئی پہلا واقعہ
نہیں۔ فروری میں انہیں میری لینڈ (امریکا) کے جان ہاپکنز اسپتال میں داخل
کیا گیا تھا اور یہ بات اب تک واضح نہیں ہوسکی کہ وہ کس مرض میں مبتلا تھے
یا محض معمول کے طبی معائنے کے لیے گئے تھے۔ یہ وقت محمود عباس کے جانشین
کے انتخاب کا ہے۔ ان کی صحت کے حوالے سے کسی بھی وقت کوئی چونکانے والی خبر
آسکتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ پس پردہ تیاریاں شروع کردی جائیں۔
محمود عباس سے وابستہ ایک فلسطینی افسر نے بتایا کہ کسی بھی عام آدمی کی
طرح محمود عباس بھی بیمار پڑتے اور صحت یاب ہوتے ہیں۔ ان کی عمر بھی خاصی
ہے اور کام کا بوجھ بھی بہت ہے، جس کے باعث وہ تھک جاتے ہیں۔ مگر خیر، اس
حوالے سے زیادہ قیاس آرائیوں کی گنجائش نہیں۔ ان کے معاونین اب بھی انہیں
فائلز بھیجتے ہیں اور وہ اسپتال میں اپنے بستر پر ہی بہت سے دفتری امور
نمٹاتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں زیادہ چلنے پھرنے سے منع کیا ہے اور آرام کا
بھی مشورہ دیا ہے۔ محمود عباس اگرچہ آرام کر رہے ہیں مگر تھوڑا بہت کام
بھی وہ کر ہی رہے ہیں۔ ویسے فلسطین کے آئینی اداروں (فلسطین نیشنل کونسل،
فلسطین لیجسلیٹیو کونسل، فلسطین نیشنل کمیٹی یا ایگزیکٹیو کمیٹی آف فلسطین
لبریشن آرگنائزیشن وغیرہ) کو اختیار ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کے
ابھرنے سے پہلے ہی مشاورت کا عمل کرکے کوئی متبادل انتظام تیار کرے۔ تشویش
ناک بات یہ ہے کہ محمود عباس اسپتال میں داخل کیے گئے اور ۱۷مئی کو استنبول
(ترکی) میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔ ان
کی عدم شرکت نے فلسطینی علاقوں کے علاوہ دنیا بھر میں قیاس آرائیوں کو جنم
دیا ہے۔ مصر، قطراورترکی کے سربراہانِ مملکت وحکومت کے علاوہ عرب لیگ کے
راہنماؤں نے بھی فون کرکے اُن کی خیریت دریافت کی۔ محمود عباس کے حامی اور
مخالف فلسطینی راہنماؤں میں سے کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ ان کے ایک
قریبی ساتھی اور تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے
سیکریٹری جنرل صائب ارکات کہتے ہیں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محمود عباس
کی صحت کے حوالے سے افواہیں بے بنیاد ہیں۔ ان کی صحت اچھی ہے اور وہ کام
کرتے رہنے کی پوزیشن میں ہیں۔
عرب میڈیا، بین الاقوامی میڈیا، حتیٰ کہ اسرائیلی میڈیا نے بھی محمود عباس
کی صحت کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں شائع کی ہیں۔ فلسطینی میڈیا
البتہ مجموعی طور پر محتاط رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ محمود عباس کے بارے
میں کچھ زیادہ کہیں اور قیاس آرائیوں کوہوا ملے۔ فلسطینی میڈیا کی کوشش یہ
ہے کہ محمود عباس کا جانشین تلاش کرنے کا معاملہ بھی اس طور طشت از بام
نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ حقیقت تک پہنچ سکیں۔
غیرسرکاری تنظیموں سے امورکے سابق فلسطینی وزیرحسن اصفرکہتے ہیں کہ محمود
عباس کی صحت خراب ہے، ان کی عمر بھی زیادہ ہے اس لیے حقیقت پسندی کا مظاہرہ
کیا جانا چاہیے۔ اس سے فلسطینی اتھارٹی کے اندرونی بحران کا بھی پتا چلتا
ہے۔ محمود عباس کی صحت کے بارے میں کچھ نہ کہے جانے سے اندازہ لگایا جاسکتا
ہے کہ معاملات کی خرابی کہاں تک ہے۔ عام فلسطینیوں کو محمود عباس کی صحت کے
حوالے سے تاریکی میں رکھا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی
ہو کہ خود محمود عباس کے اپنے قریبی ساتھی کسی بھی ہنگامی کیفیت کا سامنا
کرنا کے لیے تیار نہ ہوں۔
حسن اصفرنے المانیٹر کومزید بتایا کہ محمود عباس کے ساتھی اب تک حقیقت
کاسامنا کرنے کے لیے ذہنی طورپرتیارنہیں۔ انہوں نے محمود عباس کےبعد کی
صورت حال کے حوالے سے کچھ بھی کہنے، مشاورت کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس کے
نتیجے میں خاصی گنجلک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر محمود عباس کا جانشین
منتخب کرنے کے معاملے میں مشاورت کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہ ہوا
تو غیر معمولی سیاسی بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔
محمود عباس کے بعد کی مدت کے لیے کئی منظر نامے زیر غور ہیں۔ فلسطین کا
بنیادی قانون اسپیکر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ
کی عدم موجودگی میں ساٹھ دن (یعنی انتخاب تک) اس منصب پر خدمات انجام دیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ محمود عباس کے فریم سے نکلنے سے قبل ہی ان کا نائب
مقرر کردیا جائے۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فلسطینی وزیر اعظم رامی حمد
اللہ یا پھر الفتح کے نائب سربراہ محمود اللول فلسطینی اتھارٹی کی سربراہی
سنبھالیں۔ محمود عباس نے اب تک اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ تمام
معاملات پر ان کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنا نائب مقرر کرنے
سے گریز کیا ہے۔ انہیں شاید یہ خوف لاحق ہے کہ ان کا نائب اُن کا تختہ الٹ
دے گا۔
حماس نے اس صورت حال پر اب تک خاموشی برقرار رکھی ہے۔ محمود عباس نے غزہ کے
معاملات پر اپنی گرفت مضبوط رکھی ہے اور اپریل ۲۰۱۷ء سے جو پابندیاں انہوں
نے غزہ کی پٹی پر نافذ کی ہیں ان کے بعد سے حماس کو ایک طرف ہٹانے کا عمل
جاری رہا ہے۔ حماس کے ترجمان نے محمودعباس کی صحت کے حوالے سے المانیٹر سے
بات کرنے سے معذرت کرلی۔
حماس کے پاس آئینی طور پر ایک وننگ کارڈ ہے۔ محمود عباس کے نہ ہونے کی
صورت میں فلسطینی قانون ساز کونسل کے اسپیکر کو ساٹھ دن کے لیے یہ منصب مل
سکتا ہے۔ اس وقت اسپیکر کے منصب پر عزیز دویک فائز ہیں جن کا تعلق حماس سے
ہے۔ وہ غرب اردن سے تعلق رکھتے ہیں۔ حماس کے لیے یہ بات بہت حد تک مطمئن ہو
رہنے کی ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی شخصیت اسپیکر کے منصب پر فائز ہے۔ یہ
الگ بات ہے کہ عزیز دویک سیاسی منظر نامے سے غائب رہتے ہیں اور انہیں
فلسطینی اتھارٹی سے کسی سیاسی تنازع میں الجھنا بھی زیادہ پسند نہیں۔ انہیں
اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں گرفتار کیے جانے کا خدشہ بھی لاحق رہتا ہے۔ اگر
عزیز دویک نے آگے نہ بڑھنے اور فلسطینی اتھارٹی میں رونما ہونے والی قیادت
کی تبدیلی میں اہم کردار ادا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو حماس ایک اہم وننگ
کارڈ سے محروم ہوسکتی ہے۔
دی فلسطین سینٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز ہانی المصری نے
المانیٹر سے گفتگو میں کہا کہ رام اللہ میں اپریل کے آخر میں فلسطینی قومی
کونسل کے اجلاس کے دوران محمود عباس کے جانشین کے حوالے سے مشاورت ہوچکی ہے
اور کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیاریاں شروع کی جاچکی ہیں۔ فلسطینی قومی کونسل
کا یہ سیشن محمود عباس کا جانشین منتخب کرنے اور اقتدار کو بہتر انداز سے
منتقل کرنے کا میکینزم تیار کرسکتا تھا مگر محمود عباس نے ایسا کوئی بھی
میکینزم تیار کرنے میں معاونت سے انکارکردیا۔
حسن المصری کے مطابق سنگین بات یہ ہے کہ اب تک فلسطینی اتھارٹی میں کوئی
رہنما ایسے ممکنہ امیدوار کے طور پر سامنے نہیں آیا جسے مجموعی طور پر سب
کی حمایت حاصل ہو یا جس پرسب متفق ہوں اورشاید محمود عباس بھی یہ سمجھتے
ہیں کہ کسی بھی امیدوار یعنی نائب کی حمایت نہ کرکے وہ اپنے آپ کو زیادہ
طاقتور ثابت کر رہے ہیں۔ کئی امیدوار ہیں جو محمود عباس کو رجھانے کی کوشش
کر رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر محمود عباس نے اپنا جانشین واضح نہ کیا
اور اس کی حمایت نہ کی تو ان کے بعد سنگین سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ یہ بحران عارضی نوعیت کا ہو اور اقتدار کی تقسیم کا عمل جلد
مکمل ہوجائے تاہم خرابی پیدا تو ہوکر رہے گی۔
محمود عباس کے پاس تین بڑے منصب ہیں۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کے علاوہ تنظیم
آزادیٔ فلسطین اور فتح کے بھی سربراہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمود عباس
کے بعد یہ تینوں عہدے الگ الگ شخصیات کو جاسکتے ہیں۔ اگر حماس نے غرب اردن
میں زیادہ دلچسپی نہ لی تو یہ تینوں عہدے فتح گروپ کو جائیں گے۔ ممکنہ
امیدواروں میں صائب ارکات، محمود اللول، ماجد فراج اور جبری رجوب شامل ہیں۔
صدارتی انتخاب کے دوران حماس کے لاتعلق رہنے کا البتہ امکان نہیں۔ ہوسکتا
ہے کہ وہ اپنا امیدوار کھڑا کرے یا پھر کسی امیدوار کی کھل کر حمایت کرے۔
خدشہ ہے کہ اقتدارکے حصول کی رسہ کشی میں کسی سیاسی رہنماء کاقتل کسی بڑی
داخلہ خانہ جنگی کاسبب بھی بن سکتاہے اوریہی اس سازش کی کامیابی ہوگی۔ |