ستار خان،رؤف کلاسرا اور کپتان کے کھلاڑی

مجھے بطور صحافی کام کرتے ہوئے چند ہی برس ہوئے ہیں مگر اس چھوٹے سے عرصے میں اﷲ نے جتنا کرم مجھ پر کیا ہے میں اس قابل ہرگز نہیں تھا، یہ اس کا ہی خصوصی کرم ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ،کالم کا انداز اس لیے مختلف ہے کیونکہ یہ کالم بھی منفرد اور دوسرے کالموں سے مختلف ہے ،ریڈیو سے پرنٹ میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے الیکٹر انک میڈیا کے اس سفر میں مجھے ایک نجی چینل میں بطور ٹیم ممبر معروف صحافی ،اینکر پرسن اور منفرد شخصیت کے مالک عبدالستار خان کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا ، انسان ساری زندگی سیکھنے کے عمل میں رہتا ہے مگر وہ لمحات بہت یادگار ہوتے ہیں جن میں آپ کسی بڑی شخصیت کیساتھ کام کرتے اور ان سے کچھ حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ستار خان چونکہ بہت ہی الگ قسم کے صحافی ہیں اسی لیے وہ پروگرام بھی اپنی طرح کے ہی منفرد اور الگ قسم کے ہی کرتے ہیں،ستار خان 1980کے دور کے صحافی ہیں اور آج کل کے بڑے اینکرز ان کو سینئرز ہی مانتے ہیں ،یوں تو ستار خان نے مجھے ماضی کی یادیں جو ،صحافیوں ،ادبیوں ،سیاستدانوں اور عام لوگوں سے جڑی ہوئی تھیں سب حسب موقع بتائی ،دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ پانچ صحافیوں کا اکثر و بیشتر ذکر کرتے تھے کہ ان کے پاس انفارمیشن ہوتی ہے ،یہ دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں ، ستار خان چونکہ ماضی میں جس طرح کے منفرد شو کرتے رہے ان کے بارے میں متعدد صحافیوں سے معلوم کریں تو وہ ان کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ’’ستار خان’’ سکرین سرجری‘‘ کرتا ہے‘‘ ستارخان اس طرح کا کوئی ٹاک شو پسند نہیں کرتے جس میں ایک اینکر پروگرام میں آئے دو مہمانوں کی لڑائی کو ریٹنگ کیلئے استعمال کرے ، ستار خان وہ واحد اینکر ہیں جو بغیر کسی مہمان کے پروگرام کرتے تھے اور اپنے پروگرام میں اگر وہ کسی شخص پر کریشن یا دیگر موضوع کا احاطہ کرتے تو اس کے متعلق کی گئی ہر بات کی دستاویزت سکرین پر لاتے تھے، یہی وجہ تھی کہ سب کہتے تھے’’ خان جی آپ کے شو بہت اچھے ہوتے ہیں مگر چینلز کے مالکان کو ہمیشہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘ اس لیے خان جی نے بطور اینکر بہت سے کم وقت میں بہت زیادہ چینلز پر کام کیا ہے ، خیر بات ہو رہی تھی ان پانچ صحافیوں کی جس کا تذکرہ ستار خان کی گفتگو میں اکثر و بیشتر رہتا تھا، ستار خان کہتے تھے ’’مجھے یہ اینکرز اس لیے پسند ہیں کہ ان کے پاس معلومات ہوتی ہے ،ان اینکرز میں عارف نظامی ، رؤف کلاسرا،عامر متین ،ارشد شریف اور غلام حسین شامل ہیں ‘‘، لیکن ان کے فیورٹ اینکرز میں رؤف کلاسرا اورارشد شریف تھے ، روف کلاسرا اور ارشدشریف کے بارے میں وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ’’ ان دونوں کی دوستی ہے مگر یہ خبر کی جستجو میں الگ الگ طریقوں سے رہتے ہیں اور بغیر کسی دلیل کے بات نہیں کرتے ہیں ‘‘ جہاں تک مجھے پتہ ہے اور رؤف کلاسرا کومیں جتنا جانتا ہوں اس حوالے سے کہہ دوں کہ روف کلاسرا مجھے ذاتی طور پر بھی پسند ہے اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ پروگرام ہو یا کالم یا پھر پریس کلب میں نجی گفتگو ہر وقت وہ مسائل کو اپنی گفتگو کا حصہ بناتے ہیں اور عوام سے جڑی باتیں ہمیشہ سے ہی کرتے ہیں ،رؤف کلاسرا نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کے حوالے سے چند روزقبل ریحام خان اور عمران خان کی شادی سے طلاق تک کے کالم کا جو سلسلہ ’’عمران ، ریحام،شیرو اور میں ‘‘کے عنوان سے شروع کیا تھا ،محض دس کالم تک رکھا اور قارئین سے معذرت کر لی اس کی وجہ رؤف کلاسرا نے یہ بتائی ہے کہ ان کو عالمی سطح پر دباؤ کا سامنا ہے ،رؤف کلاسرا جی ہم یہ جانتے ہیں کہ ریحام اور حسین حقانی اور دیگر ملک دشمن عناصر کا لنک آپس میں کیا ہے ، مگر میری چند گزارشات آپ اور کپتان کے کھلاڑیوں سے بھی ہیں،رؤف کلاسرا پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کے قارئین کی تعداد بہت سے کالم نگاروں سے بہتر ہے اور آپ نے ویسے بھی جس موضوع کو چھڑا ہے اس میں پاکستان کے عوام دلچسپی ہے ،اس لیے آپ اس کو بین الاقوامی دباؤ سے نکل کر پھر سے اسکا آغاز کرنا چاہیے ، رؤف کلاسرا جی مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ طلاق میں شیرو کا کردار بھی اہم تھا اور آپ نے کہا بھی تھا کہ آپ بتائیں گئے ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ شادی سے طلاق تک کا سارا سفر آپ نے بہت قریب سے دیکھا ہے ، عارف نظامی آپ اور دیگر صحافیوں نے جب شادی کی خبر بریک کی تھی تو اس وقت اینکر پرسن کامران شاہد سر پکڑ کے بیٹھ گئے تھے کہ خان نے کیا غلطی کی ہے مگر ریحام خان کی مبینہ کتاب کے حوالے سے جب کامران شاہد نے ایک شو کیا تومران شاہد نے کہا کہ ’’عمران خان نے ریحام سے شادی کر کے غلطی کی مگر اب مجھے سمجھ آئی کہ عمران خان کو ریحام سے زیادہ شیرو کیوں پسند تھا‘‘ رؤف کلاسرا آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ طلاق کی جہاں دیگر وجوہات ہیں وہاں شیرو کا کردار بھی بہت اہم ہے ، میرے حلقہ احباب میں جو آپ سے پیار کرتے ہیں وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ رؤف کلاسرا ’’عمران ،ریحام،شیرو اور میں ‘‘ کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں، دوسری جانب کپتان کے کھلاڑیوں کو یہ سمجھنا چاہے کہ عقیدت اپنی جگہ حقائق اپنی جگہ ۔کھلاڑی کپتان سے محبت کریں اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر رؤف کلاسرا اور ارشد شریف سمیت ہزاروں ایسے صحافیوں کی ایمانداری پر شک تو نہ کریں،کپتان کے کھلاڑیوں کو ارشد شریف اور رؤف کلاسرا پر لفافہ صحافت کا الزام لگانے سے قبل ماضی کو دیکھنا چاہے ان کے الزام سے تو یہی مطلب نکلتاہے کہ ارشد شریف اور رؤف کلاسرا نے گذشتہ ساڈھے چار سال پاکستان تحریک انصاف سے پیسے لے رکھے تھے جب عمران خان کی حمایت میں بولتے تھے ، اُس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن )اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی رؤف کلاسرا ، ارشد شریف،کاشف عباسی ،عارف حمید بھٹی اور دیگر صحافیوں پر لفافہ صحافت کا الزام لگاتے تھے ۔میں اس وقت بھی اس عمل کیخلاف تھا اور آج بھی اس عمل کیخلاف ہوں، صحافیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح کریں اور مسائل کو اجاگر کریں خواہ وہ مسائل کسی بھی پارٹی کے کسی بھی فرد کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہوئے ہوں، دوسری بات کپتان کے کھلاڑیوں کو یہ زیب اس لیے بھی نہیں دیتا کہ بہت سے صحافیوں کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کی نسبت پی ٹی آئی کے کھلاڑی پڑھے لکھے ہیں تو پھر کیا ضرورت آن پڑی کے آپ رؤف کلاسرا اور ارشد شریف پر لفافہ صحافت کا الزام لگائیں ۔کپتان کے کھلاڑیوں کا صحافیوں پر الزام لگانے سے متعلق اور رؤف کلاسرا کو پھر سے ’’ریحام،عمران ،شیرو اور میں‘‘ کے مزید کالموں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ۔
 

M A Doshi
About the Author: M A Doshi Read More Articles by M A Doshi: 20 Articles with 17483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.