''نہیں، بس اب نہیں پیوں گا''۔ وہ یقین دلانے کی کوشش
کرتے۔ لیکن ان کی غیر ہوتی حالت ہمیں مجبور کر دیتی کہ انہیں دوبارہ سگریٹ
کی پیش کش کر دیں۔ وہ آنکھ سے نکلتے پانی اور منہ سے ٹپکتی رال کو روکنے کی
کوشش کرتے، اپنا سر کپڑے سے بندھواتے اور اگالدان قریب رکھ کر لیٹ جاتے۔
نہیں، چھوڑ دیے تو بس نہیں پیوں گا۔ سگریٹ چھوڑنے کا اثر ظاہر ہوتا،
دھونکنی کی طرح چلتی سانس اور شدید تکلیف دہ کھانسی، چڑچڑاہٹ، سردرد، بھوک،
سوچنے اور توجہ دینے کی صلاحیت میں کمی ظاہر ہونے لگتی بالآخر وہ سگریٹ
سلگاتے، چند کش لیتے تو حالت سنبھلنا شروع ہو جاتی۔
کئی مواقع پر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا جاں
بلب مریض، قریب بیٹھے بیٹے کی طرف ٹھنڈی نگاہ سے دیکھتا اور سگریٹ کی خواہش
کا اظہار کرتا ہے۔ آنسو بہاتی اولاد سگریٹ فراہم کرتی ہے۔ باپ چند کش لیتا
ہے اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیتا ہے۔ ملک خداداد میں لوگ ذہنی
سکون پانے کے لیے تو کچھ دوستوں کی خواہش پر اور کچھ شوقیہ اس عارضی سہارے
کا استعمال کرتے ہیں اور پھر یہ لت ان کی ذات کے ساتھ ایسا نتھنی ہوتی ہے
کہ جان بخشی مشکل ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ اس بات کا ادراک سب کو ہوتا ہے
سگریٹ نوشی کا انجام کیا ہوگا۔
اس کا انجام کرب و اذیت کے مختلف مراحل سے گزر کر موت کے منہ میں خود کو
دھکیلنا ہے۔ اس کے باوجود تمباکو نوشی سے بیماریوں اور اموات میں اضافہ ہی
دیکھنے میں آیا ہے۔ تمباکو نوشی سے سالانہ اموات کا جائزہ لیا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ یہ لت انسان کو کیسے موت کے منہ میں دھکیلتی ہے۔ ایک
رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ہر سال 1لاکھ 8ہزار 8سو افراد تمباکو نوشی سے
لقمہ اجل بنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں اموات کی یہ تعداد دیگر
حادثات میں ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے ہی کینسر کے پچاس فیصد امراض کی
وجہ تمباکو نوشی ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کے بعد دل کے امراض کا دوسرا بڑا سبب
بھی یہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا، خون کی نالیوں کا
تنگ ہونا، اسی سے دل کا دورہ اور اسٹروک کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ پھیپھڑوں
پر اثر کی وجہ سے اعضائے تنفس میں جرثومہ کا حملہ باآسانی ہوتا ہے اور
مستقل کھانسی شروع ہوجاتی ہے۔ پھیپھڑوں میں سرطان کی 90 فیصد وجہ تمباکو
نوشی ہے۔ پھیپھڑوں کے کینسر، گلے اور لبلبے کے کینسر کے شدید خطرات لاحق
رہتے ہیں اس کے علاوہ گردے، مثانہ، حلق، سانس کی نالی، نرخرہ، پیٹ اور غذا
کی نالی کا سرطان بھی سگریٹ نوشی کے سبب ہو سکتے ہیں۔
لیکن یہ سب بتانے سے فرق بھی کیا پڑے گا ؟آپ پینا تو ویسے بھی نہیں چھوڑیں
گے۔ خیر! تمباکو نوشی ایک وبائی مرض ہے جو حد درجہ خطرناک ہے۔ تمباکو کے
اندر ایک کیمیائی جزو ہے جو دراصل خطرناک قسم کے نشہ کا باعث ہے وہ نکوٹین
کہلاتا ہے۔ نکوٹین کا اثر اس قدر زہریلا ہوتا ہے کہ اس کا ایک خالص قطرہ
بھی کسی زبان پہ رکھا جائے تو اس کی موت کا سبب بن جائے۔ تاہم نکوٹین کے
علاوہ بھی ہزاروں قسم کے دوسرے کیمیائی اجزا ہیں جو نہ صرف زہریلا اثر
رکھتے ہیں بلکہ سگریٹ کے ایک کش سے نکوٹین اور دوسرے بے شمار زہریلے
کیمیائی مادے آٹھ سیکنڈ کے اندر پھیپھڑوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور پھر بے
شمار مضراثرات اپنا رنگ دکھاتے ہیں جس سے بے شمار بیماریاں جنم لے کر انسان
کو موت تک لے جاتی ہیں۔
اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں پوری شد و مد کے ساتھ تمباکو نوشی جاری ہے۔
تمباکو نوشی میں ماہرین کے مطابق 90 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سوچتا ہوں پاکستانی
کس قدر مالدار ہیں کہ سالانہ صرف 200 ارب کے تو سگریٹ پی جاتے ہیں۔ ایشا کے
چار بڑے ممالک، ''جہاں تمباکو نوشی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے''
میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 40 فیصد مرد، 9 فیصد
خواتین اس لت کا شکار ہیں۔ ہر روز ملک میں 1200 بچے سگریٹ نوش بن رہے ہیں۔
15فیصد طلبا و طالبات اس کے عادی ہو چکے ہیں۔
یہ ایک ایسا شکنجہ ہے کہ جس کو ''کس'' لیا، چھوڑتا تب ہی ہے جب انسان اندر
سے کھوکھلا ہو جاتا ہے اور موت کا اژدھا منہ کھولے اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا
ہے۔ ایک بزرگ کی بات یاد آتی ہے۔ کہا کرتے ہیں: سگریٹ مرکب ہے، سگ اور ریٹ
سے مل کر بنا۔ سگ کہتے ہیں کتے کو اور ریٹ کہتے ہیں چوہے کو، یہ بنفسہ پلید
ہے۔ یہ اتنی گندی چیز ہے جسے ہم پیے ہی جاتے ہیں۔ مزید کہتے ہیں: سگریٹ نوش
کو بدعا دینے کی ضرورت ہی نہیں یہ خود بددعائی ہے۔ اس کو کسی دشمن کی ضرورت
ہی نہیں۔ یہ اپنا، اپنی اولاد کا خود ہی دشمن ہے۔ اپنا مال بھی جلا رہا ہے
اپنی جان بھی جلا رہا ہے۔ اپنے اعمال بھی ضائع کر رہا ہے اپنا ایمان بھی
ضائع کر رہا ہے۔
سگریٹ اتنا جان لیوا مرض ہے کہ انسانی زندگی کے چودہ منٹ کم کر دیتا ہے۔ اس
کے بارے پوری جانکاری ہونے کے باوجود، اس کی ڈبیا پر ''خبردار! تمباکو نوشی
صحت کے لیے مضر ہے'' لکھے ہونے کے باوجود بالغ فرد روزانہ اوسطا 510 سگریٹ
پی جاتا ہے۔ خودکشی کے مترادف یہ عادت ہمیں اپنا گرویدہ ہی بنائے رکھتی ہے۔
ہم خود کے دشمن تو ہیں سو ہیں اپنے معاشرے، اپنے اردگرد رہنے والے اپنوں کے
بھی دشمن ہیں۔
بعض اوقات کسی کو منع کر لیں کہ حضور! سگریٹ نوشی مضر صحت ہے کینسر کا سبب
ہے، یا یہ دھواں تکلیف دے رہا ہے؛ تو وہ پھونک مار کر، سارا دھواں سامنے
والے کی بات پر انڈھیل کر انتہائی ڈھٹائی سے مسکراہٹ سے اپنے چہرے کو میلا
کرتے ہوئے جواب دیں گے کہ میں پی رہا ہوں ناں؟ یعنی تمہیں کیا تکلیف، جان
جلا رہا ہوں تو میں اپنی، تم کام سے کام رکھو۔ جان لینا چاہیے کہ سیکنڈ
ہینڈ اسموکنگ بھی نقصان دہ ہے جو سگریٹ نوش کے فضا میں چھوڑ ے دھوئیں کی
وجہ سے فضا میں آلودگی کے سبب ہوتی ہے۔ اس کے مضر اثرات بالواسطہ اور
بلاواسطہ ان تمام افراد کو اتنا ہی متاثر کرتے ہیں جتنا براہ راست سگریٹ
پینے والوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اور سال میں تقریبا ایک لاکھ سے زائد افراد
صرف اس کا دھواں اندر لے لینے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تمباکو نوشی مضر صحت ہے اس بارے آگاہی کے باوجود، ٹی وی ڈراموں اور فلموں
میں سگریٹ نوشی کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ جیسے یہ سکون اور مسرت کا ذریعہ
ہو۔ تمباکو نوشی کی ممانعت کا قانون 2002 کے تحت عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی
پر پابندی عائد ہے مگر دیگر قوانین کی طرح اس پر بھی عمل درآمد نہیں۔
خدارا! خود کی جان تو جلا دی، اپنی نسلوں کا تو تحفظ کیجیے۔ سگریٹ نوشی ترک
کر دیں تو اپنی اولاد پر، اپنی نسلوں پر آپ کا احسان ہو گا۔ سگریٹ مضر رساں
ہونے کے باوجود مستعمل ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے
لئے تمباکو نوشی کے خلاف متحرک ہو جائیں۔ ان تمام لوگوں کو بھی سگریٹ
چھوڑنے میں مدد دیں جو علت کا شکار ہیں۔ |