دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سے آگاہی کا دن منانے کا
مقصد اس خطرناک مرض کی روک تھام کے لئے اقدامات اور شعور اجاگر کرناہے ۔
دنیا بھر میں اس وقت پینتیس کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا
ہیں جن میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں
سالانہ دس لاکھ سے زائد افراد اس مرض کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔ طبی ماہرین
کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے باعث سالانہ بنیادوں پر
ہلاکتوں کی تعداد سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس مرض کا شکار بننے
والے نوے فیصد سے زائد افراد کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہیپاٹائٹس کی
وجہ بننے والے وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق
ہیپاٹائٹس کی مجموعی طور پر پانچ قسمیں ہیں، جو ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی
اور ای کہلاتی ہیں، ان میں سے اس بیماری کی سب سے عام قسمیں ہیپاٹائٹس بی
اور سی ہیں جوکہ وز بروز ہولناک صورت اختیار کرتی جارہی ہیں، اور بروقت
علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماریاں خطرناک نوعیت اختیار کرتے ہوئے جگر کے
سرطان اور لیور سیروسزکی شکل اختیارکرجاتی ہیں۔ یہاں واضع رہے کہ ہیپا
ٹائٹس جگر کی سوزش کی بیماری ہے، جو ایک وائرل انفیکشن یا سم آلود عفونت سے
جنم لیتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہیپا ٹائٹس اے اور
ای عموماً آلودہ پانی اور ناقص خوراک کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ ہیپا ٹائٹس بی،
سی اور ڈی انسانی جسم میں پائے جانے والے عفونت زدہ سیّال مادے، خاص طور پر
خون کی ایک سے دوسرے جسم تک منتقلی سے پیدا ہوتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق
یہ مرض پیدائش کے دوران ماں سے بچوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ وائرس متاثرہ
مریض کے ٹوتھ برش استعمال کرنے اور متاثرہ مریض کے نیل کٹر استعمال کرنے سے
بھی لاحق ہوجاتا ہے، گھر کے کسی بھی فردکویہ مرض لاحق ہونے کی صورت میں اس
کا ٹوتھ برش، نیل کٹر، قینچی علیحدہ کردی جائے۔ مرد حجام کے پاس شیوکرانے
سے گریز کریں ، کیونکہ عموماً حجام کے استرے اور سامان اسٹرلائز نہیں ہوتے
اور استعمال کیے جانے والے استرے بھی آلودہ ہوتے ہیں جوکسی بھی خون کی
خطرناک بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ جبکہ خواتین میں ہیپاٹائٹس کی بڑی وجہ
بیوٹی پارلر اور ناقص میک اپ کا استعمال ہے۔ استعمال شدہ سرنجز بھی
ہیپاٹائٹس پھیلانے کی اہم وجہ ہیں۔ ہیپا ٹائٹس بی جنسی اختلاط سے بھی پیدا
ہوتا ہے۔ لیکن ہیپاٹائٹس بی اور سی کوئی اچھوت کا مرض نہیں ، اس لیے یہ
ہاتھ ملانے ،کھانسی یا چھینکنے یا اکھٹے کھانے پینے سے نہیں پھیلتا ۔ اقوام
متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس وائرس کی تباہ
کاری سامنے آرہی ہے ، لہٰذا والدین بچے کو پیدائش کے بعد ہیپاٹائٹس بی سے
بچاؤ کی حفاظتی ویکسین لازمی لگوائیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جگر کے
اس مرض کے پھیلاؤمیں سب سے بڑا خطرہ ایسے مریض ہیں جو اپنے مرض سے آگاہ
نہیں ہوتے اور وہ اسے دیگر افراد میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے مرض
کے آخری اسٹیج یا اس بیماری کے حد سے بڑھ جانے کی صورت میں جگر ٹرانسپلانٹ
یا پیوند کاری کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔
ہیپاٹائٹس کی ابتدائی علامات میں متلی، قے ، دست لگ جانا ، پیشاب کی رنگت
کا گہرا زرد ہوجانا،آنکھوں کی سفیدی پر پیلا پن غالب آ جانا، جلد پر بھی
پیلا پن نظر آنا، تھکن اور گراوٹ کا احساس، بھوک میں کمی آ جاناشامل ہیں۔
اگر بروقت تشخیص کے بعد مریض کا متواتر علاج ہوتا رہے تو چند ہفتوں میں اس
مرض کا کامیاب علاج ممکن ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق بڑھتے ہوئے ہیپاٹائٹس کے
مرض سے بچنے کے لیے احتیاط ہی بہترین طریقہ ہے، جس سے آپ خود کو اس موذی
مرض سے بچا سکتے ہیں۔ اس مہلک مرض سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر
اختیار کرنا بہت ضروری ہے ،مثلاً خون لگوانے سے پہلے ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ
ضرور کروانا چاہیے ،انجکشن کے لئے ہر بار نئی سرنج کے استعمال پر اسرار
کرنا چاہیے،آپ خواہ تندرست کیوں نہ ہو پھر بھی سال میں کم از کم دوبار اپنا
خون ٹیسٹ اور مکمل میڈیکل چیک اپ ضرور کرو انا چاہیے تاکہ تمام مہلک امراض
پر ابتدائی مراحل میں ہی قابو پایا جاسکے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے وفاقی
اور صوبائی سطح پر ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور علاج کے لیے خصوصی پروگرام
جاری ہیں، گھر گھر حفاظتی ٹیکے لگانے کے علاوہ ہر بڑے اور چھوٹے ہسپتال میں
اس بیماری سے بچاؤ کے لئے ویکسی نیشن کروائی جا رہی ہے، سرکاری ہسپتالوں
میں مریضوں کو تقریباً مفت علاج کی سہولت میسر ہے، اس مرض میں مبتلا افراد
کو بزریعہ کورئیر کمپنی ادوایات گھر تک بھی فراہم کی جارہی ہیں، مگر اس کے
باوجود عوامی تعاون کے بغیر اس مرض پر قابو پانا مشکل ہے، ہیپاٹائٹس پر
قابو پانے کے لئے عوام کو بھی صحت ، صفائی اور غذا ء کے استعمال میں احتیاط
برتتے ہوئے اپنا موثر کردارادا کرناچاہئے۔ اس مرض سے آگاہی کے لئے عالمی
ادارہ صحت ،ورلڈ ہیپاٹائٹس الائنس ، محکمہ صحت حکومت پنجاب ،
لیورآرگنائزیشن پاکستان، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور دیگر سماجی
تنظیموں کے اشتراک سے وفاقی و تمام صوبائی دارالحکومتوں سمیت ڈویژنل وضلعی
ہیڈکوارٹرز میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتاہے تاکہ اس مرض پر بھرطور
طریقے سے قابو پایا جاسکے۔
٭……٭……٭
|