قرآن وحدیث نے میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کو بڑھانے کے
بجائے ہمیشہ ایسے اسباب اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے کہ جن سے دونوں کے
درمیان ایسی محبت، الفت، تعلق ، اور ہمدردی پیدا ہو جو دنیا میں کسی بھی دو
شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ شریعت اسلامیہ میں دونوں میاں بیوی کو ایک
دوسرے کے احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق یعنی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو
اداکرنے بار بار تعلیم دی گئی ہے۔ چند آیات واحادیث نبویہ پیش خدمت ہیں:
۱) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! یہ بات تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ
تم زبردستی عورت کے مالک بن بیٹھو۔ اور ان کو اس غرض سے مقید نہ کرو کہ تم
نے جو کچھ ان کو دیا ہے ، اس کا کچھ حصہ لے اُڑو، الّا یہ کہ وہ کھلی بے
حیائی کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو۔ اور
اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہوتو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند
کرتے ہو اور اﷲ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ (سورۃ النساء ۱۹) ا س
آیت میں اﷲ تعالیٰ نے مردوں سے کہا ہے کہ بیوی تمہاری طرح ایک عزت دار
انسان ہے، تمہاری باندی نہیں ہے، انسانیت اور بشریت کا تقاضہ ہے کہ اس کے
ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور اس کی عزت وناموس کا ہر وقت خیال رکھا جائے۔
۲) اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نکاح کے مقاصد میں سے دو اہم مقصد بیان
فرمائے ہیں: اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا
کیں تاکہ تم اُن سے آرام پاؤ، اور اُس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدری
قائم کردی، یقینا غوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (سورۃ
الروم ۲۱) علامہ ابن کثیر ؒ نے تحریر کیا ہے کہ کسی بھی دو روحوں کے درمیان
اتنی الفت ومحبت اور تعلق نہیں ہوتا جتنا میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے۔ ۳)
سورۃ البقرۃ ۲۸۸ میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ان عورتوں کو معروف طریقہ
کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) اُن پر حاصل ہیں۔ ہاں
مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ یعنی جس طرح شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں
اسی طرح بیوی کے بھی شوہر پر حقوق ہیں۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما
فرماتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے لئے ویسا ہی سجتا ہوں جیسا وہ میرے لئے زیب
وزینت اختیار کرتی ہے، اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَلَہُنَّ مِثْلُ
الَّذِیْ عَلَےْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ) اور میں چاہتا ہوں کہ جو بھی میری
بیوی کے میرے اوپر حق ہیں وہ سب ادا کروں کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَ
لِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃٌ) (مصنف ابن شیبہ) ۴) حضور اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جو شخص اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ پڑوسی کو
تکلیف نہ پہنچائے اور میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا
ہوں کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا
اس کے اوپر کا حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے،
اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی باقی رہ جائے گی، اس لئے میں تمہیں
عورتوں کے بارے میں اچھے معاملہ کی وصیت کرتا ہوں۔ (بخاری ) ۵) حضور اکرمﷺ
نے ارشاد فرمایا: کوئی مؤمن کسی مؤمنہ سے بغض نہ رکھے،اگر اس کی ایک عادت
ناپسند ہو تو دوسری عادت سے راضی ہوجائے۔ (مسلم) حضور اکرمﷺ نے شوہر کو
بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کی کوئی عادت نا پسند آنے پر اس کو نظر
انداز کرنے کا حکم دیا ہے، غرضیکہ بیوی کے عیوب کو نظر انداز کرتے ہوئے
زندگی کے سفر کو خوشگوار بنائے رکھنے کی شوہر کو تعلیم دی گئی ہے۔ ۶) حضور
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے معاملہ میں اﷲ سے ڈرو، تم نے انہیں اﷲ
تعالیٰ کی امان کے ذریعہ حاصل کیا ہے، اور ان کی شرمگاہوں کو اﷲ تعالیٰ کے
کلمہ کے ذریعہ حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق ہے کہ وہ تمہارے گھر میں ان
لوگوں کو نہ آنے دیں، جن کو تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کرے تو ان کو
مارو مگر ایسی مار جو زیادہ شدید نہ ہو (اور چہرہ پر ہرگزنہ مارو) ۔اور تم
پر ان کا یہ حق ہے کہ تم ان کے نان نفقہ اور کپڑے کی دستور کے موافق ذمہ
داری پوری کرو۔ (مسلم ) ۷) حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے اﷲ کی
حمد وثنا بیان کرنے کے بعد وعظ ونصیحت فرمائی: خبردار! میں تمہیں عورتوں کے
حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں، اس لئے کہ وہ تمہاری نگرانی اور سرپرستی
میں ہیں لیکن تمہارے پاس قیدی کی طرح نہیں ہیں۔ اور تم ان پر اس کے علاوہ
کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو۔ البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے
حیائی کی مرتکب ہوں، تو انہیں اپنے بستر سے الگ کردو۔ اور اُن کی معمولی
پٹائی کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے
راستے تلاش نہ کرو۔ جان لو: کہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور اُن کا تم پر
حق ہے۔تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں
جنہیں تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیں،
اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔ (ترمذی)۸)
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح
نہ مارے، پھر شاید دن کے ختم ہونے پر اس سے ہم بستری کرنے لگے۔ (بخاری)
حضور اکرمﷺکے اس فرمان سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ عمومی طور پر بیویوں کو
مارنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ چھوٹی چھوٹی بات پر بیوی کو پیٹنا یا اس کو
ذلیل کرنا اسلام میں معیوب ہے۔ ۹) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ
حضور اکرمﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت اور نہ کسی
خادم کو ، البتہ جہاد فی سبیل اﷲ میں قتال فرمایا۔ اور آپ کو جب کسی نے
نقصان پہنچایا، آپ نے اس کا بدلہ نہیں لیا، البتہ حکم خدا میں خلل ڈالا تو
خدا کے لئے بدلہ لیا ہے۔ (مسلم) حضرت امام نووی ؒ نے اس حدیث کی شرح میں
تحریر کیا ہے کہ بیوی یا خادم کو (فحش غلطی کرنے پر ) مارنے کی گنجائش ضرور
ہے لیکن نہ مارنا ہی افضل وبہتر ہے۔ ملا علی قاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ
بیوی اور خادم کی بڑی غلطی کے باوجود ان کو نہ مارنے میں بہتری ہے، البتہ
اولاد کی نافرمانی پر ان کی صحیح تربیت کے لئے بعض اوقات ان کی پٹائی کرنا
ہی مناسب ہوتا ہے۔ ۱۰) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں اچھا وہ ہے جس
کا سلوک اپنے اہل وعیال سے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے اہل وعیال کے بارے
میں سب سے اچھا ہوں۔ (ترمذی) حضور اکرم ﷺ کا اسوہ حدیث میں گزرا کہ آپ نے
کبھی کسی عورت کو نہیں مارا۔ ۱۱) حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور
اکرمﷺ نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسلم ) حضرت امام نووی ؒ مسلم
کی شرح میں تحریر کرتے ہیں: ’’کسی بھی جاندار کے چہرے پر مارنا جائز نہیں
ہے‘‘۔ عورت تو اشرف المخلوقات ہے، لہٰذا کسی بھی مرد کے لئے کسی بھی صورت
میں عورت کے چہرہ پر مارنا جائز نہیں ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔ اگر کسی شخص
نے کسی بھی وجہ سے اپنی بیوی کے چہرہ پر مارا ہے تو حقوق العباد کی وجہ سے
اسے اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ رفع دفع کرنے کے بعد ہی اﷲ تعالیٰ سے معافی
بھی مانگنی ہوگی۔
ان مذکورہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہ بات روز روشن کی طرح
واضح ہوجاتی ہے کہ زندگی کے ایام کو خوش اسلوبی اور محبت والفت کے ساتھ
گزارنے کے لئے دونوں میاں بیوی کو اپنی اپنی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دینی
چاہئے۔ مثلاً شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی کرے، اپنی استطاعت
کے مطابق بیوی کے تمام اخراجات برداشت کرے، بیوی کے لئے رہائش کا انتظام
کرے، بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کرے، بیوی کی بعض کمزوریوں سے چشم پوشی کرے،
خاص طور پر جب کہ دیگر خوبیاں ومحاسن اس کے اندر موجود ہوں، گھر کے کام
وکاج میں عورت کی مدد کرے خاص کر جب وہ بیمار ہو۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا
فرماتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ گھر کے تمام کام کرلیا کرتے تھے، جھاڑو بھی خود
لگالیا کرتے تھے، کپڑوں میں پیوند بھی خود لگالیا کرتے تھے اور اپنے جوتوں
کی مرمت بھی خود کرلیا کرتے تھے۔ (بخاری) اسی طرح بیوی کی بھی ذمہ داری ہے
کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے، شوہر کے مال وآبرو کی حفاظت کرے، شوہر کے
ساتھ اچھا معاملہ وبرتاؤ کرے، گھر کے اندرونی نظام کو چلانے میں اپنا
پھرپور تعاون پیش کرے اور بچوں کی بہترین تربیت کرے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے
روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی
تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ (مسند احمد)
یقینا دونوں میاں بیوی بشریت اور انسانیت میں برابر ہیں لیکن شریعت اسلامیہ
نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مرد کو کسی نہ کسی حد تک فوقیت دی ہے
یعنی مرد کو سربراہی حاصل ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت
مسلمہ کا اتفاق ہے۔ غرضیکہ میاں بیوی میں حاکم ومحکوم یا بادشاہ وغلام والا
تعلق نہیں ہے بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک حیثیت اور مقام رکھتے ہیں۔ مرد
کو اپنی سربراہی کی بنیاد پر یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو بات بات پر
ڈانٹے یا پٹائی کرے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی ہمارے لئے اسوہ ہے کہ آپ ﷺ نے
اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی کسی بھی بیوی کو نہیں مارا، بلکہ آپﷺ نے
باربار صحابۂ کرام کو تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ
کریں، ان کی دل جوئی کریں، ان کی طرف سے پیش آنی والی ناگوار باتوں پر
صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : خبردار!
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، اس لئے کہ یہ عورتیں تمہاری نگرانی میں ہیں۔
ہاں اگر کوئی عورت واقعی شوہر کی نافرمان ہے اور اس کی نافرمانی کی وجہ سے
گھر کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے، تو مرد وعورت کے خالق نے قرآن کریم (سورۃ
النساء ۳۴ و ۳۵) میں اس کا حل اس طرح پیش کیا ہے کہ شوہر کو چاہئے کہ وہ سب
سے پہلے اپنی نافرمان بیوی کو سمجھائے، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) اسے
خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدے، یعنی اس کے بستر کو الگ کردے، اور اگر اس سے
بھی اصلاح نہ ہو تواسے ہلکی مار مارسکتے ہو، لیکن شریعت اسلامیہ چاہتی ہے
کہ مار کے بغیر ہی معاملہ حل ہوجائے تو بہتر ہے۔ ان تین تدابیر اختیار کرنے
کے باوجود مسئلہ حل نہ ہونے پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ دونوں طرف سے
سمجھدار لوگ بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالیں۔ مسئلہ کا حل نکل جائے تو بہتر ہے
کیونکہ شریعت اسلامیہ مسئلہ کا حل ہی چاہتی ہے۔ لیکن بعض اوقات میاں بیوی
میں صلح مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا
ہے، تو ایسی صورت میں ازدواجی تعلق کو ختم کرنا ہی طرفین کے لئے مناسب
معلوم ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی یہی تعلیمات دی ہیں، جیساکہ مضمون میں
دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا۔ اگر نافرمانی مرد کی طرف سے ہے یعنی مرد اپنی
ذمہ داری کو صحیح طریقہ سے انجام نہیں دے رہا ہے تو ہر ممکن کوشش کی جائے
گی کہ وہ اپنی ذمہ داری کو انجام دے ۔ ایسی صورت میں عورت کو خلع لینے کی
گنجائش بھی ہے، لیکن عورت کے لئے اپنے نافرمان شوہر کو مارنے کا حق نہیں ہے
کیونکہ اس نوعیت کی کوئی بھی تعلیمات قرآن وحدیث میں نہیں ملتی ہیں۔ لہٰذا
ہمیں اس مسئلہ میں اعتراض کرنے کے بجائے اﷲ اور اس کے رسول کے حکم پر ایمان
لانا چاہئے، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: جب اﷲ اور
اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مؤمن مرد کے لئے یہ
گنجائش ہے نہ کسی مؤمن عورت کے لئے کہ ان کو اپنے معاملہ میں کوئی اختیار
باقی رہے۔ اور جس کسی نے اﷲ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی
میں پڑ گیا۔ (سورۃ الاحزاب ۳۶) اسی طرح فرمان الہٰی ہے: نہیں، (اے پیغمبر!)
تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے
باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم تو جو فیصلہ کرو اس کے بارے
میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سرِ
تسلیم خم کردیں۔ (سورۃالنساء ۶۵)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو معمولی معمولی بات پر مارنا جائز
نہیں ہے۔ اگر کوئی بڑی نافرمانی عورت کی طرف سے سامنے آتی ہے تو اس کے حل
کے لئے سورۃ النساء آیت ۳۴ کی روشنی میں کوششیں ہونی چاہئے، جیسا کہ ذکر
کیا گیا۔ |