پھر پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ

یہ بات کہنے میں غلط نہ ہوگی کہ پاکستان میں حکومتوں میں آمدنی کاسب سے بڑا ذریعہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ ہے جس سے ہمارے حکمرانوں کے شاہی اخراجات پورے ہوتے ہیں ہرحکومت کو اپنے اللے تللے پورے کرنے کیلئے یہ آسان نسخہ یہی نظرآتا ہے کہ پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں اور ٹیکسز کو بڑھا دو اور خوب نہاؤ عوام کے خون میں جس کا حصہ سب کو ملتا ہے جس سے سب کے منہ پرتالے لگ جاتے ہیں عالمی منڈی میں تیل کے نرخ بڑھا کرپاکستان میں کئی گنااضافہ کردینا شروع سے ہی ہمارے حکمرانوں کی ریت رہی ہے بعض اوقات تو عالمی منڈی میں نرخ کم ہوتے ہیں تو یہاں شوشہ چھوڑدیاجاتا ہے کہ نرخ بڑھ گئے ہیں جس وجہ سے ہمارے ملک میں بھی پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کردیا جاتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں زیادہ لوگوں کو جان کاری نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے حکمران خوب اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں پتا نہیں ہماری عوام کب بیدار ہوگی جب ایک دوروپے بڑھتا ہے تو عوام کہتی ہے چلو کوئی بات نہیں ایک دوروپے سے کیا فرق پڑتا ہے مگر انکو نہیں پتا یہ ایک دوروپے ہمارے لیے ہیں ہمارے ملک کیلئے کروڑوں اربوں کی بات ہوتی ہے عالمی منڈی میں تھوڑی سے قیمت بڑھے تو یہاں کئی گناہ مہنگا کردیتے ہیں پھرکہتے ہیں صارفین کا خیال رکھتے ہوئے زیادہ مہنگا نہیں کیا ۔لیکن مجبوری کے تحت کبھی نرخ کم کرنے پڑیں تو بخیلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق کمی کی جاتی ہے ۔ہمارے ملک کے چیف جسٹس نے اپنی ہرممکن کوشش پر زمیندار،نوکرشاہی،کارندوں، حکمرانوں، سیاستدانوں کے خلاف ایکشن لیا ہے جس کے خاطرخواہ نتائج نہ نکل سکے کیونکہ ہماری عدلیہ کے پاس صرف قوت فیصلہ ہے مگرقوت نافذہ نہ ہونے کی وجہ سے پیٹرولیم کی قیمتوں اور ٹیکسوں پر کچھ اچھے نتائج نہ مل سکے پھربھی بدعنوان لوگوں اور اداروں میں صرف فیصلے کی وجہ سے ہلچل مچی ہوئی ہے کیونکہ اس میں سوشل میڈیا کا بہت زیادہ رول ہے جس وجہ سے لوگ مطمئین ہیں کہ ہمارے مسائل اعلیٰ عدلیہ تک پہنچنے لگے ہیں جلد یا دیریہ حل ضرور ہوں گے آخری مرتبہ جب پیٹرولیم مصنوعات کا لارجربنچ لگایاگیا جس میں جسٹس سجاداور جسٹس منیب شامل تھے اس دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جس کا دل کرتا ہے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا دیتا ہے عوام ٹیکس ادا کرکرکے عاجز آگئے ہیں جس ادارے کو کہیں وہ دوسرے پرالزام تھومپ دیتا ہے سارے پیٹرول پمپ زمینداروں اور جاگیرداروں نے لگائے ہوئے ہیں اور حکام سے مل کرعوام کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں پاکستان میں آئل مارکیٹنگ کی کل اکیس کمپنیاں ہیں اور پاکستان میں آئل باون روپے تیس پیسے فی لیٹرپڑتا ہے مگرہمارے حکمرانوں نے ٹیکس لگالگا کرنوے روپے سے اوپرکردیا ہے اور بھی سنوائی ہے کہ مہنگا ہوگاسوال یہ ہے کہ ٹرانسپورٹیشن ٹیکس کراچی والوں پر کیوں لگتا ہے حالانکہ ساری خام مال اسی شہرمیں آتا ہے۔اگرڈیلراور حکمران اس مہنگائی کا کھیل کھیل رہے ہیں تو اس میں اوگراکا بھی ہاتھ ہے کیونکہ ہرماہ آئل کمپنیوں کی میٹنگ ہوتی ہے جس میں وہ سفارشات بنوا کے اگراکو بھیجتے ہیں اور اوگرانئی قیمتیں طے کرتا ہے اور نئی وزارت کو منظوری کیلئے بھیجتی ہے اس لیے اگراوگراسے کچھ پوچھا جائے تو ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ حکومتی پالیسی ہے اس کے آخر میں پھرایف بی آر ٹیکس لگاتا ہے اس ٹیکس کے کھیل میں سب چوراورلٹیرے ہیں حکومت کے وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے ہماری آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے پانچ سال پورے کرکے بھاگ جاتے ہیں عوام بارہا احتجاج کرتی ہے سڑکوں پر نکلتی ہے مگران پرلاٹھی چارج کرکے ان کی زبان خاموش کردی جاتی ہے یا پھر امن وامان میں بگاڑپیداکرنے کا کہہ کے احتجاج ختم کروا دیا جاتا ہے حالانکہ انکی پچھلی جیب میں انکو اپنا حصہ مل جاتا ہے جس وجہ سے ان کے کان پے جوں تک نہیں رینگتی۔2008میں خام تیل کی قیمت 145ڈالرفی بیرل کی بلندسطح پر تھی جو آہستہ آہستہ گرتی گرتی 2016میں 29ڈالرفی بیرل ہواجو کم ترین ریٹ تھا پھر2016-17کے دوران یہ 50ڈالرفی بیرل کے لگ بھگ رہی اور اسی سال کے دوران 74ڈالرفی بیرل تک پہنچ گئی اگر دیکھا جائے تو 2016سے اب تک جو اضافہ ہوا ہے 100فیصد سے بھی زیادہ ہے مگر ہمارے حکمرانوں کو اپنی جیبیں بھرنی ہیں بس جیسا کہ اوپر بتایا ہے اسی حساب سے عالمی منڈی کی قیمت کے نصف قیمت زیادہ ہے اگریہی حال رہا تو ہمارے ملک میں پانی سے پہلے پیٹرولیم مصنوعات پر جنگ ہوگی ۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 196560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.