تحریر: الفت اکرم، کراچی
عزت کے لیے اس ملک کے آئین اور قانون میں جگہ نہیں ہے۔ ملک میں الیکشن کی
مہم زور و شور سے چل رہی ہے۔ مختلف پارٹیوں کے امیدوار مختلف علاقوں میں
جلسہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینے والا ہر امیدوار اپنے جلسہ
میں پانی کا مسئلہ، بجلی کا مسئلہ ، سڑک کی مرمت کے مسئلے پر بات کرتا نظر
آتا ہے اور شاہد یہی میرے مسئلے ہیں۔میں نے آج تک کسی بھی حکمران یا الیکشن
کے امیدوار کو عورت کی عزت ، عورت کی حفا ظت کے لیے بولتے نہیں دیکھا۔
گھر سے نکلتی عورت کو غلط نظروں سے دیکھنے والا مرد یہ کیوں بھول جا تا ہے
کہ جس ماں نے ا سے جنم دیا تھا وہ بھی ایک عورت ہیں اور جو اس کی بیوی بنے
گئی وہ بھی تو ایک عورت ہوگی۔اور یہ دنیا مکافات عمل ہے ۔ پبلک ٹرانسپور ٹ
میں زنانہ حصہ میں مرد کا موجود ہونا اور مردانہ دروازے کے بجائے زنانہ
دروازے کو استعمال کرتے ہوئے عورت کو چھوتے ہوئے گزرنا، عورت کاچلا نا نہ
تو وہاں موجود ڈرائیور پر اثر کرتا ہے نہ کنڈیکٹر، نہ پیچھے بیٹھے مرد اور
نہ میرے ملک کے ٹریفک کانسٹیبل جو مرد وں کو زنانہ حصہ کو استعمال کرتے
ہوئے کوئی چلان کرتے ہیں۔ ووٹ مانگنے کے لیے عورت کے پاس گھر گھر جانے
والوں کبھی عورت کی حفاظت کے لیے کوئی کام کیا ہے۔ نیا پاکستان کا نعرہ
لگانے والوں کبھی اپنے جلسہ میں عورت کے لیے کوئی بات کی ہیں جس عورت خود
کو محفوظ سمجھے۔ پھر کون سا بنے گا نیا پاکستان کہا ں بنے وہ پاکستان کیسا
ہوگا وہ پاکستان۔
ملک کی ترقی مرد اور عورت دونوں کے بغیر ممکن نہیں ۔پھر بس ہو یا بس اسٹاپ
، راستہ ہو یابازار عورت کے لیے مشکل کیوں۔میرے ملک کے حکمرانوں ، سڑک پر
نوکری کرتے پولیس کے نوجوانوں، میرے ملک کی رینجرز اور آرمی کے سپاہیوں اگر
میری حفاظت کی ذمہ داری تمہاری نہیں میری حفاظت کے لیے کوئی قانون نہیں تو
میں خود کو گھر میں محصور کرکے زندگی کے دن گزار لیتی ہوں۔ اپنی ذات کو
کھلوناسمجھ کر صبر کا گھونٹ پی لیتی ہوں۔ اس ملک میں عورتوں کی بے عزتی کا
تماشہ اس ملک کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر کٹھ پتلی بن کر دیکھوں گی۔
|