فناننشل ایکشن ٹاسک فورس کے پیرس میں ہونے والے
حالیہ اجلاس کے بعد پاکستان پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور
پرافغان۔امریکا جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کافی الزامات کا
سامنا ہے۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے کبھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف
کیا جاتا ہے تو کبھی سہولت کاری کے الزامات عائد کرکے عالمی برادری میں
پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں جہاں
اعتماد سازی کی کمی کو ملک دشمن عناصر نے فروغ دیا تو دوسری جانب اہم مسئلہ
افغان مہاجرین کی گزشتہ چار عشروں سے مسلسل پاکستان میں موجودگی ہے۔
پاکستان اس امر کی جانب باربار توجہ مبذول کرتا رہا ہے کہ افغانستا یا
امریکاکو مطلوب افراد کو لاکھوں افغان مہاجرین کے درمیان تلاش کرنا انتہائی
دشوار گذار عمل ہے۔ افغانستان سے آنے والے، مطلوب افراد مہاجرین کے کیمپوں
میں پناہ لے لیتے ہیں جس کے بعد پاکستانی اداروں کے لئے معلوم کرنا آسان
نہیں رہتا کہ ان میں افغان مہاجرین کون ہیں اور مہاجرین کے بھیس میں پناہ
لینے والے کون سے افراد ہیں ۔پاکستان عالمی اداروں اور افغانستان سے کئی
بار مطالبہ کرچکا ہے کہ مہاجرین کی باعزت واپسی کے لئے اقدامات کئے جائیں
تاکہ افغانستان اور امریکا کو مطلوب افراد کی مبینہ پناہ گاہ یا سہولت کار
موجود نہ ہوں تو پاکستان مزید سخت انتظامات کرسکے گا ۔ مہاجرین کی پاکستان
میں قیام کی مدت 30جون 2018کو ایک بار پھر ختم ہوچکی ہے۔ کیونکہ عالمی
اداروں اور افغانستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے سنجیدگی سے فارمیٹ
نہیں بنایا ، اس لئے نگراں حکومت نے انسانی بنیادوں پر ایک مرتبہ پھر افغان
مہاجرین کے قیام میں تین ماہ کی توسیع کردی۔ نگراں حکومت کا یہ فیصلہ صائب
تھا کیونکہ افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے آنے والی حکومت ہی باقاعدہ
طور پر افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لئے اقدامات پر فیصلہ کرسکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت 14لاکھ کے قریب ایسے افغان مہاجرین ہیں جو باقاعدہ
رجسٹرڈ ہیں ، جبکہ اس کے کئی گنا تعداد ایسی ہے جو غیر قانونی یا جعلی
شہریت حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں مستقل مقیم ہیں۔ لاکھوں افغان مہاجرین
کے کوائف کا اندارج نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے قومی سلامتی اداروں کو
مسائل کا سامنا ہے۔ گو کہ مرحلہ وار اس پر کام شروع ہے لیکن اندراج کی
رفتار انتہائی سست ہے۔ دوئم اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ
ہزاروں ایسے خاندان بھی ہیں جو افغانستان جا نے کے بعد ، کچھ عرصے میں
دوبارہ پاکستان آجاتے ہیں ۔ ان کی شناخت اور مہاجرین کیمپوں میں موجودگی کی
وجہ سے بارڈر منجمنٹ کا نظام موثر بنانے کی ضرورت دوچند ہوچکی تھی ۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے کے لئے ایک
بڑے اور دشوار گذار منصوبے کا آغاز شروع کیا ۔ 2600کلو میٹر طویل سرحد پر
باڑ لگانے سے غیر قانونی انسانی اسمگلنگ کا راستہ رکنے کے علاوہ پاکستان
اور افغانستان میں دہشت گردی گردی کے واقعات میں ملوث افراد کی دونوں ممالک
کے تحفظات کو دور کرنے میں مدد ملے گی ۔بدقسمتی پاکستان نے اپنے حصے کا کام
شروع کیا اور اپنے سیکورٹی اداروں کے افسران اور اہلکاروں کی قیمتی جانوں
کی قربانیوں کے نتیجے میں تیزی کے ساتھ پاک۔ افغان سرحد کو اپنی مدد آپ کے
تحت محفوظ بنا رہا ہے۔امریکا کی جانب سے پاکستان پر سرحد پار واقعات کے پے
در پے الزامات اور سنگین اقدامات کی دہمکیوں میں اس بات کو ٹرمپ ا نتظامیہ
نے ہمیشہ نظر انداز کیا کہ پاکستان چار عشروں سے امریکا کا فرنٹ لائن
اتحادی ہے اور امریکا کی جنگ کو اپنے گھر داخل کرکے ناقابل تلافی اٹھاچکا
ہے اور قربانی دینے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔پاکستان اور عوام دل کی
گہرائیوں کے ساتھ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے اس لئے خواہاں ہیں
کیونکہ چار عشروں سے پاکستان اپنی میزبانی کے ثمرات کو کھونا نہیں چاہتا ۔
پاکستان نہیں چاہتا کہ افغان مہاجرین وطن واپسی پر پاکستان کے قانونی عمل
کی وجہ سے کسی ناراضگی کا شکار ہوں اور ملک دشمن عناصر کو دونوں پڑوسی و
مسلم ممالک کے درمیان غلط فہمی بڑھانے کا مزید موقع ملے۔ یہی وجہ ہے کہ
افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے پاکستان نے حتمی تاریخ کا اعلان کیا ۔ لیکن
اس پر مکمل عمل درآمد کو آج تک ممکن نہیں بنایا جاسکا۔
واضح رہے کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں 31 دسمبر 2017ء کو
کئی گئی ایک ماہ کی توسیع 31 جنوری 2018ء کو ختم ہوگئی تھی جس کے بعد دو
ماہ کی توسیع ہوئی جو 31 مارچ میں ختم ہوگئی۔ تاہم، اس وقت کے وزیر اعظم
شاہد خاقان عباسی نے تین ماہ کی مزید توسیع دی اور اب نگران حکومت نے ایک
بار پھر تین ماہ کی عبوری توسیع دیدی ہے۔کابینہ اجلاس میں نگران وزیر خزانہ
ڈاکٹر شمشاد اختر نے حوالے سے کابینہ ارکان کو تفصیلی بریفنگ بھی دی۔کیونکہ
نگراں حکومت مملکت میں عام انتخابات کا مینڈیٹ رکھتی ہے اس لئے قومی سلامتی
کے فیصلوں پر محتاط ردعمل و اقدامات کی اشد ضرورت تھی۔ جس پر نگراں حکومت
نے وہی عمل کیا جو کسی منتخب حکومت کو کرنا پڑتا۔ کیونکہ اس وقت بھی لاکھوں
افغان مہاجرین پاکستان میں قانونی و غیر قانونی طور پر مقیم ہیں ۔ ان افغان
مہاجرین نے ابھی تک اپنے کاروبار و مستقل رہائش کے حوالے سے کوئی عملی قدم
نہیں اٹھایا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے ۔
لاکھوں افغان مہاجرین نے غیر قانونی طور پاکستانی دستاویزات حاصل کررکھی
ہیں۔ یہ لاکھوں مہاجرین پاکستان کے عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوتے رہے
ہیں۔ اس بار بھی لاکھوں افغان مہاجرین کے غیر قانونی عمل کے نتیجے میں حاصل
دستاویزات کی طرح ، با حیثیت پاکستانی ووٹ ڈالنے کے عمل سے پاکستان میں
پارلیمانی انتخابات پر حق رائے دہی کا عمل متاثر ہوگا اور لاکھوں افغان
مہاجرین کے ووٹوں سے ایسے نمائندے بھی پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے جو
پاکستانی شہری کے ووٹ کے ساتھ ساتھ ، افغان مہاجرین کے ووٹ بھی حاصل کرچکا
ہوگا ۔ یقینی بات ہے کہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایسے نمایندے اُن ووٹرز کے
ایسے مطالبات کو ماننے کے پابند ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں ہزاروں
اور ان کی جماعت کو لاکھوں ووٹ ملیں ۔ اس لئے خدشات برقرار رہتے ہیں کہ
منتخب ہونے والے نمائندوں کا جھکاؤ بھی اُن مطالبات کو ماننے کے جانب زیادہ
ہوتا ہے ۔ جو اُس نے باقاعدہ تحریری معاہدے کے بعد کئے ہوتے ہیں۔پاکستان
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی و مالی نقصان اٹھا چکا ہے۔ بین القومی
مسئلہ کو پاکستان پر ڈالنے سے خطے میں امن نہیں آسکتا ۔ یہ بات طے شدہ ہے
کہ عالمی دہشت گردی کے خلاف کسی بھی ملک کے لئے تنہا جنگ لڑنا ممکن نہیں
ہے۔ جس طرح افغانستان کی سرزمین سوویت یونین اور امریکا جارحیت کی بعد
متاثر ہوئی ہے اسی طرح پاکستان بھی پڑوس میں ہونے والی عالمی جنگ کا اتحادی
ہونے کے سبب دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ امریکا مسائل کا حل
چاہتا ہے تو پھر پاکستان پر پابندیاں عائد کرکے فروعی مقاصد حاصل نہیں
کرسکتا ۔ امریکا کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا ۔ افغان طالبان کو مزاکرات
کی میز پر بیٹھانے کے لئے روس ، ایران ، ترکی ، سعودی عرب اور چین کے ساتھ
ساتھ پاکستان کا کردار سب سے اہم ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا افغان
طالبان سے اثر رسوخ ختم کرانے کے لئے ایسے منفی اقدامات کررہی ہے جس کے
نتائج پاک۔ افغان حکومت کے ساتھ ساتھ امریکا اور عالمی برادری کو بھی
بھگتنا ہونگے ۔
ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو اپنے نظام میں تبدیلی کے لئے دس پوائنٹ دیئے
گئے ہیں۔ اس حوالے سے حالیہ اجلاس میں فنانشل انسٹی ٹیوٹشن رولز 2018 کی
منظوری بھی اور وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) کو فنانشل انسٹی ٹیوشنز
کے رول 20(7) کے تحت لازم تفتیشی ایجنسی مقرر کر دیا۔منی لانڈرنگ کی روک
تھام کے لئے غیر محفوظ سرحدی آمد و رفت کے علاقوں میں موثر پروگرام کی
ضرورت بھی ہے۔ اس کے لئے امریکا اور عالمی برادری کو پاکستان کی تجاویز کو
قابل عمل بنانے کے لئے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا ، اپنے
جانب دارانہ اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں انتہائی غیر مقبول اور مخالف
سمجھا جانے لگا ہے۔ اس صورتحال میں جب پاکستان کی عوام کا اعتماد امریکا پر
بحال نہ ہو اور امریکی مطالبات اور پالیسیوں کی وجہ سے متنازعہ بن چکا ہو
تو ریاست کے لئے عوامی خواہشات کے برخلاف اقدامات ایک چیلنج کا درجہ رکھتے
ہیں۔ امریکا کو افغان مہاجرین کی بحفاظت و باعزت واپسی کے لئے سنجیدہ
اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ افغان طالبا ن اور افغان حکومت کے درمیان کافی
دوریاں ہیں۔ ان میں کمی کا ایک راستہ امریکا کی افغانستان سے واپسی بھی ہے
جس کے بعد افغان عوام امن کے لئے ہزاروں برس سے رائج جرگہ نظام کے ذریعے
مستحکم اور پائدار امن کے لئے راستہ نکال سکتے ہیں۔ افغان طالبان نے مسلح
مزاحمت کی طویل جنگ میں عید الفطر کو سیز فائر کرکے ایک اچھے عمل کا آغاز
کیا تھا لیکن افغان حکومت کی جانب سے افغان طالبان پر حملے کے بعد امن کی
راہ مسدود ہوئی اور افغان طالبان کو مزید محتاط ہونے پر مجبور کردیا ۔افغان
طالبان پر سیز فائر کی توسیع کے لئے پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک نے اپیل
کی۔ لیکن افغان حکومت اپنے فیصلوں کا اختیار نہ رکھنے کے سبب کٹھ پتلی ہونے
کا درجہ رکھتی ہے۔ امریکا کو افغان جنگ کے اس دلدل سے باہر نکل جانا چاہیے۔
طویل ہوتی جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس یہ حق
موجود ہے کہ وہ اپنی مملکت کو محفوظ بنانے کے لئے افغان مہاجرین کی وطن
واپسی سمیت قانونی کوئی بھی طریقہ کار اختیار کرسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان پر
مختلف حوالوں سے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے باعزت
و قابل عمل قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ |