ملک ِ عزیز اس وقت کئی مسائل کا
شکار ہے کچھ تو غیروں کے مسلط کردہ کچھ اپنوں کی بے اعتنائی اور خود غرضی ۔
غیر تو غیر ہیں انہیں ہم سے کیا دلچسپی اور دشمن تو دشمن ہیں ان کے حق میں
تو یہی بہتر ہے کہ ہمارے ملک میں افراتفری ہو، بے چینی اور بد امنی ہو، آپس
میں نا چاقیاں ہوں اور سب باہم دست و گریباں ہوں اور اسی میں ملک معاشی بد
حالی اور بین الاقوامی بدنامی کا شکار ہوتا رہے اور دنیا میں اپنا وقار
کھوتا رہے۔ لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سارے کام ہم خود کر رہے
ہیں کبھی ادارے آپس میں الجھ کر جگ ہنسائی کر رہے ہیں اور کبھی شخصیات اور
بڑی معذرت کے ساتھ کہ ہمارے سیاستدان بجائے اس کہ سیاست ملک کی بہتری کیلئے
کریں ان کا مرکزو محور ان کی اپنی ذات ہوتی ہے جہاں ان کی ذات یا مقام کو
نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ظاہر ہو وہ فوراً سے پیشتر ایسے اقدامات کرنے
شروع کر دیتے ہیں جو صرف ان کی ذات کیلئے بہتر ہوتے ہیں۔ تب نہ انہیں
جمہوریت کی فکر اور پروا ہوتی ہے اور نہ عوام اور قوم کی۔ وہ عوام جن سے
ووٹ لینے کی خاطر یہ سیاستدان ان کے دروازے پر جا کر فلاحی اور ترقیاتی
کاموں کے وعدے کرتے ہیں۔
آج جبکہ پھر ہمارے ملک کو ٹھوس اقدامات ، مثبت خیالات ، اتحاد و اتفاق کی
ضرورت ہے ہمارے سیاستدان پھر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہیں اور یہ اب کی
ہی بات نہیں بلکہ ہمیشہ ہی یہ اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ان سیاسی
اتحادوں میں کھیل خیالات کا نہیں بلکہ مفادات کا ہے اور اگر یہ مفادات ملکی
اور قومی ہوتے تو اس سے بہتر بات نہ ہوتی لیکن دکھ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ذاتی
دلچسپی ، بہتری اور مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اس سب کچھ کو یہ ایک جملہ
کہہ کر جائز قرار دے دیا جاتا ہے کہ سیاست میں کل کے مخالفین آج کے دوست
اور آج کے دوست کل کے مخالفین ہوتے ہیں۔ ایسے ہی چند اور جملے یہ سیاستدان
اپنی مدح سرائی کیلئے بولتے رہتے ہیں مثلاً جمہوریت بہترین انتقام ہے یا
جمہوریت عوام کی حکومت عوام کیلئے ہے۔ بلا شبہ یہ سارے خوبصورت جذبات و
احساسات ہیں لیکن اگر ان میں صدق و خلوص شامل ہو۔ لیکن خلوص ہی وہ جنس ہے
جس کی کارزارِ سیاست میں شدید کمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آئے روز اہلِ سیاست
کی وفاداریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے پر نازیبا الفاظ
اور جملے کسے جاتے ہیں ۔ گالم گلوچ کو ایک دوسرے کے خلاف بطور ہتھیار
استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ لیڈر تو ایک دوسرے کے خلاف بول لیتے ہیں سوچے
بغیر یا ہو سکتا ہے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اور پھر دو گروہوں میں چپقلش
کا آغاز ہو جاتا ہے جو ہوتے ہوتے ایک فساد کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور
پھر وہ کچھ ہوتا ہے جو اکثر کراچی میں ہو جاتا ہے۔
ذوق نے درست کہا تھا کہ اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے۔ یہی حال سیاست
کا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملک میں بے شمار طبقہ ہائے فکرو خیا ل موجود ہیں اور نہ
صرف ان کی تسلی کیلئے بلکہ ان کی فکر کو کارآمد بنانے کیلئے مختلف سیاسی
جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر سیاسی راہنماؤں اور
کارکنوں کی سیاسی تربیت ضروری ہے ۔ قوم کو اس وقت عملی اور مفید اقدامات کی
ضرورت ہے۔ صرف نعروں کی سیاست نہ ان کا پیٹ بھر سکتی ہے اور نہ ہی جمہوریت
ان کو ضروریاتِ زندگی دے سکتی ہے۔ اب تک جبکہ جمہوریت کے دعویدار مسلسل
جمہوریت کو عوام کی ضرورت قرار دے رہے ہیں مجھے بھی اس رائے سے سو فیصد
اتفاق ہے لیکن عملاً ایسا ہو نہیں رہا کیونکہ نظر ایسا آتا ہے کہ جمہوریت
عوام سے زیادہ ہمارے محترم سیاستدانوں کی ضرورت ہے۔ ان کے لمبے لمبے حفاظتی
قافلے ان کی پر آسائش زندگی اور رہن سہن صرف تبھی ممکن ہے جب سیاست اور
جمہوریت کے نام پر ان کی حکومت چلتی رہے اور وہ پروٹوکول کے نام پر عوام کے
وسائل کو استعمال میں لاتے رہیں۔
نہ تو میں جمہوریت کے خلاف ہوں نہ سیاست کے لیکن اگر یہ سب کچھ موجودہ طور
طریقے پر چلتا رہا تو ملک جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے اس کی مشکلات میں
اضافہ ہی ہوگا کسی بہتری کی کوئی امید نہیں ہو سکتی بلکہ عوام کے مسائل جو
پہلے ہی بے شمار ہیں میں مزید اضافہ ہی ہوگا کیونکہ جتنا سیاسی عدم استحکام
ہو گا اتنی ہی معیشت ابتری کا شکار ہوگی اور یوں وہ عوام جو ان سیاستدانوں
کو اس امید پر ووٹ دیتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے نا امیدی کا شکار
ہو رہے ہیں سیاسی اور فوجی حکومتوں کو مسلسل اور باری باری آزمانے کے بعد
عوام کو کسی ایسی تبدیلی کا انتظار ہے جہاں چہروں کی تبدیلی نہ ہو بلکہ
نظام بدلا جائے اور وہ بھی وہ تبدیلی نظام نہ ہو جس کا نعرہ ہر انتخابات کے
موقع پر ہر سیاسی جماعت لگاتی ہے اور جب وہ حکومت میں آتی ہے تو صرف اپنے
ذاتی حالات کی تبدیلی پر زور دیتی ہے اور وزارتیں اور مشاورتیں حاصل کر
لینا ہی سیاست کی معراج سمجھ لیا جاتا ہے اور عوامی مسائل جو کے توں رہتے
ہیں اور طرہ یہ کہ سیاسی جماعتیں ملک بچانے سے زیادہ جمہوریت بچانے کی
باتیں کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ بلا شبہ جمہوریت کو بچانا بھی ضروری ہے
تاکہ عالمی برادری میں ساکھ برقرار رہے لیکن ہر روز کی جوڑ توڑ اب عوام
کیلئے ناقابلِ برداشت ہو تی جا رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب کی بار واقعی
نظام بدلا جائے ورنہ پھر یہی سیاستدان یہ گلہ کرتے ہیں کہ فوجی جرنیل
اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ موقع خود سیاستدان
فراہم کرتے ہیں۔
سیاستدانوں کو سوچ لینا چاہیے کہ وہ حالات کو کس طرح اس نہج پر لے جانے سے
بچا سکتے ہیں جہاں بات کسی مارشل لا تک نہ پہنچ سکے اوریہ تبھی ممکن ہے کہ
جمہوریت اور آمریت میں عوام کے حالات مختلف رہیں لیکن جمہوری ادوار حکومت
میں نہ تو بے روزگاری میں کمی ہوتی ہے نہ ہی عوام کو ضروریاتِ زندگی وافر
مہیا ہیں نہ ہی تعلیم اور صحت کے مسائل حل ہوتے ہیں ۔ مہنگائی آمریت کے دور
سے کئی گنا بڑھ چکی ہے ۔ افراطِ زر میں کسی کمی کا کوئی امکان نہیں۔ دہشت
گرد حملوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا بلکہ موجودہ جمہوری دور میں تو
کبھی کبھار ہونے والے ڈرون حملے روزمرّہ کا معمول بن گئے ہیں اور حد تو یہ
ہے کہ حکومت ان پر رسمی احتجاج بھی نہیں کر رہی۔
جمہوریت اور آمریت میں سب سے بڑا فرق فردِ واحد کے فیصلوں اور مشاورت کے
فیصلوں کا ہے لیکن ہمارے ملک میں جمہوری ادوار میں بھی فیصلہ ایک ہی شخص کا
ہوتا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں میں خود جمہوریت نہیں لیڈری نسل در نسل چل رہی ہے
اس کا صلاحیت سے دور دور کا واسطہ نہیں اگر ایسا ہو تو یہ سوائے خوش قسمتی
کے کچھ نہیں ۔ جمہوریت یقیناً ایک بہترین طرزِ حکومت ہے لیکن اگر اس میں
عوام کے مسائل حل ہوں ، انہیں نوکریاں ملیں تاکہ وہ دہشت گردوں کی فوج میں
شامل ہو کر روزگار نہ حاصل کریں۔ مہنگائی نہ ہو بلکہ ضروریاتِ زندگی کا
حصول آسان ہواور عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیا جائے ۔ کیونکہ سیاستدان اس
سب کچھ کیلئے فارغ نہیں اتحاد بنانے اور بگاڑنے میں اپنی توانائی صرف کرنے
کے بعد وہ اتنا تھک چکتے ہیں کہ وہ ان سارے مسائل پر توجہ نہیں دے پاتے
لیکن اب انہیں سوچ لینا چاہیے کہ ملکی تاریخ میں انہیں اپنا نام کس طرح
لکھوانا ہے اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ تاریخ واقعی بڑی بے رحم ہے سیاسی
ناقدین کا قلم تو شاید ان جرائم پر پردہ ڈال دے لیکن کسی بے باک مؤرخ کا
قلم ان تمام جرائم کو ریکارڈ کر کے منظرِ عام پر ضرور لائے گا اور آنے والی
نسلیں ان کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔ |