تحریر جو میں لکھ رہا ہوں یہ کو ئی بیڈروم میں بیٹھ
کر تجزیہ کرنے پر مبنی نہیں ہے بلکہ میں نے خود جا کر کافی لوگوں سے رائے
لی اور نجم حسین سے ملاقات کے لیے بھی گیا انکے پرسنل سیکرٹری سے بھی
ملاقات کی اور بہت سارے سوالات کے جوابات طلب کیے انسے جب یہ پوچھا کہ نجم
صاحب کے ساتھ کس نوعیت کے عوام ہیں مثلاً تاجر برادری ہے ،خواتین ہیں یا
پھر صرف نوجوان ہی انکے نعرے لگا رہے ہیں اس پر انکا کہنا تھا کہ تاجر
حضرات کی بڑی تعداد انکی سپورٹ میں ہے جس کی وجہ انکی سیاست سے ہٹ کر عوام
کی خدمت کرنے کی لگن ہے اور خواتین میں اس لیے مقبول ہیں کہ وہ اجتماعی
شادیاں بھی ہر سال اپنے پیسوں سے کرواتے ہیں اگر دیکھا جائے تو وہ ایک
ویلفئیر سوسائیٹی کے چئیرمین بھی ہو سکتے تھے مگر انکے اس طرح عوام کی
بغیرکسی لالچ کے خدمت کرنے کے عوض عوام نے انہیں اپنے حلقے کا نمائندہ بننے
پر اکسایا اور مجبور کیا کہ آپ الیکشن لڑیں عوام آپکے ساتھ ہیں ۔اور اس طرح
انہوں نے 2013 کے الیکشن میں حصہ لیا اور 30 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے
لیکن بدقسمتی سے ناکام رہے ،وہاں پر بیٹھے حلقہ کے ایک آدمی نے بتایا کہ جب
وہ 2013 کے الیکشن میں ہار گئے تو انکی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ شاید میں
اس قابل نہیں تھا جو عوام نے مجھے پوری طرح سپورٹ نہیں کیا خیر یہ تو انکا
بڑاپن تھا جو انہوں نے یہ کہا اسکے بعد بہت سارے نوجوانوں سے بھی پوچھا کہ
آپکی نجم حسین کو سپورٹ کرنے کی کیا وجہ ہے جس پر انہوں نے کہا کہ یہ واحد
بندہ ہمیں نظر آتا ہے جو ایماندار ہے اور نجم صاحب نے نوجوانوں سے یہ وعدہ
کیا ہے کہ انکو کھیل کے میدان بنا کر دیں گے سپورٹ فیسٹیول کروائینگے ،پینے
کے پانی کا بہت اہم مسئلہ ہے اس حلقے کا اور صاف پانی کی فراہمی انکے منشور
کا حصہ ہے ، اور سیورج کا نظام بھی درہم برہم ہے جسے وہ کامیاب ہوتے ہی حل
کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ انکے حلقے کے عوام کا یہی کہنا تھا کہ نجم
حسین کو جو ڈویلپمنٹ کے کیے فنڈ جاری ہوگا اس کے علاوہ بھی وہ اپنی جیب سے
پیسے لگا سکتے ہیں لیکن کرپشن نہیں کر سکتے ۔انکے سیکرٹری سے جب میں نے
پوچھا کہ کیا کوئی گلہ شکوہ آپکو عمران خان صاحب کی طرف سے بھی ہے ؟ کیونکہ
انہوں نے اتنے سال پی ٹی آئی کے لیے محنت کی اور جب ٹکٹ دینے کا وقت قریب
آیا تو شکیل شاہد نامی بندے کو ٹکٹ دے دیا جسکو جمعہ جمعہ چار دن ہوئے تھے
پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی جوائن کیے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ہم اب
بھی عمران خان صاحب کی پارٹی کے لیے محنت کر رہے ہیں گلہ تو بنتا ہے لیکن
اب ہم خان صاحب اور انکے حواریوں کو بتائیں گے کہ ٹکٹ نہ دے کر بھی ہم نے
الیکشن جیت لیا ہے اور PP-111 کی سیٹ win کر کے پی ٹی آئی کو دیں گے پھر
شائد خان صاحب کو اپنی اس غلطی کا احساس ہو اسکے علاوہ انکا کہنا تھا کہ
علاقہ میں مقیم کرسچن برادری بھی نجم حسین کے ساتھ ہیں کیونکہ ایک دفعہ
ایساہوا کہ اجتماعی شادی کا وقت تھا اور اس ایونٹ پر جو خرچ آنا تھا اسکا
کچھ حصہ زکوٰت پر مشتمل تھا تب اس شادی میں ایک کرسچن فیملی کی بیٹی کی
شادی بھی ہونا تھی مگر مسلم کمیونٹی نے وہا ں مسئلہ اٹھا یا کہ کرسچن کو
زکوٰت نہیں لگتی یہ جب نجم حسین عرف طوطی پہلوان نے سنا تو انہوں نے اپنے
بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جیب سے پیسے نکالے اور اس کرسچن فیملی کی
بیٹی کی شادی پر علیحدہ سے خرچ کیے،اس طرح انکو ہر قسم کے عوام کی سپورٹ ہے
۔
جب میں نے انسے یہ پوچھا کہ آج کل نواز شریف کا احتساب بڑے زورشور سے چل
رہا ہے کیا آپکا بھی احتساب ہونا چاہیے تب انہوں نے کہا کہ بالکل ہمارا بھی
احتساب ہونا چاہیے بلکہ ہر سیاست دان کا احتساب ہونا چاہیے صرف نواز شریف
پر چھری چلانے سے تبدیلی نہیں آ سکتی ۔
اسکے بعد میں نے سوال کیا کہ جس طرح ن لیگ کی جانب سے بار بار یہ کہا جا تا
ہے کہ فوج سیاست میں عمل دخل بند کرے تو کیا آپکو لگتا ہے کہ پاک فوج سیاست
میں حصہ لے رہی ہے جس پر انکا کہنا تھا میں اس بارے میں نہیں جانتا البتہ
جس نے عوام کی جتنی خدمت کی ہوگی اسکو اسی لحاظ سے ووٹ ملیں گے اور ہر دفعہ
جھوٹے وعدے کرنے والوں کو عوام مسترد کر دیں گے کیونکہ عوام اب سیاسی
پارٹیوں کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں اور اچھے شخص کو جو انکو لگتا ہے کہ یہ
ہمارے حلقہ میں بہتری لا سکتا ہے اسے ووٹ کریں گے باقی عوام میں اگر جس
بندے کا دل مجھ پر مطمئن نہیں ہوتا تو اسے چاہیے مجھے بالکل بھی ووٹ نہ دے
میں کسی کو فورس نہیں کرتا اسکے علاوہ باقی تمام حلقہ کے عوام یعنی جس سے
بھی میں نے بات انکا یہی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے نجم حسین کو ٹکٹ نہ دے
کر بہت بڑی غلطی کی ہے مگر پھر بھی انکا ووٹ بنک انسے کوئی نہیں چھین سکتا
ہم پہلے بھی نجم حسین صاحب کے ساتھ تھے اور آج بھی نجم حسین کے ساتھ ہیں
امید نہیں بلکہ یقین ہے وہ ہماری امیدوں پر پورا اتریں گے ۔
یہ سب باتیں سن کر اب میرا تو یہی تجزیہ ہے کہ جمہوریت میں عوام کی رائے
مانی جاتی ہے اب اس سسٹم کے لحاظ سے اس حلقہ کے عوام اگر ایک آزاد امیدوار
جنکا انتخابی نشان طوطا ہے اور اگر طوطے پر مہر لگاتے ہیں تو اس پر کسی کو
کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اسی طرح اگر کسی امیدوار کا نشان
شیر،بلاً، تیر یا کتاب ہے تو عوام اس پر مہر لگا کر انکو کامیاب کرواتے ہیں
تو ظاہر سی بات ہے عوام کی رائے سے ہی منتخب ہونگے جس کو ماننا ہمارا
اخلاقی فرض بھی بنتا ہے۔بہرکیف PP-111 کی کیفیت آپ تک پہنچائی اور کوشش
کروں گا اور بھی ایسے سچے سیاست دان تلاش کروں جو عوام میں خدمت کرنے کے
حوالہ سے جانے جاتے ہیں ناکہ بدمعاشی کی رو سے۔۔۔!
|